آئین کی توہین؟

February 07, 2021

(گزشتہ سے پیوستہ)

گزشتہ کالم میں ،میں نے آئین کی شق 160 کی ذیلی شق A ۔3 پیش کی تھی جس میں کہا گیا ہے کہ نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی)کا ہر ایوارڈ کسی بھی صوبے کے گزشتہ مالی سال کے ایوارڈسے کم نہیں ہوگا مگرجو کچھ کیا گیا‘اس کی تفصیل درج ذیل ہے، ;گزشتہ مالی سال کے پہلے تین ماہ کے دوران سندھ کو 154.022ارب روپے کا حصہ ملا جبکہ اس سال کے پہلے تین ماہ کے دوران این ایف سی کے تحت سندھ کو 124.170ارب روپے کا حصہ ملا ۔ اس طرح سال کے پہلے تین ماہ کے دوران سندھ کو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں دیئے گئے حصے سے 29 ارب 8کروڑ روپے کم دیئے گئے ہیں۔ پنجاب کو اس سال اسی عرصہ کے دوران گزشتہ سال دی گئی رقم سے 47ارب 8کروڑ روپے کم ملے ہیں۔ اسی طرح کے پی کے کو گزشتہ سال 197.033 ارب روپے ملے تھے جبکہ سال کے پہلے تین ماہ کے دوران اسے 16 ارب 13 کروڑ روپے کی رقم کم ملی جبکہ بلوچستان کو گزشتہ سال کے پہلے تین ماہ کے دوران دی گئی رقم سے 24ارب 42 کروڑ روپے سے کم فنڈز دیئے گئے ہیں۔ اسی طرح وفاقی حکومت نے صوبوں کے حصے میں سے 118 ارب روپے کی کٹوتی کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق وفاقی حکومت نے صوبوں کے حصوں سے یہ کٹوتی اس بات کے باوجود کی کہ وفاقی حکومت کو اس سال تین ماہ کے دوران ٹیکس اور نان ٹیکس کی جو وصولیاں ہوئیں وہ بھی اتنی ہی ہیں جتنی وفاقی حکومت کو گزشتہ سال ہوئی تھیں‘ اب میں یہاں دوسری مثال پیش کررہا ہوں:یہ مرکزی حکومت کا تازہ ترین کارنامہ ہے۔ نیا سال شروع ہوتے ہی مرکزی حکومت نے سندھ کے تین بڑے اسپتالوں کو حکومت ِسندھ کی مرضی کے بغیر اپنی تحویل میں لے لیا ہے حالانکہ یہ اسپتال آئین کے تحت صوبوں کے اختیار میں ہیں۔ مرکزی حکومت نے نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے ان تینوںاسپتالوں کو وفاقی اسپتال کی حیثیت دینے کا اعلان بھی کردیا ہے۔ سندھ کے آئینی اور قانونی ماہرین کے مطابق یہ فیصلہ نہ صرفآئین کی خلاف ورزی ہے بلکہ قانون کی بھی خلاف ورزی ہے اور تو اوراس فیصلے سے ان اسپتالوں کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کو نوٹیفکیشن کے ذریعے آگاہ کر دیا گیاہے لیکن سندھ کے چیف سیکرٹری کو آگاہ نہیں کیا گیا۔ سندھ کے یہ تین اسپتال جناح اسپتال،این آئی سی وی ڈی اور این ایس ایچ ہیں جن کا کنٹرول اب وفاقی حکومت کے پاس ہوگا۔ دریں اثنا حکومت سندھ نے اس فیصلے کے خلاف شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے نوٹیفکیشن کو مسترد کردیا ہے۔ اس فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے حکومت سندھ کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے 11جنوری کے ایک بیان میں وفاقی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ وہ سندھ کے ساتھ سوتیلی ماں والا سلوک بند کرے۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ حکومت سندھ کو وفاقی حکومت کا یہ فیصلہ منظور نہیں ہے۔ پہلے بھی وفاقی حکومت کو یہ قدم اٹھانے کا شوق ہوا تھا اور اب بھی وہ چاہے تو یہ شوق پورا کرکے دیکھ لے۔ انہوں نے توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ ان تینوں اسپتالوں میں سارے ملک سے لوگ علاج کروانے کے لئے آتے ہیں اور ان کا بلامعاوضہ علاج کیا جا رہا ہے۔ حکومت سندھ کے ترجمان نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت نے ہمیشہ سندھ کے ساتھ زیادتیاں کی ہیں اور متعصب رویہ اختیار کیا ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ’’ہم اس ایشو پر حکمت عملی تیار کررہے ہیں کیونکہ وفاقی حکومت کا یہ فیصلہ سندھ کو منظور نہیں ہے‘‘۔ میں وفاقی حکومت کی توجہ اس بات کی طرف بھی مبذول کرائوں گا کہ خاص طور پر این آئی سی وی ڈی کا پورے ملک میں کوئی متبادل نہیں ہے۔ اس وقت ان اسپتالوں کی شاخیں پورےسندھ میں پھیل چکی ہیں اور روزانہ فقط سندھ ہی نہیں بلکہ ملک بھرسے ہزاروں لوگ یہاں اپنا مفت علاج کراتے ہیں۔ فی الحال ان دو مثالوں کو ہی سامنے رکھ کر حکمرانوں سے بڑے ادب سے سوال کروں گا کہ جناب کیا آئین کی اس طرح کی خلاف ورزیاں آئین کی توہین نہیں؟ اور اگر ایسا ہی ہے تو کیا کوئی بھی معاشرہ آئین کی ایسی توہین برداشت کرسکتا ہے؟۔ (جاری ہے)