آئین، جمہوریت اور شائستگی کی فتح؟

February 06, 2021

(گزشتہ سے پیوستہ )

جوبائیڈن حکومت کیلئے اس سے بھی بڑا چیلنج ایران کو نیو کلیئر ڈیل میں لانا ہے جس محنت اور جانفشانی سے اوباما نے یہ نازک ایشو ٹیکل کیا تھا اس کے بعد صدر ٹرمپ نے محض جذباتیت سے معاملات کو کہیں زیادہ بگاڑ دیا۔تیسرا بڑا چیلنج افغانستان کی موجودہ صورتحال میں دوحا اکارڈ کی نئی حیثیت کا تعین ہے، اس حوالے سے ذرا سی کوتاہی افغانستان کو خون میں نہلا سکتی ہے۔چوتھا چیلنج چین کے ساتھ بظاہر بہترین تجارتی تعلقات کی موجودگی میں اندر خانے گہری سرد جنگ جیسی منافرتیں ہیں۔ امریکی یہ چاہیں گے کہ سانپ بھی مر جائے اور امریکی لاٹھی کو گزند بھی نہ پہنچے پانچواں چیلنج خود امریکا کے اپنے یورپی اتحادیوں، کینیڈا، آسٹریلیا، جاپان اور انڈیا تک کے ساتھ نئے حالات اور پیش بندی میں بدگمانیوں کو دور کرتے ہوئے امریکی اعتماد ووقار کی بحالی ہے۔ان کی گہرائی میں جانے سے پہلے ضروری ہے کہ صدر بائیڈن کو آتے ہی جو چھوٹی چھوٹی دو سلامیاں پاکستان اور میانمار سے وصول ہوئی ہیں، یہ دونوں ان کیلئے خوشگوار نہیں ہیں، ڈینیل پرل کا قتل امریکی عوام اور میڈیا کیلئے کوئی غیر اہم سانحہ نہیں ہے۔ پاکستان میں یہ مقدمہ کس منطقی انجام تک پہنچ رہا ہے۔ نئے امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کو آتے ہی پہلا اعلان یہ جاری کرنا پڑا کہ امریکا ڈینیل پرل کو اغوا کرنے اور قتل کرنے پر عمر سعید شیخ کے خلاف امریکا میں کارروائی کیلئے تیار ہے، ہم اس حوالے سے پرعزم ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے فوری طور پر ہمارے وزیر خارجہ سے بات چیت بھی کی، ہماری حکومت پر آگے چل کر اس حوالے سے دباؤ آئے گا۔

میانمار (برما) میں فوج نے منتخب وزیراعظم نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کی حکومت کا جس طرح تختہ الٹتے ہوئے انہیں گرفتار کر لیا ہے۔ اس پر صدربائیڈن کا یہ کہنا کہ ”دنیا برمی فوج پر اقتدار کا قبضہ چھوڑنے کیلئے یک زبان ہو جائے“ قابل فہم ہے۔ ٹرمپ کو جس طرح اپنے ملک کے اندر انسانی حقوق جمہوریت یا آزادی اظہار میں کوئی دلچسپی نہ تھی وہ تو دوسروں سے پوچھتے رہتے تھے کہ میڈیا کو کس طرح دبا کر رکھنا ہے۔

تیسری دنیاکے ممالک کایہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ یہاں جینوئن سیاسی و جمہوری قیادت چاہے کس قدر اپنے عوام یا قوم میں پاپولر کیوں نہ ہو فوجی بوٹوں کے سامنے بے بسی کی تصویر بن کر رہ جاتی ہے ہیلری کلنٹن ڈیپ اسٹیٹ کی بات کر رہی تھیںہمارے ملک کی مثال دیتے ہوئے تو کئی لوگوں کو بری لگ رہی تھی۔ 75سالہ آنگ سان سوچی کی مثال یا کہانی صورتحال کو سمجھنے میں کتنی معاونت کرتی ہے اس کی پوری زندگی جدوجہد سے لبریز ہے، بچپن سے دکھ سہے، جیلیں کاٹیں، طویل نظر بندی اس پر مسلط رکھی گئی 1962سے 2011بلکہ 2015تک فوج براہِ راست اقتدار پر قابض رہی۔ بعدازاں جب جمہوریت بحال بھی کی گئی تو کس قیمت پر پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں224نشستیںہیں اور ایوان زیریں میں 440مگر ایوان بالا میں 168منتخب ہو کر آ سکتے ہیں جبکہ 56کو فوج براہ راست نامزد کرتی ہے اور ایوانِ زیریں کے 330منتخب ہو کر آتے ہیں اور 110فوج نامزد کرتی ہے۔

آنگ سان سوچی کی جماعت 492سیٹوں میں سے 392پر جیت جائے یا جیسے کے نومبر 2020میں اس نے476 سیٹوں میں 396پر کامیابی حاصل کی جبکہ فوج کی کنگز پارٹی (یونین سالیڈیریٹی اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی) محض 33سیٹیں حاصل کر سکی۔مگر بندر بانٹ کہیں یا طاقتوروں کی کرشمہ سازی، صورتحال کی سنگینی سب کے سامنے ہے اس جمہوری و عوامی لیڈر نے فوجی جنتا کی خوشامد اور چاپلوسی میں بھی اخیر کر دی رونگیا مسلمانو ں کے ساتھ جب فوجی حکمرانی نے زیادتی کی اخیر کر دی تب بھی عالمی شہرت یافتہ آنگ سانگ سوچی نے ان فوجی حکمرانوں کے خلاف پورے عالمی دباؤ کے ہوتے ہوئے بھی کوئی بیان جاری نہ کیا بلکہ بوٹوں کی خوشنودی کے لیے اپنی شخصیت اور حیثیت کو بھی کہیں زیادہ گرا کر ان کی مخالفت میں لب نہیں ہلائے مگر جبر کے ہتھکنڈے پھر بھی کمزور اور ناتواں جمہوریت کو تھوڑی اسپیس دینے کے لیے آمادہ و تیار نہیں ہو سکے اور موقع ملتے ہی اتنی نحیف جمہوریت پر شب خون ماردیا۔ (جاری ہے)