اسلام اور انسانی علوم کا ارتقاء

February 19, 2021

ڈاکٹر محمد جاوید ایم ڈی

(گزشتہ سے پیوشتہ)

جب یہی یونانی افکار عباسیوں میں پہنچے تو آہستہ آہستہ انہیں بھی دیمک کی طرح چاٹ لیا اور وہ ختم ہوگئے ، حالانکہ مسلمانوں کے بڑے بڑے مفکروں جیسے امام غزالی ؒ اور شیخ عبد القادر جیلانی ؒ جیسے لوگ ان میں شامل ہیں،جنہوں نے اس دور کے فلسفیانہ خیالات کا اپنے اپنے طور پر مقابلہ کیا ،مگر پھر بھی شکست مسلمانوں کو ہی مقدر ہوئی ۔

ایسے دور میں جب مسلمانوں میں فراغت کا دور دورہ تھا ،اس وقت دوسری قوموں کا کیا حال تھا ؟ یہ وہ وقت ہے جب یورپ جہالت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا ، جو اُ س پر تقریباً ہزار سال تک محیط رہا ۔ جہالت اور غربت کے اندھیرے اُس پر چھائے ہوئے تھے ، بیماریاں ، وبائیں اور اموات اُسے گھیرے ہوئے تھیں ۔ جس وقت عروس البلاد بغداد میں ہزاروں حمام تھے، اُ س وقت یورپ کی گلیاں کیچڑ سے لت پت ہوا کرتی تھیں ۔وہاں نہانے دھونے اور صفائی کا کوئی دستور نہ تھا ۔ اس تاریک دور میں بھی یورپ میں ایسے لوگ تھے ،جو علم کے متلاشی تھے ، جنہوں نے تلاش علم کےلیے لندن ، پیرس ، ماسکو اور روم سے بغداد کی راہ لی اور مسلمان علما سے استفادہ کیا اور اپنی علم کی پیاس بجھائی ۔ مسلمان ہمیشہ مہمان نواز اور دریا دل رہے ہیں، یہی وہ چیز تھی جس نے یورپ سے آنے والوں کی حوصلہ افزائی کی ۔ دوسری بات یہ کہ مسلمانوں نے اپنے علوم کو کبھی نہیں چھپایا اور بڑی فراخ دلی سے ان غیر مسلموں کو بھی ان علوم سے روشناس کرایا۔ جب بغداد کو زوال ہوا اور ہلاکو خان کی فوجوں نے اُس کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور کتابوں کو دریا برد کردیا تو بہت ساری کتابیں یورپ کے میوزیم میں پہنچ گئیں۔

جب عباسیوں کو شکست ہوئی ، طوائف الملوکی پھیلی تو کئی دوسری سلطنتیں وجود میں آئیں ۔ سلطنت عثمانیہ سات سو سال قائم رہنے کے بعد پہلی جنگ عظیم پر ختم ہوئی اور دوسری ہندوستان میں مغلیہ حکومت ۱۸۵۷ ءمیں ختم ہوئی ۔ مغل حکومت کی خاص بات یہ ہے کہ اُس کے پہلے چھ بادشاہ بہت ہی طاقت ور تھے ۔ ان میں خاص طور پر آخری طاقتور بادشاہ اورنگزیب کے بعد مغلوں کی حکومت میں زوال پیدا ہوا اور جو ڈیڑھ سو سال کے بعد مکمل خاتمے کی شکل میں ظاہر ہوا۔

ان تمام باتوں کے لکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک تو مسلمانوں کی اپنی تباہی وہ تو اپنی جگہ ٹھیک ہے، مگر یورپ کے صنعتی انقلاب کے انسانیت پر کیا اثرات ہوئے ۔ اس مسلسل ایجاد سے ایک ایسا ماحول پیدا ہوا جس نے انسانوں کو مادیت کا غلام بنادیا ، اُن کی نگاہ مادی اسباب اور اُن کے مادی اثرات تک محدود ہوکر رہ گئی ۔ اب وہ ہر چیز کو اُ سی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔ اس وجہ سے اب اس کے سامنے صرف یہ رہتا ہےکہ وہ کیسے زندگی گزارے ۔ وہ روح کی حقیقت اور اس کے تقاضوں سے غافل ہے ۔

یہاں ہمیں شاہ ولی اللہ ؒ کی تصانیف کی اہمیت کا اندازہ ہوتاہے جو یورپ کے صنعتی انقلاب کے شروع میں لکھی گئیں اور جو اب سمجھ میں آتی ہیں ۔انہوں نے ان کتابوں میں جن روحانی چیزوں کا ذکر کیا اور کس طرح انسانیت کو اللہ کی طرف بلایا اور کس طرح انہوں نے مادیت کو چیلنج کیا ،اسے فلسفیانہ انداز سے سمجھا یا ، یہ تو وہی سمجھ سکتا ہے، جس نے ان کا مطالعہ کیا ہو۔ اسے جدید سائنسی انداز سے سمجھنے کی کوشش کی ہو۔ جس قدر آپ کو قدیم علوم کے ساتھ ساتھ جدید سائنسی علوم پر بھی دست رس حاصل ہوگی، اُسی قدر ان کتابوں اور ان تحریروں کی اہمیت واضح ہوگی۔ شاہ ولی اللہؒ کی سب سے مشہور کتاب’’ حجۃ اللہ البالغہ ‘‘ہے جس کے پہلے حصے کا انگریزی ترجمہ بھی ہو چکا ہے ۔ آپ کی سب سے معرکۃ لآرا تصنیف ’’تفہیمات الٰہیہ ‘‘ہے ۔ آپ کی تصنیف ’’الطاف القدس ‘‘ایک شاندار تصنیف ہے جس میں آپ نے ذکر کے طریقے ہی نہیںسکھائے ، بلکہ ان علوم کو سمجھایا جس کے ذریعے کوئی شیخ اپنے مرید کے مزاج کو سمجھ کر اس کی تربیت کرسکتا ہے ،یعنی ہر مرید کی تربیت ہوگی ۔ آپ کی کتابوں میں ہمعات اور القول الجمیل ہیں ،جس میں آپ نے مختلف سلسلوں کے ذکر کے طریقے سکھائے ہیں ۔آپ کی کتابوں میںمقدمہ سطعات جس کا آسان ترجمہ سید محمد متین ہاشمی صاحبؒ نے کیا ہے،بلکہ انہوں نے ترجمے کا حق ادا کردیا ہے۔ دوسری کتاب لمعات ہے، یہ دونوں کتابیں فرشتوں کے بارے میں روشنی ڈالتی ہیں، وہ کس طرح اپنے فرائض انجام دیتے ہیں، ان کی بناوٹ کیسی اور ان کے’’ مقام معلوم ‘‘ کیا ہیں ؟ ان دونوں کتابوں کا ترجمہ انگریزی میں ڈاکٹر جلبانی صاحبؒ نے کیا ہے ۔ان ساری باتوں کو لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان ان باتوں کو سمجھ کر اس طرح اللہ کا ذکر کرے کہ اْس کے اور ملا ئےاعلیٰ کے درمیان جو حجاب ہے، وہ ٹوٹ جائے، یہ در حقیقت ایک بہت بڑی کامیابی ہے ۔

ان تمام باتوں کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کس طرح بھٹکی ہوئی انسانیت کو اُس کے خالق سے ملوایا جائے ، یہ وہ بھٹکی ہوئی انسانیت ہے جو مادیت کے نشے میں ہزاروں حجابات میں گھری ہوئی ہے، اس کی وجہ سے اپنے پروردگار اور پالنہارسے دور ہے ۔ آج کے دور کو ہم دلیل کا دور کہتے ہیں اور ہر چیز کا جائزہ سبب اور دلیل کے ذریعے لیتے ہیں۔اسی تصور کو شاہ ولی اللہ ؒ کی کتابیں چیلنج کرتی ہیں اور جس طرح کا انسان ہو، اُسے اللہ سے قریب لانے کی کوشش کرتی ہیں اور شاہ صاحبؒ یہ چاہتے ہیں کہ انسانوں اور اللہ کے درمیان حجابات ٹوٹیں۔

تاکہ انسان بندگی کے تقاضے کو سمجھتے ہوئے اپنے رب کا قرب حاصل کرے۔علم انسان کو اپنے رب کی بندگی کی راہ اور قرب کا راستہ بتاتا ہے ۔یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ رسول اللہﷺ کی تشریف آوری کے بعد ایک ایسا انقلاب عمل میں آیا جس نے علم ،تعلیم اور علوم کوفروغ دیا۔انسانیت ایسے مثالی فلسفے اور نظام سے متعارف ہوئ جس کے نتیجے میں علوم کا ارتقاء عمل میں آیا۔ سچی بات یہ ہے کہ علم ہی درحقیقت رب کی معرفت کا سرچشمہ اور بندگی کا وسیلہ ہے۔جب کہ مختلف علوم اور کائنات کا نظام انسان کو اپنے رب کی معرفت کی طرف راہ دکھاتے اور نظام قدرت پر غوروفکر کی دعوت دیتےنظر آتے ہیں۔