فن کے نام پر گندگی کے ڈھیر!

January 11, 2021

میں کسی زمانے میں پنجابی فلمیں بھی دیکھتا تھا اور اس کے بعد سے آج تک میں ان فلموں کے اس ’’شاعر‘‘ کو ڈھونڈ رہا ہوں جس کے ذہن کے پاتال کا اندازہ لگانے کے لئے اس کے دماغ کی ’’کھدائی‘‘ کرنا پڑے گی تاکہ پتہ تو چلے کہ وہ اتنی گندی باتیں سوچتا کیسے ہے۔ اس کے بعد اس گلوکارہ کی تلاش میں بھی ہوں جس نے یہ گانے گائے ہیں اور اس موسیقار کی تلاش بھی جاری ہے جس کے ضمیر نے ان گانوں کی دھن بنانے پر رضا مندی ظاہر کی۔ اسی طرح پروڈیوسر، جن اداکارائوں پر یہ گانے فلمائے گئے اور سنسر بورڈ کے وہ ارکان جنہوں نے یہ گانے ’’پاس‘‘ کئے میں مجبوراً ان لوگوں کو ڈھونڈ رہا ہوں کیونکہ یہ کام تو پولیس کا تھا جو انہیں تلاش کرنے کے بعد تھانے کے ’’ڈرائنگ روم‘‘ میں زمین پر بٹھا کر یا لٹا کر اپنے روایتی طریقے سے انہیں بھرپور ’’خراج تحسین‘‘ پیش کرے، اس ’’خراج تحسین ‘‘ کا اولین حصہ دراصل پنجاب کی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے جس کے عین ناک تلے یہ سب کچھ ہوتا رہا ہے۔ دوسری طرف ہماری دہری اخلاقیات کا یہ عالم ہے کہ اپنے کالم میں، میں ان بدبو دار گانوں کا ذکر تو کر سکتا ہوں۔ ان کے کچھ ’’نمونے‘‘ پیش نہیں کر سکتا اس پر مجھے ایک پرانی پاکستانی فلم ’’سات لاکھ‘‘ کا یہ ڈائیلاگ یاد آ رہا ہےکہ ’’سات لاکھ روپے تم گن سکتے ہو۔ خرچ نہیں کر سکتے‘‘ سو آپ ان گانوں کے بول میرے کالم میں پڑھ نہیں سکتے۔ پرائیویٹ تھیٹروں میں دو ہزار سے پانچ ہزار روپے تک کا ٹکٹ خرید کر آپ نہ صرف ان گانوں کے بول سن سکتے ہیں (اگر ان دنوں تھیٹر کھل گئے ہیں) بلکہ یہ ’’بول و براز‘‘ عملی صورت میں دیکھ بھی سکتے ہیں۔ پنجاب کے تھیٹروں میں کامیڈی کے نام پر جو نام نہاد ڈرامے دکھائے جاتے ہیں ان کی خصوصیت ’’صرف فحش گانوں پر فحش ڈانس ہی نہیں ہیں بلکہ ان میں ہماری تمام اقدار کو پائوں تلے روندا جا رہا ہے۔ ’’اداکار‘‘ اور ’’اداکارائیں‘‘ ایک دوسرے کی بیٹیوں، بہنوں اور مائوں کے حوالے سے جو باتیں کرتے ہیں اگر ان ’’فنکاروں‘‘ کے اہل خانہ کو اس کا علم ہے اور وہ اس کے باوجود ان کے ساتھ زندگی گزار رہے ہوں تو یہ بڑے ’’حوصلے‘‘ کی بات ہے۔ ان ڈراموں میں کالی رنگت کا بھی مذاق اڑایا جاتا ہے۔ چھوٹے قد کو استہزا کا نشانہ بنانا بھی عام ہے۔ ’’تماشائیوں‘‘ کو ہنسانے کے لئے یہ ’’فنکار‘‘ ایک دوسرے کے سروں اور کئی دفعہ چہروں پر بھی جوتے مارتے ہیں۔ ان ’’ڈراموں‘‘ میں امرد پرستی کا پرچار بھی ہوتا ہے اور اس کے فائدے بیان کئے جاتے ہیں۔ مختلف قومیتوں کے لوگوں کو مذاق کا نشانہ بنانا بھی ان ’’ڈراموں‘‘ میں مرد ’’اداکار‘‘ خود کو ’’کنجر‘‘ اور خواتین ’’اداکارائیں‘‘ خود کو بالواسطہ طور پر ’’طوائف‘‘ کہلانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتیں۔ یہ پرائیویٹ تھیٹر نہ صرف ہماری تمام اقدار کو تہس نہس کرنے پر تلا رہا بلکہ قومی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کا ’’فریضہ‘‘ بھی انجام دیتا ہے اور اسے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اور اس ساری صورتحال میں ایک عبرتناک پہلو اور بھی ہے اور وہ یہ کہ اوپر کی سطور میں میں نے جن ’’فنکاروں‘‘ کا ذکر کیا ہے‘‘ ان کی ایک بڑی تعداد ’’حاجیوں‘‘ اور ’’حاجنوں‘‘ پر مشتمل ہے، ان میں سے کچھ تو پانچ پانچ حج بھی کر چکے ہیں۔ اس گروہ کے ارکان فحش گوئی میں وقفہ کے دوران نماز بھی ادا کرتے ہیں۔ ان سب کو اس ’’نیک رستے‘‘ پر ایک مولانا نے چلایا ہے جن کی طرف سے انہیں یہ سب کچھ کرنے کی اجازت ہے، پابندی صرف یہ ہے کہ وہ اس کے ساتھ ساتھ نماز روزہ کرتے رہیں۔ حج اور عمرے بھی کریں اور سمجھیں کہ اس کے نتیجے میں لکڑ ہضم، پتھر ہضم اور اس کے علاوہ بھی سب کچھ ہضم ہو جائے گا۔ اس سارے معاملے کا ایک درد ناک پہلو یہ بھی ہے کہ متذکرہ ڈراموں کی سی ڈیز تیار کرنے والوں میں بھی حاجی صاحبان شامل ہیں۔ یہ گندگی اگر چند تھیٹروں تک محدود رہتی تو اس کے نقصانات کا دائرہ محدود ہوتا لیکن یہ سی ڈیز کی صورت میں کیبلز پر بھی دکھائی جاتی ہیں اور یوں یہ ناقابل برداشت مواد ہر گھر کے دروازے پر دستک دیتا نظر آتا ہے۔ تاہم خدا کا شکر ہے کہ اس قبیل میں چند افراد ایسے بھی ہیں جو واقعی فنکار ہیں اور وہ کسی بھی صورت اس گندگی میں ملوث ہونے کے لئے تیار نہیں۔ انہوں نے فن کے منہ پر کالک ملنا پسند نہیں کیا بلکہ وہ خود اس ٹولے کے خلاف مہم چلاتے ہیں جس پر ایک فنکار کو قتل کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ اب وہ تھک ہار کر بیٹھ گیا ہے جبکہ میری خواہش ہے ان کالی بھیڑوں کے خلاف جہاد کا آغاز نئے سرے سے کیا جائے جو فنکار برادری کو بدنام کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ اس ضمن میں پنجاب حکومت کا جو فرض ہے وہ یقیناً اس سے باخبر ہے لیکن اس نے ابھی تک ان لوگوں پر ہاتھ ڈالنے کے لئے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا جو اقدار کی پامالی کے علاوہ کھلم کھلا ملکی قوانین کا بھی عملی طور پر مذاق اڑا رہے ہیں۔