جوبائیڈن حکومت کو درپیش چیلنجز؟

February 18, 2021

جوبائیڈن حکومت کو داخلی محاذ پر جو چیلنجز درپیش ہیں ان کی اس قدر متنوع جہتیں ہیں کہ تفصیل میں جائیں تو پورا کالم انہی کی نذر ہو جائے جبکہ ہمارے قارئین کو شاید ان ایشوز سے کوئی اتنی زیادہ دلچسپی نہیں ہو گی۔ اس لئے ہم ان کے خارجی محاذ پر پہلے بڑے چیلنج یعنی چائنہ پالیسی پر بات کرنےکی بجائےدوسرے بڑے چیلنج پر بات کرتے ہیں جو ہماری ہمسائیگی میں ہے۔ وہ ہے امریکا اور مغربی طاقتوں کا ایران کے ساتھ نیوکلیئر معاہدہ جو اوباما انتظامیہ کی رہنمائی میں وقوع پذیر ہوا تھا اور جس کا مقصد تھا کہ ایران یورینیم انرچمنٹ کرتے ہوئے ایٹم بم نہ بنانے پائے۔ ایران پر عالمی اداروں کی سخت ترین پابندیاں عائد کرتےہوئے اسے کچھ مالیاتی و معاشی رعایتیں بھی دی گئی تھیں جن پر اسرائیل اور چند عرب ممالک کو شدید تحفظات تھے۔ڈونلڈ ٹرمپ چونکہ خود کو اسرائیل اور عربوں کا سب سے بڑا محافظ خیال کرتے تھے اس لئے انہوں نے جوش یا شتابی میں نہ صرف اس معاہدے کو سبوتاژ کر دیا بلکہ ایران کےخلاف یکطرفہ طور پر پیہم محاذ آرائی کی پالیسی اپنائے رکھی۔ انہوں نے خطے میں ایران کو تنہا کرنے کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑی، جنگ کے بادل منڈلاتے رہے۔ اس کا ایرانی معیشت کو بلاشبہ بہت نقصان ہوا اور ایرانی کرنسی رل کر رہ گئی مگر ساتھ ہی یہ نقصان ہوا کہ صدر اوباما کی پالیسی سے اس کے ایٹمی پروگرام پر جو رکاوٹیں اور چیکس لگے تھے وہ ہٹ جانے سے ایران اس طرف کافی آگے بڑھ گیا۔ صدر ٹرمپ ایران پر پابندیاں لگاتے ہوئے یہ بھول گئے کہ وہ دوسری عالمی طاقتوں کو اپنا ہمنوا بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔اس امر میں کوئی اشتباہ نہیں ہونا چاہیے کہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ایران جس طرح امریکا کیلئے ڈرائونا خواب ہے اس سے بھی بڑھ کر اسرائیل اور دیگر عرب ہمسایہ ممالک کے لئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران نے خطے کی پوری عرب اور عالمی سیاست کو جھنجھوڑ کر رکھا ہوا ہے۔ یہ یمن کے حوثی باغیوں تک محدود مسئلہ نہیںبلکہ شام اور لبنان کے راستے حزب اللہ کی شدت و دہشت کا خوف بھی ہے جس نے عربوں کی یہود دشمنی کوبھلا کر اس کی جگہ نظریاتی اختلافات کو نمایاں کر دیا۔ رہ گئے اسرائیل میں بسنے والے یہود، تو تصور کیا جا سکتا ہے کہ نیو کلیئر ایران کی موجودگی میں وہ سکون کی نیند کیسے سو سکتے ہیں؟ان حالات میں ایک طرف صدر جوبائیڈن ضرور یہ چاہیں گے کہ ایران کو کچھ معاشی رعایتیں دیتے ہوئے اس کے نیو کلیئر پروگرام کو کنٹرول میں لیں مگر ساتھ ہی ان پر یہ دبائو بھی ہے کہ وہ رعایات کے ایشو پر ایک خاص حد سے آگے نہ جائیں کیونکہ صدر ٹرمپ ایران کا گھیرائو کرتے ہوئے اسرائیل اور اپنے عرب دوستوں کے ساتھ جس قدر آگے چلے گئے تھےجوبائیڈن اس کا مورال گرانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں وہ کسی نوع کی کوئی مایوسی بھی پھیلانا نہیں چاہیں گے۔ نیز ان کے مغربی اتحادیوں کے بھی کچھ تقاضے ہیں جیسے کہ فرانس کے صدر میکرون نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ ایران کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل میں سعودی عرب کو بھی شامل کیا جائے،عرب لیگ کے حالیہ اجلاس میں یہی سعودی مطالبہ بھی سامنے آیا ہے جسے ایران قبول کرنے سے انکار کرے گا۔ نئے امریکی سیکورٹی ایڈوائز جیک سیالون نے حال ہی میں میں کہا ہے کہ ٹرمپ کی غیر ذمہ دارانہ پالیسیوں کی وجہ سے ایران پہلے سے بڑا خطرہ بن گیا ہے۔ ایران کے ساتھ طے شدہ ’’مشترکہ جامع لائحہ عمل‘‘ کہلانے والے معاہدے کا خاتمہ اس کی بہت بڑی غلطی تھی جس کے سبب ایران کے ایٹمی پروگرام میں ڈرامائی انداز میں اضافہ ہوا ہے۔اب یہ جوبائیڈن انتظامیہ کی صلاحیتوں کا امتحان ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں کا اعتماد مجروح کیے بغیر یہ معاملہ کیسے حل کرتی ہے۔

اس سے بھی بڑا اور خطرناک چیلنج بائیڈن انتظامیہ کیلئے افغانستان کا ایشو ہے،جہاں گزشتہ دو دہائیوں سے امریکا حالت جنگ میں ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے طویل دوحہ مذاکرات کے بعد طالبان سے تشدد چھوڑنے اور قومی دھارےمیں شامل ہونے کی ایک ڈیل طے کی تھی جس میں پاکستان کی معاونت بھی امریکا کو حاصل تھی لیکن اب اس پر بھی بہت سے سوالات و اعتراضات اٹھ رہے ہیں۔ سب سے پہلا اعتراض تو یہ ہے کہ صدرٹرمپ نے کسی خاص وزڈم ، منصوبہ بندی یا حکمت عملی کے ساتھ یہ سب نہیں کیا تھا انہیں بس ایک ہی دھن تھی کہ میں اپنی انتخابی کامیابی کیلئے اپنے عوام کے سامنے یہ ثابت کرسکیں کہ انہوں نے اپنے دورِ صدارت میں امریکا کیلئے کوئی نئی جنگ نہیں چھیڑی ہے بلکہ پہلے سے موجود جنگی کارروائیوں کا خاتمہ کرتےہوئے اپنی افواج کو واپس اپنے ملک لا رہے ہیں۔ اس سے امریکی مورال یا مفادات کے علاوہ علاقائی تنازعات میں کیا بربادیاں آتی ہیں، امریکی قوم کا وقار، انسانی حقوق، جمہوریت اور اقوام کی آزادی کس قدر تباہ ہو سکتی ہے ان باتوں سے انہیں کوئی غرض نہ تھی۔دوحہ مذاکرات کے ذریعے طالبان سے جس نوع کی شرائط منوائی گئی تھیں ان کا سرے سے کوئی جواز ہی نہیں بنتا تھا کہ وہ تمام باتیں طالبان کے ضمیر سے ہی مطابقت نہ رکھتی تھیں۔ طالبان اگر لکھ کر بھی دے دیں کہ وہ القاعدہ کو اپنے قریب نہیں پھٹکنے دیں گے تو کیا یہ ممکن ہے ؟ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)