’’ریاست مدینہ‘‘میں مہنگائی مافیا کا راج

January 27, 2021

وفاقی محکمہ شماریات نے 2020سے متعلق جو رپورٹ جاری کی تھی اس سے یہی عیاں تھاکہ 2020میں مہنگائی کا راج رہا،سرکاری رپورٹ کے مطابق فروری 2020میں پاکستان میں مہنگائی 10سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی۔ گزشتہ سال تو جیسے تیسے گزرگیا۔ حکومت کے دعوئوں پر کہ اب بہتری آئیگی عوام نے یہ سمجھ لیا تھاکہ شاید سال نو میں مہنگائی ،بے روزگاری اور غربت کچھ کم ہوسکے ،یوں تو تحریک انصاف اقتدارملتے ہی تین ماہ میں ہی ملک وملت کی تقدیر سنوارنے کا وعدہ کرچکی تھی،لیکن حکومت میں آنے کے بعد ماہ، سال میں تبدیل ہوتے گئے،پچھلے سال خلائی رپورٹوں کی بنیاد پر آسمان کو چھو لینے کے جو دعوے کئے گئے تھے اُن میںمہنگائی پر کنٹرول سب سے اول تھا، تاہم سال 2021کا آغاز گزشتہ سال سے بھی خوفناک ہوچکاہے، دیگر کے علاوہ سال رواں جنوری کے وسط میں پیٹرول کی قیمت میں تین روپے سے زائد اضافے کے علاوہ وفاقی حکومت نے بجلی ایک روپے 95پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کا اعلان کردیاہے بجلی کے نرخ میں اس اضافے سے عوام پر 200ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ یہ اشارے سال نو میں مزید مہنگائی سمیت دیگر عوامی مسائل کی نشاندہی کررہے ہیں، گویا پاکستان کے غریب عوام اس سال بھی مہنگائی مافیا کے رحم کرم پر ہوں گے۔ افسوس کہ مولانا طارق جمیل کی سندیافتہ ’’مدینے کی ریاست‘‘ پیارے مدینے کی ریاست کے غریب پرور تصور کے قطعی برخلاف غریبوں کیلئے درد وغم کی آماجگاہ بنی رہے گی۔ کاش محلات وفارم ہائوسز میں ایک ’’شام‘‘ پر ایک غریب کی سال برابر کمائی اُڑانے والے یہ محسوس کرلیں کہ اُنہوں نے اپنی سفاکیت سے اس ملک کی غالب اکثریت کی زندگی کو کس قدر دشوار بنادیا ہے۔ طاہر فراز نے کہا ہے:

زندگی، ہم تیرے تعاقب میں

اتنا چلتے ہیں کہ مر جاتے ہیں

ستم یہ بھی ہے کہ دوائوں سمیت زندگی کی تمام ضروری اشیا کے نرخ روزانہ کی بنیاد پربڑھ رہے ہیں،سابقہ حکومتوں میں چیک اینڈ بیلنس کا تھوڑابہت جونظام موجود تھا،مہنگائی مافیا نے اُس کے بخرے کرکے رکھ دئیے ہیں،اس کا اندازہ وفاقی محکمہ شماریات کی جانب سے جاری ہونے والی ہفتہ وار رپورٹس سے لگایاجاسکتاہے، حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’ایک ہفتے میں گھی، کوکنگ آئل، چکن، دالوں، بیف اور مٹن سمیت 19اشیائے ضروریہ مہنگی ہو گئیں‘‘۔ پاکستان میں ملازمت پیشہ افراد کی تنخواہ کیا بڑھتی کہ موجودہ حکومت پنشن وغیرہ سمیت وہ مراعات جو سابقہ حکومت میں باقاعدگی سے ادا ہوتی رہی ہیں اُن پر بھی قدغن لگانے کیلئے متحرک ہے۔ یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں اور بے روزگاروں کا تو اور بھی بُرا حال ہے، رہی سہی کسر کورونا نے پوری کردی ہے۔ اس بیماری کی پہلی لہر میں حکومت کےغریب کش اقدامات نے عوام کا کچومر نکال دیا تھا، یہی وجہ ہے کہ عوام نےحالیہ لہر کو سنجیدہ نہیں لیا اور اُن کا یہ موڈ ظاہر کررہا تھا کہ اگر حکومت نے حسبِ سابق پابندیاں عائد کیں تو عوام اس کے خلاف من حیث القوم سڑکوں پر آسکتے ہیں ،اب حکومت ویسا ہی ’’یوٹرن‘‘ لینے والی ہے جیسا کہ پچھلی مرتبہ لیا تھا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ پاکستان میں صحت کے مخدوش نظام کے باوجود یکایک یہ کہہ کرکہ، حکومت کےلاثانی اقدامات کی وجہ سے کورونا پر قابو پالیا گیا ہے ایک دوسرے کو مبارکبادیں دینے کا سلسلہ شروع کردیاتھا، اب پھر ایسی ہی کامیابی کے دعوئوں پر دھمال کی تیاری ہورہی ہے۔ سچ بہرصورت یہی ہے کہ ملکی صحت کا نظام ویسے ہی فلاپ ہے جیسے کہ کورونا کی پچھلی لہر میں تھا۔ یہ درست ہےکہ بھارت ہمیں ایک آنکھ نہیں بھاتا لیکن کیا مقام شرم نہیں کہ ویکسین کی تیاری کے حوالے سے وہ ترقی یافتہ ممالک کے ہم پلہ ہے اور ہم طب سمیت ہر شعبہ میں بنگلہ دیش سے بھی پیچھے رہ گئے ہیں۔ عوام سے بیگانے اختیارات کی جنگ کیلئے برسرپیکار اختیارمندکیا اس امر پر غور کی زحمت فرمائیں گےکہ بنگال جب مشرقی پاکستان تھا تو اُس کی حالت مغربی پاکستان سے بھی گئی گزری تھی لیکن جب وہی بنگال، بنگلہ دیش بن گیا توآج ماہرین معاشیات کا کہنا یہ ہے کہ پاکستان کو بنگلہ دیش کی ترقی تک پہنچنے کیلئے دس سال درکارہوںگے۔ بات بہت سادہ سی یہ ہے کہ ہم و ہ ہیں ،جنہوں نے 1970کے انتخابات میں عوام کے فیصلے کویہ کہہ کر قبول کرنے سے انکارکردیاتھا کہ بھٹو صاحب کی 81نشستیں شیخ مجیب الرحمٰن کی 160نشستوں سے زیادہ ہیں۔آج بھی ایسے ہی استدلال کی بدولت حقیقی عوامی مینڈیٹ کوقبول کرنے سے انکار کیا جارہاہے،جب تک اس طرح کے استدلال تراشے جاتے رہیں گےہر آنے والے دن میں پاکستان ترقی معکوس کا شکار ہوتا چلاجائے گا۔