تعلیم ِبالغاں

January 03, 2021

’’بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے‘‘ کی اگر حقیقی معنوں میں تشریح مقصود ہو تو آپ دور کی کوڑی لانے کی بجائے صاف کہہ دیں کہ کیا آپ پاکستان کی سیاست کی بات کر رہے ہیں؟ اگر کسی نے اِس محاورے کا حقیقی رنگ دیکھنا ہو تو صرف پاکستان کی سیاست کے رنگ دیکھے کہ کس طرح بدلتے ہیں۔ یہاں بےموسمی بارش کبھی بھی ہو سکتی ہے۔ محکمہ ماحولیات و زراعت کے حکام کی باہمی کشمکش کے نتیجے میں یہ محاورہ بھی ہمارے سیاسی نظام پر من و عن نشانے پر بیٹھتا ہے کہ جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔ آپ کبھی بھی کسی بھی صورت پاکستان کی سیاست بارے کوئی حتمی رائے قائم نہیں کر سکتے کہ آئندہ چند دنوں، ہفتوں یا مہینوں میں کیا ہونے والا ہے؟ جیسے عوام ویسے حکمران، یہ نظام دھکے شاہی خوابوں، خیالوں، مفروضوں پر ہی چلتا جارہا ہے۔ ابھی کچھ ہفتوں پہلے کی تو بات ہے کہ پی ڈی ایم کے نام سے بڑے مولانا صاحب کی قیادت میں جو شامِ غریباں برپا کی گئی تھی جس طرح غریبوں کے نام پر صاحبِ اقتدار لوگوں کی ایسی تیسی پھیرنے کے اعلانات کئے جارہے تھے۔ حکومت آج گئی یا کل کے خواب دیکھے دکھائے جارہے تھے۔ استعفے آرہے ہیں، استعفے جارہے ہیں، پہلے لانگ مارچ پھر دھرنا ہوگا۔ ہمارے عدالتی نظام کی طرح تاریخ پر تاریخ ہی پڑتی جا رہی ہے۔ مہربان، قدر دان یہ سب کھیل تماشے کھلی اور بند آنکھوں دیکھے جا رہے تھے کہ ایک ہی ہفتے میں اپوزیشن کے استعفوں، لانگ مارچ، دھرنے کا دھڑن تختہ ہوگیا۔ سب خواب چکنا چور کردیے گئے۔ حکمران ہیں کہ بڑے خان صاحب کی قیادت میں بغیر تیاری اقتدار میں چلے آئے۔ اپوزیشن کی حالت یہ ہے کہ سوچے سمجھے بغیر بنا کسی عوامی ایجنڈے کے رنگ جمانے چلی آئی۔ عوام ہیں کہ اِن دونوں کی آنیاں جانیاں دیکھتے ہی رہ گئے اور اب سر پکڑے بیٹھے ہیں کہ ہمارا کن لوگوں سے واسطہ پڑ گیا ہے۔ ایک کپتان ہے جو وعدے تو آسمان سے تارے توڑ کر لانے کے کرتا ہے اور پھر خود ہی کہتا ہے کہ میری ٹیم کی ابھی تیاری ہی نہیں تھی۔ دوسری طرف اپوزیشن کے سیاست دان ہیں جنہوں نے حکومت کے خلاف تحریک تو چلا دی لیکن ایجنڈا صرف حکومت گراؤ تھا، عوام بچاؤ نہیں۔ اِنہوں نے عوام کی غربت، مہنگائی کا بھی مذاق اُڑایا۔ وہ جو روٹی، کپڑا، مکان کے دعوے داروں کے وارث بلاول بھٹو ہوں یا جاتی امرا محل کی رانی یا پھر ڈیرے دار بڑے مولانا صاحب۔ سب کے سب صرف بغضِ عمران میں ہی مبتلا ہیں، کوئی محبِ عوام نہیں۔ نسل در نسل دھوکہ ہی دھوکہ، جس انداز میں قدر دانوں نے لمحہ بہ لمحہ اِس ملک کی سیاسی جڑوں کو مضبوط کرنے والے تن آور درخت کو کھوکھلا کیا ہے اور جس طرح سیاسی نرسری کی بنیاد تعلیمی اداروں کو سیاست سے پاک کرنے کے نام پر سرے سے ہی اِس درخت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے اور اظہارِ رائے کی آزادی پر پابندیاں لگائی ہیں اور جس خوف کے نتیجے میں بلوچستان سمیت ملک بھر میں سیاسی بےگناہوں کو آنکھوں سے اوجھل کیا ہے، آج اُسی کا نتیجہ ہے کہ اِس نظام میں قیادت کا قحط پڑ چکا ہے۔ یہ وہ گندا پرا گندہ سیاسی دھندا ہے جس میں کسی غریب کا بچہ اقتدار میں آہی نہیں سکتا۔ آج وہ تمام راستے بند ہیں جن سے گزر کر ہم پاکستان کی سیاسی بنیادیں مضبوط کر سکیں۔ آج کی سیاست باپ دادوں کی جاگیروں کی طرح چاچوں، ماموں کے اردگرد گھومتی پھیلتی چلی جارہی ہے۔ جب تک اس نظام میں غریب کا داخلہ ممنوع ہوگا، مزدور کو نمائندگی نہیں دی جائے گی، کسان اپنی آواز اٹھانے سے محروم رہے گا اور صرف صنعت کار، سرمایہ دار، جاگیردار کی اجارہ داری رہ جائے گی۔ اے ٹی ایم مشینوں پر چلنے والا یہ نظامِ حکومت آئے دن وینٹی لیٹر پر ہی رہے گا اور کسی بھی وقت اِس نظام کی سانسیں ایسی رُکیں گی کہ اِنہیں دوبارہ بحال کرنا کسی مسیحا کے بس کی بات نہیں رہے گی۔ دنیا کی کامیاب ترین ریاستوں کو کھلی آنکھ سے دیکھیں تو آپ کو کہیں بھی ایسی اجارہ داری نظر نہیں آئے گی، وہی نظام کامیاب و کامران نظر آتے ہیں جہاں ہر انسان کو آزادانہ بنیادی حقوق حاصل ہوں، ایسے نظام میں غریب کا ہونہار بچہ، ایک چائے والا، کسان، مزدور وزارتِ عظمیٰ یا کسی بھی متعلقہ شعبے کا وزیر، مشیر یا سربراہ بن سکتا ہے، ایسے نظام مافیا کے سر پر نہیں چلتے لیکن پاکستان کا باوا آدم ہی نرالا ہے کہ جن غریبوں، مزدوروں، کسانوں، ہونہار طالب علموں کی نوے فیصد سے زائد اکثریت کے ووٹوں سے یہ اجارہ دار حاکم بنتے ہیں اور انہیں محکوم بناتے ہیں ایسا انوکھا نظام ریاست دنیا میں کہیں نہیں دیکھا یا پایا جاتا۔ جس نظام حکومت پر دس فیصد اقلیت نوے فیصد کے حقوق پر قابض ہو اور وہ اکثریت کو غلاموں کی طرح ہانکے۔ بقول شاعر عوام حبیب جالبؔ مرحوم

ایسے دستور کو صبح بےنور کو

میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

اگرچہ اِس شکنجے سے نجات ممکن نظر نہیں آتی۔ پھر بھی کوئی ایسی تدبیر کی جانی چاہئے کہ بند راستے کھلیں۔ بہتر یہی ہے کہ اناڑی کھلاڑیوں کی ٹیم اور سیاست دان بابوں کی اجارہ داری ختم کرکے اُنہیں مدرسہ تعلیمِ بالغاں میں سیاسی اخلاقیات اور سیاست کی الف ب ازبر کرنے بھیج دیا جائے اور مزدوروں، کسانوں، کاشت کاروں، نوجوانوں، انسانی حقوق کے علم برداروں، دانش وروں کے حقیقی نمائندوں کو قومی و صوبائی سطح پر عوامی نمائندگی کا حق ادا کرنے کا موقع فراہم کیا جائے جو پارلیمنٹ میں آزادانہ اپنے اپنے شعبوں، عوام کے بنیادی مسائل، حقوق کی دیانت دارانہ جنگ لڑ سکیں۔ آج پاکستان کی سیاست کا یہی المیہ ہے کہ لمحہ بہ لمحہ اِن تمام شعبوں کے نمائندوں کو تمام سیاسی جماعتوں نے نہ صرف اپنے کارکنوں اور رہنماؤں کی صف سے نکال دیا ہے بلکہ چند سطری منشور میں بھی کسی جماعت نے اِن لوگوں کو واضح نمائندگی نہیں دی۔ مدرسہ تعلیم بالغاں کا پہلا درس یہی ہے کہ نوے فیصد اکثریت پر دس فیصد پاٹے خانوں کی اجارہ داری ختم کی جائے۔