کورونا اور پچکے گال

January 20, 2021

(گزشتہ سے پیوستہ)

ملک کی ہر دیوار پہ لکھا ہوا ہے: اگر آپ کا جسم لاغر اور گال پچکے ہوئے ہیں تو ہمارے پاس ہے خمیرہ ٔ ہرکولیس۔ یہ وہی لوگ ہیں، جو نبض سے کینسر کی تشخیص کا دعویٰ کرتے ہیں۔

اب پچکے ہوئے گالوں کی سنیں۔ ایک لڑکا مجھے ملا اور اس نے بتایا کہ بے واہ روی و بے اعتدالی کی وجہ سے اس کی صحت تباہ ہو چکی ہے۔ اس کے گال پچک چکے تھے۔ اسے قبض رہتی تھی۔ اکثر اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا آجاتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ بے اعتدالی کی وجہ سے میرا قد بڑا نہیں ہوا۔ ہڈیوں میں ہوا بھر چکی ہے۔ کمر میں درد ہے۔ وہ سنجیدگی سے خودکشی کے بارے میں سوچ رہا تھا ۔وہ یہ بتانے میں ناکام رہا کہ ریڑھ کی ہڈی میں درد ہے کس جگہ۔

میں سر پکڑ کے بیٹھ گیا۔ میں نے اسے بتایا کہ اس کی ہڈیوں میں ہرگز ہوا نہیں بھری۔ وہ ہڈیوں کے ٹیسٹ کروا کے دیکھ سکتاہے۔ اس کی کمر میں درد کہیں نہیں، بلکہ یہ خالصتاً نفسیاتی مسئلہ ہے۔ اس نے کہیںسے پڑھ لیا تھا کہ بے راہ روی اختیار کرنے والوں کی ریڑھ کی ہڈی میں درد رہتاہے۔ کچھ لوگوں میں بستر سے تیزی سے اٹھتے ہوئے بلڈ پریشر میں فرق آتا ہے، اس وجہ سے اسے آنکھوں کے سامنے اندھیرا محسوس ہوتاہے۔قبض کی وجہ پریشانی تھی۔

میں نے اسے کہا کہ میں اتنا جانتا ہوں کہ توبہ کرنے والوں سے ﷲ محبت کرتاہے۔ بطور ایک عام آدمی کے ،جتنا میں میڈیکل سائنس کو جانتا ہوں ،اس کی جنسی و جسمانی صحت بالکل ٹھیک ہے۔ گال پچکے ہوئے نہیں بلکہ قد بڑھنے کی عمر کی وجہ سے چہرہ کمزور ہے ۔اس عمر میں اکثر لوگ سکّے سڑے ہی ہوتے ہیں۔بے راہ روی کا قد پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ قد جینیٹکس پر منحصر ہوتاہے ؛البتہ اگر کوئی شدید غذائی کمی کا شکار ہو تو الگ بات ہے ۔قد جینز میں لکھا ہوتاہے اور کوئی دوا اس میں اضافہ نہیں کر سکتی۔ اسی طرح بال بھی جینیٹکس کی وجہ سے گرتے ہیں ۔ایک بے راہ رو شخص بھی جسمانی طور پر مکمل اور بھرپور صحت مند ہو سکتا ہے ۔

ایک پوری نسل کو ان درندوں نے ذہنی طور پر بیمار کر ڈالا ہے۔ علاج کے نام پر وہ انہیں چاندی کے ورق ملی ادویات کھلاتے ہیں، گردے جنہیں فلٹر نہیں کر پاتے۔ میرے دوست ناصر حسین کا چچا زاد ایسی ہی ایک دوا کھا کر گردے تباہ کروا بیٹھا ۔میرے دوست کی بہن اسما اصغر ﷲ کو پیاری ہو گئی۔

انسانی طبی تاریخ میں جو سب سے بڑا دھوکہ ان پڑھ لوگوں نے پڑھے لکھوں کو دیا، وہ نبض شناسی ہے۔ نبض دل کی دھڑکن ہے، جس سے قلب کے بارے میں ذرا سی معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ ان فراڈیوں نے اپنی دھاک بٹھانے کے لیے یہ دعویٰ کیا کہ نبض سے ہم کینسر، ہیپا ٹائٹس، ذیابیطس اور گنٹھیا سمیت ساری بیماریوں کی تشخیص کر سکتے ہیں اور ہم مان بھی گئے۔ تازہ لطیفہ سنیے ایک شخص کو سردرد لاحق تھا۔ حکیم صاحب نے اس کی نبض پہ ہاتھ رکھا اور ارشاد کیا:کچھ سال پہلے آپ نے کسی داڑھ کی فلنگ کروائی تھی۔ یہ درد اس فلنگ میں ہو رہا ہے ،سر میں نہیں۔میڈیکل سائنس کے ساتھ اس سے بڑا لطیفہ اور کیا ہو سکتاہے۔ اس مریض سے بڑا بغلول اور کون ہو سکتاہے، جسے یہ نہ پتہ چلے کہ درد دانت میں ہے یا سر میں؟ اب یہ لوگ نبض پر ہاتھ رکھ کر دنیا میں آنے والے بچّے کی جنس بھی بتائیں گے۔

کورونا کے ہنگام بعض کالم نگاروں نے جز وقتی حکمت شروع کر دی۔ اپنے کالموں میں لکھا کہ جسے کورونا لاحق ہو، وہ تین قطرے اس دوا کے ڈالے اور چار قطرے اُس دوا کے ۔انتہائی Non Professionalرویہ۔ آپ کے پاس طب کی ایسی کون سی ڈگری ہے، جس نے آپ کو ادویات کے نام لکھنے کی اجازت دی؟ دوسری بات یہ کہ مریض اپنے امیون سسٹم کی وجہ سے صحت یاب ہو رہے تھے، قطروں سے نہیں۔ میں بغیر کسی دوا کے دو ہفتوں میں صحت یاب ہوا۔ اگر 100لوگوں کو کورونا لاحق ہو تو پچانوے افراد اپنے امیون سسٹم کی وجہ سے خود ہی صحت یاب ہوجائیں گے۔ کوئی کوالیفائیڈ ڈاکٹر کبھی مر کے بھی یہ نہیں لکھے گا کہ جسے فلاں بیماری لاحق ہو وہ فلاں دوا کھا لے۔ ایسا ناسمجھ اور اتائی ہی کر سکتے ہیں۔

کئی لوگوں کو میں جانتا ہوں، جنہیں راتوں رات ڈگری ملی۔ ایم بی بی ایس والے ایف ایس سی کے بعد چھ سال ایڑیاں رگڑتے ہیں تو پاس ہوتے ہیں۔ بلڈٹیسٹ سمیت، کوئی تشخیصی ٹیکنالوجی نباضوں کے پاس موجود نہیں۔ کسی کے پاس اسپیشلائزیشن نہیں۔ ان میں سے کسی کا باپ بھی سرجری نہیں کر سکتا۔ کوئی اسٹینڈرڈ ادویات نہیں بلکہ ہر شخص دوسرے سے اپنا نسخہ چھپاکے بیٹھا ہوا ہے ۔اناٹومی پر بھی کسی سوال کا وہ جواب نہیں دے سکتے ۔انہی لوگوں نے راتوں رات کورونا کا علاج دریافت کرنے کا دعویٰ کیا۔ انہوں نے یہ جھوٹ بولا کہ کورونا ویکسین لگوانے والے کئی لوگ ہلاک ہو گئے۔ ایک خوراک سے وہ کینسر ٹھیک کرنے کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ آخری مرحلے میں یہ سب خاموشی سے جا کر خود بھی کورونا ویکسین لگوا لیں گے۔ ملک میں قانون کی حکمرانی ہو تو لاکھوں لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے والے یہ لوگ تختہ دار پہ لٹکا دیے جائیں۔