مردہ آدمی کا دانت اور ہماری سیاسی قیادت

May 23, 2013

عام انتخابات کے بعد وفاق اور صوبوں میں نئی حکومتوں کی تشکیل کا مرحلہ جاری ہے۔ مسلم لیگ نواز کو مرکز میں حکومت بنانا ہے جہاں اسے خارجہ پالیسی کی تشکیل نو کا کٹھن امتحان درپیش ہو گا۔ میاں نواز شریف لندن میں جلاوطنی کے دنوں ہی سے پاکستان کی بنیادی ترجیحات پر اپنے خیالات کا دو ٹوک اظہار کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے متعدد مرتبہ بھارت سے تعلقات معمول پر لانے اور افغانستان کے معاملات میں غیر ضروری مداخلت سے گریز کا عندیہ دیا۔ بہت سے حلقوں نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ہفتے کے روز لاہور میں میاں نواز شریف سے ملاقات کو اسی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ دنیا بھر میں کسی منتخب رہنما سے عسکری قیادت اور سیکورٹی حکام کی ملاقاتیں معمول کا حصہ سمجھی جاتی ہیں کیونکہ آئندہ فیصلہ ساز قیادت کو بہت سے ایسے معاملات سے آگاہ کرنا ضروری ہوتا ہے جو ریاستی مفاد میں عوام کے سامنے بیان نہیں کئے جاتے تاہم پاکستان کی قطبی سیاست کے پس منظر میں سیاسی تجزیہ کاروں نے اس ملاقات کی اپنی اپنی تشریح کی ہے۔ ایک گروہ جنرل صاحب اور نامزد وزیراعظم کے درمیان ملاقات کو اس امر کا آئینہ دار سمجھتا ہے کہ فوج نے جمہوری قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ ایک اور حلقے کو یہ جتانے کی فکر ہے کہ جنرل صاحب نے مسلم لیگ کے قائد کو امریکہ اور بھارت کے ساتھ تعلقات میں کسی بنیادی تبدیلی کے مضمرات سے خبردار کیا ہے۔
11 مئی کے انتخابات میں کامیابی سے توانائی پاکر سیاسی قوتوں میں یہ خواہش پیدا ہونا فطری امر ہے کہ ملک کی داخلی سیاسی صورتحال اور خا رجی عوامل کی موجودہ ترتیب سے فائدہ اٹھا کر عسکری قوتوں پر جمہوری، سیاسی اور تمدنی قوتوں کی بالادستی بحال کی جائے تاہم یہ صورتحال ایسی سادہ نہیں۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی اور معاشی بدحالی میں ایک سے زیادہ تباہ کن پالیسیوں کا ہاتھ ہے۔ ہم نے عشروں تک خارجہ پالیسی میں اپنی بساط سے زیادہ پاؤں پھیلائے ہیں۔ کسی ملک میں خارجہ پالیسی کو ملکی معیشت اور داخلی سماجی ہم آہنگی پر ترجیح دینے کا ناگزیر نتیجہ سیکورٹی اسٹیٹ کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ اسی سے منسلک حقیقت یہ ہے کہ ہم نے قانون سازی ، سیاسی مکالمے اور سماجی رویوں میں رجعت پسندی کو قومی ترجیح کا درجہ دے رکھا ہے۔ اس سے ہماری اجتماعی تصویر میں ایک سے زیادہ پیچیدگیاں پیدا ہوئی ہیں۔ ہمیں اکثر بتایا جاتا ہے کہ دہشت گردی کو ختم کئے بغیر معیشت بحال نہیں کی جا سکتی تاہم ہماری سیاسی اور تمدنی قیادت کو یہ بیان کرنے کی ہمت نہیں ہوتی کہ تعلیمی نصاب، ذرائع ابلاغ اور سماجی ڈھانچوں میں بنیادی تبدیلیاں لائے بغیر اس انتہا پسندی کو ختم نہیں کیا جا سکتا جو ناگزیر طور پر دہشت گردی کو جنم دیتی ہے۔ چنانچہ عسکری اور تمدنی قوتوں کا باہم ارتباط اس بڑی تصویر کا محض ایک حصہ ہے۔
میاں نواز شریف نے انتخابات میں کامیابی کے بعد ایک بھارتی ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے بھارت کو تجارت کے لئے پسندیدہ قوم قرار دینے کا عندیہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ کارگل اور ممبئی حملوں کی تحقیقات کی جائے گی۔ دوسری طرف انہوں نے لاہور میں کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش پر سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہئے۔ ادھر خیبرپختونخوا میں نامزد وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے بہت سی ایسی باتیں کہی ہیں جو طالبان کے کانوں میں موسیقی بن کر اتری ہوں گی اگرچہ طالبان موسیقی کو حرام قرار دیتے ہیں۔ پرویز خٹک فرماتے ہیں کہ انہیں طالبانائزیشن سے کوئی مسئلہ نہیں وہ تو صرف دہشت گردی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ پرویز خٹک اور ان کی جماعت کو اپنا نقطہ نظر مبارک لیکن پاکستان کے ان سب شہریوں کو طالبانائزیشن کے بارے میں فکر مند ہونا چاہئے جنہوں نے حالیہ انتخابات میں ووٹ دیئے ہیں کیونکہ طالبان سرے سے ووٹ کے نظام ہی کو ناجائز سمجھتے ہیں۔ طالبان سوچ اور دہشت گردی میں فرق کرنا بھی نئے پاکستان کے علمبرداروں ہی کا حصہ ہے کیونکہ دہشت گردی تو طالبان فکر کا ناگزیر پھل ہے۔ گل سے کوئی کہے کہ شگفتن سے باز آ۔ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ سے نکالنے کا دعویٰ سمجھنا ہو تو پہلی عالمی جنگ میں روس کی کمیونسٹ پارٹی کے تجربے پر غور کرنا مفید ہو سکتا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی نے اعلان کر رکھا تھا کہ جنگ ایک سامراجی ہتھکنڈہ ہے اور کمیونسٹ انقلاب کے بعد جنگ سے دستبرداری اختیار کر لی جائے گی۔ اکتوبر 1917ء میں انقلاب کے جوش و خروش میں لینن نے جنگ بندی کا اعلان کر دیا اور ٹراٹسکی کو امن مذاکرات کے لئے روانہ کیا۔ لیون ٹراٹسکی کو یہ مشکل درپیش تھی کہ روسی سرزمین قربان کئے بغیر جرمنی اور آسٹریا کو جنگ بندی پر کیسے آمادہ کیا جائے۔ کئی ہفتوں پر محیط ناکام مذاکرات کے بعد محوری قوتوں نے دوبارہ حملہ کر دیا اور روس کو یوکرائن سمیت وسیع علاقوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔ امن کی خواہش اسی صورت میں قابل عمل ہوتی ہے جب جنگ کے اسباب کا ٹھیک ٹھیک علم ہو۔
27دسمبر 2012ء کو طالبان نے اپنے ترجمان عصمت اللہ معاویہ کے ذریعے مذاکرات کی جو شرائط پیش کی تھیں ان پر پھر سے نظر ڈالنا چاہئے۔ (الف)امریکہ سے تعلقات ختم کئے جائیں (ب)دہشت گردی کے خلاف جنگ سے علیحدگی اختیار کی جائے (ج)پاکستان کے موجودہ قانون اور آئین کو ختم کر کے اسلامی نظام نافذ کیا جائے اور(د)بھارت کے خلاف انتقام کی پالیسی اختیار کی جائے۔ میاں نواز شریف اور نامزد وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے اکوڑہ خٹک کے مذہبی پیشوا مولانا سمیع الحق سے طالبان کے ساتھ مذاکرات میں تعاون کی درخواست کی ہے۔ مولانا سمیع گونا گوں حوالوں سے نہایت نیک نام مذہبی رہنما سمجھے جاتے ہیں۔ صرف یہ یاد دلانا کافی ہو گا کہ مولانا سمیع الحق کی زیر قیادت دفاع پاکستان کونسل نے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کا راستہ مسدود کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ محترم نواز شریف کو سمجھنا چاہئے کہ خارجہ پالیسی کے مختلف حصے باہم متناقص ہوں تو خارجہ پالیسی قابل عمل نہیں رہتی۔خارجہ پالیسی پر نظرثانی کی یہ کیا صورت ہے کہ ہم ایران سے گیس چاہتے ہیں اور سعودی عرب سے مالی معاونت کی توقع ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ معاملات میں امریکہ سے تعاون چاہتے ہیں اور طالبان کو خوش رکھنا چاہتے ہیں اور پھر ہم بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔ برادر عزیز ،طالبان سے مذاکرات اور بھارت سے تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش بیک وقت کامیاب نہیں ہو سکتی۔ نواز شریف کو عوام کے ووٹ سے حکومت کا استحقاق ملا ہے، وہ طالبان سے مذاکرات میں عوام کے حق حکمرانی کا سودا کر نے کا اختیار نہیں رکھتے۔
یورپ میں یہ وہم صدیوں تک موجود رہا کہ مردہ آدمی کا دانت اپنے پاس رکھنا مافوق الفطرت قوتوں کو قابو کرنے کا نسخہ ہے۔ اس میں بھی سزائے موت پانے والے شخص کے دانت کو خاص اہمیت حاصل تھی کیونکہ عوام الناس میں عقیدہ پایا جاتا تھا کہ پھانسی پانے والا اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کر کے آلائشوں سے پاک ہوجاتا ہے۔ 18ویں صدی کے ہسپانوی مصور فرانسسکو گویا کی ایک تصویر کا عنوان ہے’مردہ آدمی کے دانت کا حصول‘۔ تصویر میں ایک عورت رات کے اندھیرے میں پھانسی پانے والے شخص کا دانت نکالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ رات کے اندھیرے میں ایک عورت کا اجنبی لاش تک پہنچنا ثابت کرتا ہے کہ گوہر مقصود میں کیسی زبردست کشش پائی جاتی ہے لیکن اس تصویر کو غور سے دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ عورت نے اپنا چہرہ واضح طور پر مردہ آدمی کی طرف سے پرے موڑ رکھا ہے۔ جادوئی قوتوں کے حامل دانت کا حصول اپنی جگہ لیکن اس غرض سے اندھیری رات میں گھر سے نکلنے والی خاتون کو ’مردہ آدمی کی ہنسی‘ سے خوف بھی آتا ہے۔ طالبان کا سوال آتا ہے تو ہماری سیاسی قیادت فرانسسکو گویا کی تصویر میں موجود خاتون کی طرح داخلی کشمکش اور اندیشوں کا شکار ہو جاتی ہے۔ سیاسی قیادت مردہ آدمی کا دانت نکال کر دہشت گردی کا خاتمہ کرنا چاہتی ہے لیکن انتہا پسندی کے منہ میں ہاتھ ڈالتے ہوئے ہچکچاتی ہے۔