LAC پر جنگ بندی، LOC پر کیوں نہیں؟

February 14, 2021

مشرقی لداخ اور لائن آف ایکچوول کنٹرول پہ فوجی تصادم کو ختم کرنے کا معاہدہ کیا ہوا ہے کہ بھارتی اپوزیشن نے وزیراعظم مودی کو غدار قرار دے دیا۔

بھارت اور چین کے درمیان ہونے والے جنگ بندی کے معاہدے کی تفصیلات کے سامنے نہ آنے سے کنفیوژن پھیلی اور کانگریس کے ناکام نیتا راہول گاندھی بھارتی وزیراعظم پہ پَل پڑے۔

بحث یہ چل نکلی کہ چین نے جن علاقوں میں پیش قدمی کی تھی وہ ختم ہوئی کہ نہیں اور پینگانگ ژوکی جھیل کے جنوبی اور شمالی ساحلوں پر جنگ بندی کے بعد چینی افواج پرانے مقامات پر واپس گئیں بھی یا نہیں۔

سارا مناقشہ آٹھ دس کلومیٹر کے علاقے میں مختلف دفاعی پوسٹوں اور ان کے درمیان گشت کا ہے جس میں نتھولا سمڈارانگ چُواور ڈولکم قابل ذکر ہیں۔ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے جونہی فوجوں کی علیحدگی (Disengagement) کے معاہدے کا پارلیمنٹ میں اعلان کیا تو ایک ہنگامہ بپا ہوگیا۔ پھر کیا تھا بھارتی میڈیا پہ فساد مچ گیا۔

مودی کو غدار کہنے پر بھاچپا والوں نے جواہرلال نہرو کو غدار قرار دے دیا جو 1962کی جنگ ہارے تھے اور جنہوں نے چین سے دونوں طرف کی افواج کو سرحدوں پر غیر مسلح کرنے کا معاہدہ کیا تھا اور کچھ علاقہ چین کو سرنڈر کیا تھا۔

قوم پرستی بھی کیا خوفناک جادو ہے جو اچھے بھلے ماہرین کو اندھا کردیتی ہے اور وہ حقیقی فوجی مفادات اور عالمی تقاضوں کو بھلا بیٹھتے ہیں۔ یہی بھارت میں ہورہا ہے اور ایسا ہی پاکستان میں ہوتا چلا آیا ہے۔ جب کسی نے صلح صفائی کی بات چلائی، غدار ٹھہرا۔

گزشتہ چھ ماہ سے مشرقی لداخ کے محاذ پر چینی و بھارتی افواج ایک غیر حربی فوجی محاذ آرائی میں مصروف تھیں۔ لائن آف ایکچوول کنٹرول پہ چند مقامات پر چند کلومیٹر آگے پیچھے ہونے پہ یہ تصادم شروع ہوا تھا جس نے دونوں ملکوں میں جاری تجارت اور کئی سطحوں پہ عالمی تعاون کو بری طرح سے متاثر کیا تھا۔

1962کی بھارت چین جنگ کے بعد دونوں ملکوں میں ایسی محاذ آرائی کا بازار گرم ہوا جو پہلے کم دیکھنے کو آیا تھا۔ غیر جانبدار اسٹرٹیجک ماہرین بھی حیران تھے کہ آخر دونوں ملکوں نے اپنے بڑے قومی مفادات کو پس پشت ڈال کر ایک سنگلاخ اور سرد ترین علاقے کے چند کلومیٹر کے رقبے کی غیر معین لکیروں پہ کیوں اتنا بڑا فساد برپا کردیا؟

زیادہ سے زیادہ یہ تو جیہہ پیش کی جاسکی کہ چونکہ بھارت نے لداخ کو جموں و کشمیر کی ریاست سے علیحدہ کر کے یونین علاقہ قرار دے دیا تھا، تو چین نے وسیع تر مقبوضہ کشمیر کے اکسائی چین سمیت دیگر علاقوں پہ اپنے دعوے کو جتانے کے لیے ایک تدبیری حملہ کیا، حالانکہ بھارتی وزیر خارجہ جموں و کشمیر ، لداخ کی خصوصی حیثیت کے خاتمے پر بیجنگ جاکر یہ یقین دلا چکے تھے کہ اس جبری الحاق کا لائن آف ایکچوول کنٹرول یا لائن آف کنٹرول پہ کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

خود چین میں بھی اسے کچھ حلقے ’’مہم جوئی‘‘ قرار دے رہے تھے کہ یہ صدر ژی جن پنگ کے عالمی انسانی شراکت داری کے نظریے اور بھارت کے ساتھ باہمی تعلقات کے مقاصد سے ٹکرائو میں تھا۔ کچھ مبصرین اسے چین میں ابھرتی قوم پرستی کا شاخسانہ بھی سمجھ رہے تھے۔

بھارت کے جنگجوئیت پسند حلقوں کو بھی مشرقی لداخ میں جاری فوجی تنائو سے خوب مہمیز مل رہی تھی اور وہ چین مخالف نئی قوم پرست لہر کو ابھارنے اور اسلحہ کی دوڑ کو تیز کرنے کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں مصروف ہوگئے۔

نہتے فوجیوں کی کشتی میں جب بھارت کے 20 فوجی ہلاک ہوئے تو پورے بھارت میں کہرام مچ گیا اور امریکہ نواز حلقوں کو خوب موقع ملا کہ وہ بھارت کو امریکی کیمپ میں پورے طور پر دھکیلنے کی سعی کریں۔

اس سے قبل چینی صدر ژی اور بھارتی وزیراعظم مودی میں خوب چَھن رہی تھی اور خاص طور پر ان کی بھارت اور چین میں چوٹی کی ملاقاتوں اور چہل قدمیوں کا بڑا چرچا تھا۔ دونوں ملکوں میں 2018تک تجارت 95 ارب ڈالرز سے تجاوز کرگئی تھی اور 2020میں بھارتی برآمدات 16 فیصد بڑھیں تو چین کی برآمدات 13 فیصد کم ہوئیں جس سے بھارت کے تجارتی خسارے میں کچھ کمی واقع ہوئی۔

دریں اثنا امریکہ میں صدر ٹرمپ کو شکست ہوگئی اور جوبائیڈن صدر منتخب ہوگئے۔ اب چین، بھارت اور پاکستان منتظر ہیں کہ عالمی سیاست کی بساط میں کیا تبدیلیاں ہوتی ہیں۔

یقیناً بائیڈن انتظامیہ چین سے تجارتی جنگ کو جاری رکھے گی، لیکن کثیر قطبی دنیا پہ اب واحد سپر طاقت کا غلبہ ڈھیلا پڑ چکا ہے اور انڈو پیسفک ریجن میں چین کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کا منصوبہ زیادہ چلنے والا نہیں۔

بھارت کو بھی احساس ہوچلا ہے کہ چین کے ساتھ زیادہ ہنگامہ اس کے مفاد میں نہیں، نہ ہی امریکہ بھارت کو چین کے خلاف زیادہ اٹھا سکتا ہے کہ چین کی معیشت بھارت سے 10 گنا بڑی ہے اور چین کی معیشت اگلے دس برس میں دگنی اور امریکہ سے بڑی ہوجائے گی۔

اس ضمن میں بھارتی وزیر خارجہ کا چین کے حوالے سے پالیسی بیان بہت اہم اور عملیت پسندانہ ہے۔ اس میں صرف CPEC اور کشمیر کے حوالے سے دونکات پاکستان سے متعلق ہیں، جن پر چین واضح طور پر پاکستان کے ساتھ ہے۔

اب جبکہ لائن آف ایکچوول کنٹرول ٹھنڈی پڑگئی ہے، لائن آف کنٹرول پہ جاری کشیدگی کی جگہ فائربندی کیوں بحال نہیں کی جاسکتی، یقیناً کشمیر ایک سنگلاخ اور غیر آباد علاقہ نہیں جہاں انسانی حقوق کو خوفناک طور پر پامال کیا جارہا ہے لیکن LOC پر جاری کشیدگی سے دونوں ملکوں یا کشمیریوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

اس کا الٹا دونوں ملکوں کو نقصان ہے اور سب سے زیادہ متاثر اطراف کے کشمیری ہوتے ہیں۔

چین نے ہمیشہ پاکستان کو کشمیر کے مسئلہ پر موقف برقرار رکھتے ہوئے بھارت سے باہمی تعلقات کو بڑھانے کی ترغیب دی ہے۔

اب بائیڈن انتظامیہ بھی LOC کو ٹھنڈا رکھنے کی حوصلہ افزائی کرے گی اور انسانی حقوق کے معاملات بھی اٹھائے گی۔ ایسے میں جنرل باجوہ اور وزیراعظم عمران خان خطے میں امن کی اپیلیں سوچ سمجھ کر کررہے ہیں۔

بھارت کو بھی ضرورت ہے کہ وہ بات چیت کا کوئی راستہ نکالے۔ کیوں نہ فائر بندی کے معاہدے پر عملدرآمد ہو، واہگہ بارڈر تجارت اور آمدورفت کیلئے کھولا جائے اور سفارتی رابطے معمول پہ لائے جائیں۔

کشمیر پہ اسٹیٹس کو بدلنے میں بہت وقت لگے گا۔ البتہ اسٹیٹس کو رفتہ رفتہ نرم کیوں نہیں کیا جاسکتا۔ ممکنات پہ پہل کرنے میں آخر حرج ہی کیا ہے؟