براڈ شیٹ: احتساب کا عجب تسلسل

January 28, 2021

براڈ شیٹ کے معاملے نے ایک بار پھر پاکستانی حکمرانوں اور اشرافیہ کو بیچ چوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔ پرویز مشرف نے پہلے دوسو سیاستدانوں، بیورو کریٹس اور بزنس مینوں پر مشتمل ایک فہرست انہیں مہیا کی اور بعد میںاپنی حکومت بنانے کے لیے انہی نیب زدہ افراد میں سے بہت سارے سیاستدانوں کو کلین چٹ دے کر اپنی من پسند سیاسی جماعت میں شامل کرلیا۔سونے پر سہاگہ کہ حال ہی میں مشرف کی بنائی ہوئی سیاسی جماعت کو بیس سال بعد نیب نے تمام الزامات سے بری کردیا ہے ۔یاد رہے کہ اس دور میں آمروں کے پسندیدہ وکیل شریف الدین پیرزادہ نے بھی مشرف کو آئین اور قانون سے بالاتر رہتے ہوئےاپنی حکومت کو طول دینے کے راستے دکھائے ۔ احتسابی عمل جنرل (ر)امجد کی سربراہی میں شروع ہوا جس نے چن چن کر سیاسی مخالفین کو احتساب کا نشانہ بنایا۔براڈ شیٹ نے پہلے پندرہ ملین ڈالر کمیشن کے طور پروصول کیے اور پھرحال ہی میں عمران خان حکومت نے انہیں عدالتی حکم پر29ملین ڈالرسے نوازا۔عمران خان حکومت احتساب کے نام پر اتنی مصر ہے کہ وہ براڈ شیٹ سے مزید مذاکرات کررہی ہے کہ کسی طرح نواز شریف کے 870ملین ڈالر کی ریکوری کی جا سکے،اس سے عمران خان کی سیاسی ’’فراست‘‘کا اندازہ ہوتا ہے کہ بجائے اس کے کہ وہ ماضی سے کوئی سبق حاصل کرتے، وہ مزید معاہدے کرنے کیلئے تیار ہیں۔ پچھلے اڑھائی سال میں عمران خان نے کمال ہوشیاری سے عوام کو مہنگائی سے نجات دلوانے کی بجائے اس بات کے نعرے لگانے شروع کردیئے کہ وہ کسی کو این آر او نہیں دیں گے۔نیب کے ذریعے تمام سیاسی مخالفین کو زیر نگیں کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں غدار،ملک دشمن،بھارت کا ایجنٹ جیسے القابات سے بھی نوازنا شروع کردیاگیا۔نیب کی کارروائیوں کی وجہ سے پورا نظام مفلوج ہو کررہ گیاہےجبکہ پارلیمنٹ کو بے توقیر کردیا گیا ہے۔ تحریکِ انصاف کے خلاف چلنے والے فارن فنڈنگ کیس کو چھ سال سے التوا کا شکار کیا جارہاہے لیکن منتخب وزیراعظم نواز شریف کو دن دہاڑے اقامہ کے نام پرنااہل کردیاگیا۔

پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی ہمیں نوآبادیاتی دور میں بنائے گئے کچھ ادارے ورثے میں ملے جن میں قومی سلامتی ،سول بیوروکریسی،عدلیہ اور ریلوے کے ادارے سرفہرست تھے۔نظم و ضبط اور تنظیمی ڈھانچے کی وجہ سے قومی سلامتی کے اداروں نے اپنی جڑیں مضبوط کر لیں اور یوں باقی ادارے رفتہ رفتہ تنزلی کا شکار ہوئے۔پاکستان بننے کے ساتھ ہی احتساب کے نام پر حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو طول دینا شروع کر دیا۔حسین شہید سہروردی جو متحدہ بنگال کے وزیراعظم تھے، انہیں قائداعظم کے کہنے پر بنگال میں فسادات روکنے پر مامور کیاگیا لیکن پاکستان بننے کے بعد جب وہ پاکستان آئے توپہلے انہیں پاکستان کی شہریت دینے سے انکار کردیاگیا پھر اسی حکمران ٹولے نے ان پر مختلف الزامات لگا کر نہ صرف انہیں سیاست سے باہر کرنے کی کوشش کی بلکہ کسی بھی بار کونسل نے ان کو بطور وکیل لائسنس نہیں دیا۔بعد میں وہ پاکستان کے وزیراعظم بنے لیکن ایوب خان کے دور میںبدنامِ زمانہ احتسابی عمل، جسے ’’ایبڈو‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، کی وجہ سے انہیں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔مولوی فضل الحق نے 23مارچ1940کو قرار دادِپاکستان پیش کی تھی۔پاکستان بننے کے بعدوہ مسلم لیگ کو شکست دے کر مشرقی پاکستان میں جگتو فرنٹ کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے لیکن آٹھ ماہ بعد ہی اسکندر مرزا نے ان پر کرپشن اور غداری کے الزام لگا کر ان کی منتخب حکومت کو ختم کردیا ۔سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنانے کا سلسلہ بھٹو دور میں بھی جاری رہا، نیپ کے رہنمائوں پر حیدرآباد سازش کیس بنا کر انہیں پابندِ سلاسل کر دیاگیا اور سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرکے نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی بھی عائد کردی گئی۔نواز شریف نے بھی اقتدار میں آکر نہایت ہی بھونڈے طریقے سے سیف الرحمٰن کی مدد سے اپنے سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں بھی یہ روش برقرار رہی اور نواز شریف کے والد میاں شریف احتساب کے نام پر قید ہوئے۔

تاریخ نویسوں نے قوموں کے زوال کی ایک اہم وجہ ادارہ سازی کا نہ ہونا بیان کی ہے جس کی وجہ سے استحصالی ٹولہ حد سے زیادہ مضبوط ہوجاتا ہے اور یوں وہ اپنے مخالفین کا استحصال کرتا ہے۔ادارہ سازی نہ ہونے کی وجہ سے ہر آنے والی حکومت نے ’’احتساب‘‘کو مرکزی سیاسی حیثیت دلوائی۔آج اس ملک میں حقیقی احتساب ہو جائے تو ملک کی اشرافیہ، جاگیردار، سرمایہ دار، سجادہ نشین اور سول وملٹری بیوروکریسی بری طرح اس کی زد میں آئے۔براڈ شیٹ کے واقعے کا منظرعام پر آنادراصل اسی ادارہ سازی کی کمی کا خمیازہ ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے بجائے اس کی تحقیقات کسی غیر جانبدار افراد پر مشتمل کمیشن سے کرانے کے، ایک ایسے فرد کو تحقیقاتی کمیٹی کا سربراہ بنا دیا ہے جس کی شخصیت پہلے ہی متنازعہ ہے۔آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ادارے پوری ذمہ داری کے ساتھ آئینی حدود میں رہ کر کام کریں اور ریاست چلانے کی ذمہ داری کلیدی طور پر سیاست دانوں کے حوالے کردیں تاکہ رفتہ رفتہ سماج میں ادارہ سازی ارتقا پزیر ہو سکے۔