ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل: بدعنوانی کی تقسیم یا ضرب؟

January 31, 2021

دلیل کی کمی، لِفاظی کی قِلت،مرکزی خیال میں ناپائیداری، بیان میں شگفتگی کا فقدان، لہجے میں سلیقگی کا قحط اور تمنا قوتِ اظہار سےعاری ہو، تو بحث و مباحثہ سے جتنی دوری ہو، اُتنا ہی اچھا، ورنہ فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے! اجی یہ سب سوچے بغیر اب ہم سب اگلا پورا سال ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے گُن گائیں گے کہ 2020 میں پاکستان نے یہ معرکہ مارا وہ کمال کردیا اور ہم لُٹ گئے ہم برباد ہو گئے۔ حکومت اور اپوزیشن کے جید علمائے عظام اور مفتیانِ کرام کو چونکہ مصالحہ اور چورن مل گیا ہے چنانچہ یہ سب بیچارے یہ بیچیں گے نہیں، تو کریں گے کیا؟

اس سے پہلے کہ میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے حُسنِ بیان اور شماریاتی جمال کو سپردِقلم کروں، مجھے بس اتنا کہنا ہے کہ، عذر گناہ بدتر از گناہ! سو پچھلی حکومتوں میں ترقیاتی کام بڑھتے، کوئی نئے پراجیکٹس شروع ہوتے اور فلاح و رفاہ کے چکر چلتے پھر ان پر جاکر کہیں کرپشن ہوتی مگر اِس حکومت میں کاروبار بڑھا نہ ترقیاتی کام ہوئے لیکن ’’خالص بدعنوانی‘‘ پورے طمطراق سے کیسے رونما ہوگئی؟ انسدادِ بدعنوانی کے شور و غل میں بدعنوانی کی دھوم کا سر اٹھانا اور کچھ لگے نہ لگے بہرحال مضحکہ خیز ضرور لگتا ہے! مگر اس اجتماعی زیادتی کا کُھرا جاتا کدھر ہے؟ بدعنوانی کا بازار یہاں سجانے کوئی امریکی ٹرمپ آیا تھا نہ روسی پیوٹن، سیکرٹریٹوں میں بیٹھے بابو اسرائیلی ہیں نہ ٹیکنوکریٹس ہی بھارتی، اسمبلیوں میں جلوہ افروز آفتاب و ماہتاب بھی پرانا سیاسی محلول ہیں جن کی بوتلوں پر نام بدلے بدلے سے ہیں یا املا کی غلطی، بخدا کوئی بھی دُشمنِ جاں یہاں بدعنوانی کے "گل" کھلانے نہیں آیا۔ دو ہی باتیں ہیں، ایک تو یہ کہ ایک طرف ہم سب امید سے ہیں تو دوسری جانب بدعنوانی میں ہم سب ایک ہیں۔ پھر سے:

قافلے دلدلوں میں جا ٹھہرے

رہنما پھر بھی رہنما ٹھہرے

سات عشروں میں مومن یا صادق و امین کیا ہونا تھا ہم تو قبلہ درست نہیں کرسکے۔ جہاں جمہوریت پنپ نہ پائے، لوگ تاریخ کو بھول کر توصیف کے دلدادہ ہوجائیں، سیاسی جماعتیں کسی انسٹیٹیوشن کا روپ دھارنے کے بجائے مقتدر کی لونڈیاں بنی بیٹھی ہوں، جمہوریت ایک سبجیکٹ کے بجائے فنٹیسی کا نام ہو تو گتھیاں سلجھانا آسان نہیں ہوتا۔

بس اتنا غور کرلیجئے کہ جس نوجوان پود کی اکثریت سے تحریک انصاف نے ووٹ لئے ان میں سے کسی نے عمران کا کرکٹ کا عروج اور ورلڈ کپ کا حصول نہیں دیکھا تھا مگر وہ الیکشن 2013، 2018 کے انتخابات اور دھرنا سیاست میں فریفتہ رہے۔ اُنہوں نے کل کی حکومتوں کے سیاست کاروں اور فن کاروں کو عمرانی آنکھ ہی سا قبول کیا، جن پارٹیاں بدلنے والوں کو خان صاحب نے فرشتہ بنا کر پیش کیا آُنہیں فرشتہ ہی جانا، اور سابق قائدین کو برا بھلا کہنے میں بھی خان صاحب کے برابر ہم نوا رہے، ہاں، آج بھی، حتیٰ کہ تازہ ٹرانسپیرنسی رپورٹ میں بھرم تارتار ہونے کے باوجود جانثارانِ عمران خان ٹس سے مس ہوتے دکھائی نہیں دے رہے، تو ایسی صورت حال میں عمران خان کی ذمہ داری پہلے سے بھی بڑھ گئی ہے، وہ صرف اپوزیشن یا عوام کو جوابدہ نہیں بلکہ اپنے مداحوں سے سچ بولنے کی ذمہ داری کا بوجھ بھی ان کے کندھوں پر آ پڑا ہے۔ جتنے بڑے دعوے اور وعدے ہوں اتنا بڑا جِگرا اور اقبال و بیان بھی ضروری ہے کیونکہ ’’میں فرشتے کہاں سے لاؤں؟‘‘ سے بات آگے نکل چکی، آدھا اقتداری دور انجوائے ہوچکا، بحث برائے بحث کے سب تیر بھی ترکش میں کم ہی بچے جبکہ بحث برائے دلیل کے تیر پہلے ہی ناپید تھے۔ خان صاحب اگر مناسب سمجھیں تو ’’این آر او نہیں دوں گا‘‘ کا راگ الاپنا ترک کردیجئے پلیز، بالکل کسی کو ،این آر او، نہ دیں لیکن اپنے چند مشیران و معاونین کو بھی نان سٹاپ بولنے کا ،این او سی، نہ دیجئے پلیز، یقین کیجئے آدھے حکومتی امراض اس پرہیز سے ٹھیک ہو جائیں گے۔ اور جو جو مرض حکومت اور عوام کیلئے دائمی مرض بننے کے درپے ہیں، اِن امراض کی اٹھان کراچی سے ہے، راولپنڈی و فیصل آباد یا سیالکوٹ سے ممکن ہو تو ان کی وبا کو مزید پھیلنے سے روک لیجئے۔ جہاں پہلے ہی اتنے یوٹرن کھاتے میں ہیں وہاں دو اور سہی۔ پرہیز علاج سے بہتر ہے۔ وہ صاحب جو نیب نیب کر کے معاونت چمکاتے اور دھول اڑاتے رہتے ہیں ان کا چیک اپ وزارتِ قومی خدمتِ صحت کے ڈاکٹر فیصل سلطان سے کروا لیجئے امید ہے افاقہ ہو گا۔ اور ہم جان کی امان کی فریاد کے ساتھ یہ بھی عرض کریں گے کہ بالائی سندھ میں صحت اور اعلیٰ تعلیم کے شعبوں میں صرف پیش رفت ہی نہیں ترقی بھی ہوئی ہے پس آپ بھی اس تعمیر و ترقی میں وفاقی و آفاقی حصہ ڈالیں اور اپنے ماہرین کو حکم دیں کہ چشمِ بینا کو بروئے کار لاتے ہوئے جائزہ لیں، جو کہتے ہیں کہ کے پی کے میں اعلیٰ تعلیم میں حیرت انگیز پیش رفت ہوئی ہے انہیں ہم بھی مبارکباد پیش کرتے ہیں مگر محض اپنی نوکری پکی نہ کریں۔ یہ نوکریاں پکی کرنا کرانا بھی ایک بہت بڑا فریب ہے، ایسے بیورروکریٹس، مشیروں اور دو رخی شمشیروں سے جو عمران خان، نواز شریف اور زرداری بچ گیا وہی جمہوریت پسند اور ترقی میں رہبر و رہنما ہے ورنہ سب افسانے، اور ہر دور کی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل رپورٹ ایسے ہی منہ چڑائے گی جیسے آج کے صادق و امین کے سر پر سوار ہوئی ہے۔

مانا کہ تہذیبوں و ثقافتوں و اقوام کے مخصوص مزاج اور خواص ہوتے ہیں جنہیں بدلنے میں وقت لگتا ہے مگر جہاندیدہ قیادت عمل انگیز (Catalyst) بن کر زنجیری عملوں(Chain Reactions) کو تیز تر کرتی ہے کہ صدیاں ایسی رہبری کے گیت گاتی ہیں۔ ابتدا میں سارے یورپ کے کریمینلز امریکہ میں جا بسے تھے مگر قیادتوں نے کیا کر دکھایا، صدر روزویلٹ کو 1933 میں کیسا امریکہ اور مہاتیر محمد کو 1981میں کیسا ملائشیا ملا تھا؟ دونوں نے اکنامکس کی گرتی ساکھ اور سماجی اضطراب سے اپنی اقوام کو نکالا۔ ونسٹن چرچل کو بطور برطانوی وزیراعظم 1940تا 1945 اور 1951تا 1955عالمی جنگوں اور معاشی و معاشرتی چیلنجوں کا سامنا تھا تو اس نے ہٹلرگردی سے قوم ہی کو نہیں، پورے عالم کو انتہائی مہلک دور سے اپنے سیاسی تدبر سے بچایا۔ خیر، ہماری موجودہ حکومت کے دعوے تو ان سے بھی بڑے رہے ہیں مگر ہم تو کہتے ہیں کہ سیاست و جمہوریت کی درستی نہ سہی، گورنس ہی درست کرلیں، اگر ایسا ہو گیا تو بدعنوانی ضرب کھانے کے بجائے تقسیم ہوتے ہوئے تفریق تک آجائے گی!