بڑھیا اور ریچھ

March 07, 2021

ایاز قیصر

بہرام کے ابو تھانیدار تھے۔ان کا تبادلہ شہر سے دور ایک پہاڑی گاؤں میں ہوگیا۔ وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ وہیں منتقل ہوگئے۔انہیں رہنے کے لیے تھانے سے متصل ہی سرکاری کوارٹر ملا تھاجو گاؤں سے ذراہٹ کر تھا۔اس کے اطراف میں پہاڑیاں تھیں جن کے اوپر جنگل میںریچھ رہتے تھے۔گاؤں والے ان ریچھوں سے بہت پریشان تھے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ کھیتوں اورباغات میں شہدکی مکھیوں نے چھتے بنائے ہوئے تھے اور شہد ریچھ کی مرغوب غذا ہے۔ اس کے حصول کے لیے وہ کھیت اور باغ میں گھس جاتے اور انہیںاجاڑ دیتے تھے۔چھتوں کو ریچھوں سے بچانےکے لیے گاؤں والوں نے درختوں میں رسیوں سے موٹی موٹی لکڑیاں باندھ دی تھیں ۔ جب ہوا چلتی تو لکڑیاں جھولنے لگتیں جس سے خوف زدہ ہوکر ریچھ ان درختوں سے دور رہتے تھے۔

ایک رات بہت سردی تھی جس کی وجہ سے گاؤں میں سناٹا تھا۔ اس کا فائدہ اٹھا کر ایک ریچھنی اپنے بچے کے ساتھ گاؤں میں گھس آئی، وہ بہرام کے گھر کے قریب لگے ایک درخت پر چڑھ کر شہد کھانا چاہتی تھی۔ اس کا بچہ بجائے اپنی ماں کے ساتھ درخت پر چڑھنے کے، رسیوں سےبندھی لکڑیوں سے کھیلنے لگا۔ ایک لکڑی اس طرح سے جھولی کہ ریچھنی کے بچے کے سر پر آکر لگی جس سے اسےشدید چوٹ آئی اور وہ بے ہوش ہوگیا۔یہ دیکھ کر ریچھنی درخت سے نیچے آئی اوراپنے بچے کو جگانے کی کوشش کرنے لگی یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔

دن نکلتے ہی گاؤں میں چہل پہل شروع ہوگئی جس سے گھبرا کر ریچھنی بچے کو چھوڑ کر پہاڑیوں کی طرف بھاگی۔صبح جب ڈیوٹی پرجانے کے لیے بہرام کے ابو گھر سے باہرنکلے تو انہوں نے درخت کے پاس ریچھ کے بچے کو زخمی حالت میں بے ہوش پڑا دیکھا۔ انہیں اس پر بہت ترس آیا۔ انہوں نے اسے اٹھایا اور گھر میں لا کر آگ کے الاؤکے پاس لٹاکر مرہم پٹی کی۔

گرمی ملنے سے اسے ہوش آگیا اور گھر والوں کو آنکھیں کھول کر دیکھنے لگا۔ اس کے ابو نے اسے گرم دودھ دیا، جسے پی کر اس میں کچھ توانائی آئی۔ بہرام کے ابو اسے پہاڑی پر واپس چھڑوانا چاہتے تھے لیکن بہرام اسے اپنےساتھ رکھنا چاہتا تھا، ابو بھی اس کی ضد کی وجہ سے مجبور ہوگئے۔

ریچھ کا بچہ بہرام کے گھر میں ہی رہنے لگا، اس کے ابو نے اس کے رہنے کے لیے الگ کمرے میں انتظام کردیا۔بہرام نے اس کا نام’’ کالو‘‘ رکھا اور وہ اس گھر کے تمام لوگوں سے مانوس ہوگیا۔ دن بھر وہ بہرام اور اس کے دوستوں کے ساتھ کھیلتا اور شام کو اس کے ساتھ گھر آکر اپنے کمرے میں آرام کرتا۔ گاؤں کی ایک بڑھیا کو بھی اس سے انسیت ہوگئی تھی اوروہ اس کے لیے پھل اور خشک میوہ لاتی تھی۔

بہرام کے گھر میں پل کر وہ بڑا ہوگیا۔ ایک روزاسے اپنی ماں کی یاد ستانے لگی اور وہ صبح ہی صبح پہاڑی کی طرف نکل گیا۔ صبح جب بہرام نیند سے جاگا توحسب معمول ریچھ کے کمرے کی طرف گیالیکن وہ وہاں موجود نہ تھا۔ اس نے اسے سارے گھر میں تلاش کیا لیکن نہیں ملا، باہر آکر اپنے دوستوں کے ساتھ ڈھونڈھتا پھرا، تھک ہار کر اس کی تلاش ترک کردی۔

کالو اپنی ماں کے پاس ایسا گیا کہ پھر واپس گاؤں میں نہیں آیا، جس سے بہرام بہت دکھی رہتا تھا۔ کچھ عرصے بعد بہرام کے ابو کا وہاں سے تبادلہ ہوگیا۔ گاؤں چھوڑتے وقت سب لوگ انہیں الوداع کہنے آئے، جن میں وہ بڑھیا بھی شامل تھی۔ بہرام نے اس سے کہا کہ اگر کالو کبھی گاؤں میں آئے تو اس کا خیال رکھنا کوئی شخص اسے نقصان نہ پہنچادےاور اسے پھل کھلانا۔

بہرام کے ابو کی جگہ جو تھانیدار آیا ، اسے بھی رہائش کے لیے یہی کوارٹر الاٹ ہوا۔ ان کا ایک چھوٹا سا بچہ تھا۔ ایک روز جب تھانیدار صاحب ڈیوٹی پر تھے، ایک ریچھ گھر میں گھس آیا،جسے دیکھ کرتھانیدارنی خوف زدہ ہوگئی اور لگی شور مچانے۔ اس کی آہ بکا سن کر تھانیدار کچھ سپاہیوں کے ساتھ آیا۔

ریچھ کو دیکھ کر انہوں نے ہاتھ میں پکڑے لٹھ سے اسے مارنا شروع کردیا، جس سے گھبرا کر وہ پہاڑی کی طرف بھاگا۔ایک دن سخت سردی تھی، تھانیدارنی بچے کو دھوپ میں پڑے پلنگ پر سلا کر گھر کے کاموں میں مصروف ہوگئی جب کہ باہر کا دروازہ کھلا چھوڑ دیا۔ اتنے میں وہی ریچھ چپکے سے گھر میں داخل ہواا اوربچے کوگود میںاٹھا کر پہاڑی کی طرف لے گیا۔

کام سے فارغ ہوکر تھانیدارنی جب صحن میں آئی تو اس نے بچے کو غائب پایا۔وہ رونے اور چلانے لگی، تھایندار سمیت گاؤں کے سب لوگ وہاں آگئے۔ تھانیدارنے کھوجیوں کو بلایا، جنہوں نے زمین پر پیروں کے نشان تلاش کیے جو ریچھ کے تھے۔سب کو یقین ہوگیا کہ بچے کو ریچھ نے اغوا کیا ہے۔ لوگ گاؤں اور پہاڑی کے اطراف میں دور دور تک پھیل گئے۔ ایک کھوجی قدموں کے نشانات پر چلتا ہوا ریچھ کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوگیا۔اس نے فوراًّآکر تھانیدار کو خبر دی کہ ریچھ بچے کو لے کر ایک ٹیلے پر بیٹھا ہے۔وہ مسلح سپاہیوں کے ساتھ ٹیلے پر پہنچ گیا اور اسے چاروں طرف سے گھیر لیا گیا۔ سب کی متفقہ رائے تھی کہ ریچھ کو گولی مار دی جائے۔

اس سے پہلے کہ وہ اسے عملی جامہ پہناتے کہ وہی بڑھیا جس سے بہرام نے ریچھ کا خیال رکھنے کی درخواست کی تھی، سر پر ٹوکرا رکھے وہاں آگئی۔ اس نے تھانیدار سے کہا کہ وہ ریچھ کو گولی نہ ماریں اور وہاں سے دور ہٹ جائیں، وہ ریچھ سے بچے کو حاصل کرکے گاؤں پہنچا دے گی۔ پہلے تو تھانیدار نے اس کی بات ماننے سے انکار کردیا لیکن بڑھیا کے بار بار اصرار کرنے پر وہ سپاہیوں کو لے کروہاں سے ہٹ گیا، لیکن اس خدشے کے پیش نظرکہ ریچھ بڑھیا کو دیکھ کر بچے کو نقصان نہ پہنچا دے،پہاڑی پر سے اترنے کی بجائےچٹانوں کے درمیان چھپ گیا۔

تھانیدار کے وہاں سے جانے کے بعد بڑھیا نے پھلوں سےبھری ٹوکری ٹیلے پر رکھ دی۔ریچھ بچے کو ایک طرف لٹا کرٹوکری کے قریب آیا اور بے صبری سے پھل کھانے لگا۔پیٹ بھرنے کے بعد وہ بڑھیا کے پاس آیا اور اس کے قدموں میں بیٹھ گیا۔ بڑھیا نے اسے پیار کیا۔ ریچھ بچے کو وہیں چھوڑ کر پہاڑی پر واپس چلا گیا۔ اس کے جانےکے بعد بڑھیا نے تھانیدارکو آواز دی جسے سن کر وہ ٹیلے پر آیا۔ اس نے دیکھا کہ ریچھ وہاں سے جاچکا ہے جب کہ اس کا بیٹا بڑھیا کی گود میں سو رہا ہے۔اس نے بچے کو بڑھیا کی گود سے لیا اور اپنے سپاہیوں اور گاؤں کے لوگوں کے ساتھ جلوس کی صورت میں واپس گاؤں آگیا۔

سب نے بڑھیا کی عقل مندی کی داد دی ، تھانیدار اسے انعام بھی دینا چاہتا تھا لیکن بڑھیا نے اس سے کہا کہ میرا انعام صرف یہ ہوگا کہ ’’کالو‘‘ نامی ریچھ جو بچے کو لے گیا تھا، اسے گاؤں میں آنے دیا کریں کیوں کہ اس کا بچپن آپ کے گھر میں گزرا ہے۔ تھانیدار نے اجازت دے دی، جب تک بڑھیا زندہ رہی کالو وہاں آتا رہا اور بڑھیا پہلے کی طرح پھل اور خشک میووں سے اس کی تواضح کرتی رہی۔