لیکن پھرتیاں ……

January 21, 2021

کھلا تضاد … آصف محمود براہٹلوی
پاکستان مدینہ کی ریاست کے بعد وہ دوسرا ملک ہے جو نظریاتی طور پروجود میں آیا، شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کیلئے بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح نے اپنی ٹیم کے ہمراہ دن رات محنت کی اور آبائو اجداد کی بے پناہ قربانیوں کے بعد یہ آزاد و خودمختارمسلم ریاست دنیا کے نقشے پر ابھر کر سامنے آئی، شروع دن ہی سے پاکستان کو مشکلات کا سامنا رہا، پڑوسی ممالک کے ساتھ یکئی جنگیں ہوئیں، ان جنگوں میں مسئلہ کشمیر ہمیشہ سرفہرست رہا ،پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے عوام کے ساتھ مل کر نہ صرف ہر طرح کے مسائل پر قابو پایا بلکہ ملک کو ترقی کی راہ پر بھی گامزن کیا۔2000ءکے اوائل میں جب امریکی ٹوئن ٹاور دہشت گردی کا نشانہ بنا تو امریکہ اپنے اتحادیوں سمیت پاکستان کے سامنے آگیا،پاکستان میں مختلف ادوار میں سیاسی قوتوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے غیر ملکیوں کی حمایت کی لیکن وطن کی سالمیت و خودمختاری پر حرف نہ آنے دیا۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کے عوام نے بیرونی ایجنڈے پر آنے والوں کیلئے سروں پر کفن پہن کر ملک بچانے کا نعرہ بلند کیا، ہر دور میں مختلف بازی گروں نے مختلف ناٹک کیے لیکن پاکستان کو حقیقی معنوں میں پراجیکٹس دینے والوں نے کبھی بھی بے ہودہ نعرہ نہیں لگایا، بس پورے دل، سچے جذبوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کام کیا۔ مثال کے طور پر ایٹم بم بنانے والے نے کبھی بھی یہ نعرہ نہیں لگایا ہم ملک بچانے آئے ہیں، اس نے ہمیشہ کہا، ہم گھاس پھوس کھا لیں گے لیکن ملک کا دفاع ناقابل تسخیر بناکر دم لیں گے، چاہے اس کے لیے ہمیں اپنی جانوں کے نذرانے ہی کیوں نہ دینے پڑے، اس طرح ملک کو میزائل ٹیکنالوجی، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی، ملک کو ڈیم دینے، اسٹیل مل، ہیوی مکینیکل پراجیکٹس، موٹر ویز، میزائل ٹیکنالوجی، مشترکہ آئین، اسلامی سربراہی کانفرنس سمیت لاتعداد ایسے پراجیکٹس جن کی وجہ سے ملک کا نام عالمی سطح پر ابھر کر سامنے آیا اور حالیہ پاک چین اقتصادی راہ داری کا منصوبہ جس نے اس خطے کی نہ صرف تقدیر بدل کر رکھ دی بلکہ ترقی یافتہ ممالک کو اس ملک میں سرمایہ کاری پر مجبور کردیا۔ موجودہ حکومت نےاقتدار میں آنے سے قبل اتنے پرکشش نعرے دئیے، نوجوانوں کا کلچر تبدیل کرکے رکھ دیا۔ اخلاقیات کا جنازہ نکل گیا، حالانکہ ان کو پرامن پاکستان ملا تھا، ایک واقعہ شیئر کرتا ہوں ، جنگل کا بادشاہ شیر بیمار ہوگیا، تمام جانوروں نے باہمی اتفاق رائے سے ایک بندر کو سربراہ بنالیا۔ اقتدار کے پہلے دنوں میں ہی ایک خرگوش نے نئے سربراہ سے شکایت کی کہ ایک بھیڑیا میرے بچوں کو کھا جائے گا، انہیں بچا لیں، بندر چونکہ اقتدار میں نیا، نیا تھا، ایک درخت سے جمپ لگاتا، دوسرے پر چڑ ھ جاتا یا تیزی کے ساتھ نیچے آتا، پھر اسی رفتار سے اوپر چلا جاتا، الغرض خرگوش کے ننھے بچے بھیڑیا ہڑپ کرگیا، خرگوش پھر سربراہ کے پاس آیا کہ اب کوئی فائدہ نہیں، میرے بچے بھیڑیا کھا گیا لیکن نئے سربراہ کا کہنا تھا، بے شک بچوں کو نہ بچا سکا، لیکن پھرتیاں، میری دیکھی ہوں گی۔بس کچھ ایسی ہی صورتحال سے ہم گزر رہے ہیں، مہنگائی کی سطح بلند لیکن حکمرانوں کی پھرتیاں قابل تعریف ہیں کہ ہم نہیں چھوڑیں گے وغیرہ وغیرہ، ہر روز یہ سب سن کر کان پک گئے ہیں، لیکن پھرتیاں…