جھوٹ کا انجام

January 30, 2021

زینب ماہ نور، ملتان

بچو! یہ تو آپ جانتے ہوں گےکہ جھوٹ بولنا گناہ عظیم ہے اور دروغ گوئی، اللہ تعالیٰ کو بھی ناپسند ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جھوٹا شخص جلد یا بدیر اپنے انجام کو پہنچتا ہے۔ یہ کہانی ایسے ہی ایک جھوٹےچرواہے کی ہے جوجھوٹ بول کر لوگوں کو پریشان کرتا تھا اور ایک وقت ایسا آیا کہ لوگوں نے اس کی سچی بات پربھی یقین کرنا چھوڑ دیا۔ چرواہے کا گاؤں گھنے جنگل کے ساتھ بسا ہوا تھا۔ گاؤں کے باسی آپس میں مل جل کر اور بھائی چارے کے ساتھ رہتے تھے، ہر وقت ایک دوسرے کی مدد کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ جنگل خوں خوار درندوں اور جنگلی جانوروں سے بھرا ہوا تھا جب کہ اس کے دوسرے سرے پرشیروں کا مسکن تھا۔

گیدڑ، لومڑی اور بھیڑیوں کی وجہ سے دیہاتی بہت پریشان رہتے تھے کیوں کہ وہ اکثر و بیشتررات کو جنگل سے نکل کر گاؤں میں گھس آتے اور ان کی مرغیاں اور بکریاں اٹھا کر لے جاتے تھے جب کہ کبھی کبھار وہ اکا دکا آتے جاتےلوگوں پر بھی حملہ کردیتے تھے۔ نمبر دار نے گاؤں کی حفاظت کے لیے پہریداری نظام قائم کیا تھااور گاؤں کےلوگ ہمیشہ چوکس رہتے تھے۔ کسی بھی خطرے کی صورت میں وہ ڈنڈے اور کلہاڑیاں لے کر جنگل میں گھس جاتے جنہیں دیکھ کر جنگلی جانور بھاگ جاتے تھے۔ دن اور رات میںان روایتی ہتھیاروں سے لیس نوجوانوں کی باری باری ڈیوٹیاں لگتی تھیں جو گاؤں کے داخلی راستوںپر پہرہ دیا کرتھے ۔

یہاں کے لوگوںکی گزر بسر کا انحصار کاشت کاری اور گلہ بانی پر تھا۔ چرواہے صبح کے وقت بکریوں کے ریوڑ لے کر جنگل چلےجاتے تھے ، بکریاں گھاس چرتی رہتیں اور وہ ان کے قریب بیٹھے حقے کے کش لگاتے یا زمین پر چادر بچھا کر آرام کرتے اور شام کو بکریوں کو لے کر واپس گاؤں آجاتے تھے۔تمام چرواہے جنگل میںگاؤں سے نزدیکی حصے میں ایک دوسرے سے قدرے فاصلے پر مویشی چرایا کرتے تھے۔ ان میں سے ایک چرواہاجو نو عمر لڑکا تھا، بہت شرارتی تھا ۔ گاؤں کے تمام لوگ اس کی شرارتوں سے عاجزتھے۔

ایک روز چرواہے کو شرارت سوجھی اور وہ ایک ٹیلے پر چڑھ کر چیخنے لگا، ’’گاؤں والوں دوڑو، شیر آگیا ہے، مجھے بچاؤ ، وہ بکریوں پر حملہ کررہا ہے،مجھے بھی کھا جائے گا‘‘۔ اس کی چیخ و پکار سن کر گاؤںکے لوگ نمبردار کے ساتھ ہتھیار لے کر جنگل کی طرف دوڑے۔جب وہ جنگل کے اس حصے میں پہنچے جہاں شرارتی لکڑہارا گلہ بانی کرتا تھا۔انہوں نے دیکھا کہ وہاں نہ تو شیر ہے اور نہ ہی کوئی دوسرا جانور، بکریاں اطمینان سے گھاس چر تی پھررہی تھیں جب کہ چرواہا ایک اونچےٹیلے پر کھڑا ہنس رہا تھا۔ نمبردار نے چرواہے سے ڈپٹ کر پوچھا، ’’ شیر کہاں ہے‘‘۔

اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا، ’’یہاںکوئی شیر نہیں ہے، میں تو مذاق کررہا تھا،‘‘۔ نمبردار سمیت تمام لوگ اسے برا بھلا کہتے ہوئے واپس گاؤں چلے گئے۔ اس طرح کی حرکت اس نے کئی مرتبہ کرکے گاؤں والوں کو پریشان کیا۔ اس کی خوف زدہ آواز میں چیخ و پکار سن کر گاؤں کے لوگ اس کی مدد کے لیے دوڑے آتے لیکن لڑکے کوٹیلے پر کھڑا ہنستے دیکھ کر غصے کے عالم میں واپس چلے جاتے۔

اس کے مسلسل جھوٹ کی وجہ سے انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب وہ مزید بے وقوف نہیں بنیں گے۔ اب چرواہا جتنا بھی شور و غل کرے،، کوئی جنگل کی طرف نہیں جائے گا۔ ایک دن اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک بھوکا شیر شکار تلاش کرتا ہوا جنگل کے اس حصے میں آ نکلا جہاں شرارتی چرواہا بکریاں چرا رہا تھا۔ ’’شیر آیا ، شیر آیا کا شور مچانے والے لڑکے نے جب حقیقت میںشیر کو خود سے اتنا قریب دیکھا تو وہ خوفزدہ ہوکر ٹیلے کی طرف بھاگا اور اس پر چڑھ کر شور مچانے لگا، ’’ گاؤں والو دوڑو، شیر واقعی آگیا ہے، اس دفعہ میں جھوٹ نہیں بول رہا ہوں‘‘۔ ’’اس نے کئی بکریوں کو مار دیا ہے ، اب میری طرف بڑھ رہا، خدا کے لیے مجھے بچاؤ، ورنہ مجھے کھا جائے گا،’’۔ گاؤں والے اس کی چیخ و پکار کومذاق سمجھ کر ٹال گئے۔ شیر ٹیلے پر چڑھ گیا اور اس نے چرواہے پر چھلانگ لگائی۔ آناً فاناً اسے چیر پھاڑ کر کھا گیا۔ چرواہا چیختا رہا، فریاد کرتا رہا لیکن اس بار اس کی مدد کو کوئی نہیں آیا۔

شیر کے حملے سے بچ کر کچھ بکریاں زخمی ہوکر بدحواسی کے عالم میں گاؤں کی طرف بھاگیں۔ گاؤں کے لوگوں نے جب بکریوں کو دیکھا جن کا بدن شیر کے پنجوں اور نوکیلے دانتوں سے ادھڑا ہوا تھا، تو انہیں شرارتی چرواہے کی فکرلاحق ہوئی۔ وہ سب ڈنڈےاور کلہاڑیاں لے کر جنگل کی طرف بھاگے لیکن چرواہا انہیں کہیں نظر نہیں آیا۔ چند افراد ٹیلے پر چڑھے تو انہوں نے دیکھا کہ وہاں چرواہے کے کپڑوں کے چیتھڑے ، خون اور اس کے جسم کے چند ٹکڑے پڑے تھے۔

شیر چرواہے کو مارنے کے بعداسے منہ میں دبا کر اپنے ٹھکانے کی طرف لوٹ گیا تھا۔ نمبر دار سمیت تمام دیہاتی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے گاؤں واپس چلے گئے۔ دیکھا بچو، آئے روز ’’شیر آٍیا، شیر آیا ‘‘ کا شور مچانے والاشرارتی چرواہا، ایک دن سچ مچ شیر کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچ گیا۔