جوانوں کو پیروں کا استاد کر

January 02, 2021

گزشتہ حکومتوں کو جو مشکلات اچھا خاصا دورانیہ گزارنے کے بعد درپیش ہوتی تھیں، موجودہ حکومت کی یہ بدقسمتی یا اناڑی پن ہے کہ اُسے ناپسندیدگی یا ہٹاؤ گراؤ کا چیلنج محض ڈھائی سال بعد ہی درپیش ہے۔ اِس کی بڑی وجہ خود اُس کی اپنی قیادت کا غیرذمہ دارانہ، غیرسیاسی رویہ ہے۔ اگرچہ اُس کے تناؤ میں اب اتنا جھکاؤ ضرور آ چکا ہے کہ اپنی جن اتحادی پارٹیوں کو وہ اِس سےقبل کسی کھاتے میں نہیں لکھ رہے تھے، اب اُن کے درِ دولت پر حاضری دیتے ہیں۔ اِس اکڑفوں ختم ہونے کے باوجود بڑے چوہدری صاحب کا جو تازہ بیان سامنے آیا ہے وہ سیاسی بصیرت کے حوالے سے چشم کشا ہے۔ رہ گئی پی ڈی ایم اور اُس کی ٹوٹ پھوٹ کے حوالے سے غیرسیاسی پریشر گروپ کی تمنائیں یا حسرتیں، وقت کے ساتھ وہ بھی محض خوش فہمیاں ثابت ہوں گی کیونکہ سیاسی پختگی و شعور کے حوالے سے نہ تو مولانا کم ہیں اور نہ لندن و لاڑکانہ میں بیٹھے بزرگ، جہاں تک اپوزیشن کی جواں سال قیادت کا تعلق ہے، اُنہوں نے اب تک جو کارکردگی دکھائی ہے، وہ نہ صرف قابلِ ستائش ہے بلکہ اُسے ملاحظہ کرتے ہوئے پورے اعتماد سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ”جوانوں کو حکومتی پیروں کا استاد کر“۔ محترمہ بےنظیر بھٹو کی شخصیت اور سیاسی افکار محض پی پی نہیں تمام اہلِ وطن کا مشترکہ قیمتی اثاثہ ہیں جنہیں ہمارے تعلیمی نصاب میں شامل کیا جانا چاہئے تھا مگر سیاسی نابالغوں یا غیرسیاسی لوگوں نے اُن کا نام ہٹا کر ایک طرح سے اُن کے چاہنے والوں کے احساسات پر ہی نہیں، قومی یکجہتی کے جذبات پر بھی چوٹ لگائی ہے۔ میاں صاحب کی بہادر بیٹی نے محترمہ کی برسی میں شرکت کرتے ہوئے اپنے جن جینوئن خیالات کا اظہار کیا ہے، اُس تدبر پر اُن کی ستائش بنتی ہے۔ اُن کا یہ کہنا کہ محترمہ پر قاتلانہ حملہ ہونے کے بعد میاں صاحب سیکورٹی تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جس اپنائیت و وارفتگی کے ساتھ اسپتال پہنچے اور محترمہ کی شہادت کا سن کر وہ جس قدر دکھی ہوئے، اُس سے میاں صاحب کے دل میں اُن کی عزت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مریم بی بی کو یہ بھی بتانا چاہئے تھا کہ اپنی شہادت سے چند لمحات پہلے محترمہ جس شخصیت سے گفتگو کرنا چاہتی تھیں وہ میاں صاحب ہی تھے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ماورائی طاقتوں نے 90کی دہائی میں ہر دو شخصیات کو جس طرح باہم دست و گریبان کیے رکھا، اُس غلطی سے بعد ازاں ہر دو شخصیات نے بہت کچھ سیکھا۔ چارٹر آف ڈیمو کریسی اِن دونوں بڑے سیاستدانوں کی سیاسی پختگی اور بالغ نظری کا ظہور و ثبوت تھا اگرچہ غلطیاں بعد میں بھی ہوئیں لیکن سیاسی حریف ہونے کے باوجود کم از کم میاں صاحب کی طرف سے اِس نوع کی تلخی کبھی نہیں ظاہر کی گئی جس سے آج ہماری موجودہ سیاسی صورتحال متاثر ہے۔ یہ میاں صاحب ہی تھے جنہوں نے ماورائی طاقتوں سے منہ موڑ کر بی بی کی قبر پر حاضری دیتے ہوئے یہ کہا کہ محترمہ کا جمہوری مشن ہی میرا مشن ہوگا۔

محترمہ کی زندگی پر اگر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو اُن کی سب سے بڑی سیاسی غلطی 1985کے مارشل لائی انتخابات کا بائیکاٹ قرار دی جائے گی جس کا اُنہیں مابعد ادراک بھی رہا اور یہ محترمہ ہی تھیں جنہوں نے 2008کے الیکشن سے قبل میاں صاحب کو اپنے فکری استدلال کے ساتھ اِس بات پر قائل کیا کہ وہ کسی بھی صورت انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کریں گے حالانکہ کچھ مذہبی گروہ اِس حوالے سے اُنہیں پوری طرح اُکسا رہے تھے۔ سیاست میں حکمت عملی کے لحاظ سے انتخابی بائیکاٹ کوئی شجر ممنوع نہیں ہے مگر درپیش صورتحال کو تدبر کے ساتھ دیکھتے ہوئے آؤٹ پٹ پر نظر رکھی جاتی ہے کہ وہ سیاست و جمہوریت کے حق میں ہے یا خلاف۔ موجودہ حالات میں مولانا کی تمنائیں جتنی بھی پاکیزہ و بلند تر ہیں، بہت سے عقیدت مندوں کی نظروں میں اُن کا جذبہ عزیمت قابلِ داد ہو سکتا ہے لیکن پی پی کے جواں سال چیئرمین نے جو کچھ اِس حوالے سے کہا ہے، غلط وہ بھی نہیں ہیں۔ اُن کے والد صاحب نے کہا ہے کہ وہ مکھن سے بال یا مکھی کو دودھ سے جس طرح پہلے نکال چکے ہیں، وہی کرتب اب بھی دکھائیں گے۔ یہ بحث اپنی جگہ لیکن بلاول کی والدہ محترمہ نے اُنہیں جو سیاسی پیغام دے رکھا ہے، اِس پر مریم بی بی کو بھی ضرور غور کرنا چاہئے کہ آپ نے کوئی بھی ایسا اقدام نہیں کرنا جس سے قومی سیاست و جمہوریت کو زک پہنچنے کا قوی امکان ہو۔ آپ اپنی عزیمت والی جدوجہد ضرور جاری رکھیں لیکن ہر اقدام کا ایک موزوں وقت ہوتا ہے۔ سیاسی و جمہوری جدوجہد میں جہاں مولانا صاحب جیسے جذبوں کی ضرورت ہوتی ہے وہیں سیاسی حکمت و تدبر کی افادیت سے بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ تمام کشتیاں جلا کر آگے بڑھنے کی اپنی اہمیت ہو گی مگر فی زمانہ شعوری ترقی نے یہ سمجھایا ہے کہ بڑے رسک سے بچتے ہوئے بہتر آؤٹ پٹ کیسے حاصل کی جائے، سینیٹ سے آؤٹ ہو کر اب تک کی سیاسی جدوجہد پر پانی نہیں پھیرا جانا چاہئے۔ حساس جمہوری جدوجہد کی راہ میں ایک ایک قدم ناپ تول کر اور دیکھ بھال کر اٹھانا پڑتا ہے۔ یہ محض سیاست یا حصولِ اقتدار کی جنگ نہیں ہے، بائیس کروڑ عوام کی تقدیر کا مسئلہ ہے اور آپ لوگ یہ فیصلہ کرنے جا رہے ہیں کہ ہم نے اِس ملک کو ترقی یافتہ اقوامِ عالم کی طرح جینوئن جمہوری و آئینی بنیادوں پر استوار کرنا ہے نہ کہ چوہے بلی کے روایتی 70سالہ کھیل کو جاری و ساری رہنے دینا ہے۔ اِس عظیم مقصد کی خاطر دس سالہ بیانیے والی سوچ غلط نہیں ہے، اِسی تدبر اور حوصلے کے ساتھ آگے بڑھیں گے تو ثمرات آپ کے قدموں میں ہوں گے لیکن یہ امر پیشِ نظر رہے کہ بھاری چیلنج ہمیشہ غیرمعمولی جدوجہد کا تقاضا کرتا ہے۔