وہ لاہور کہیں کھو گیا

February 28, 2021

(گزشتہ سے پیوستہ)

عزیز قارئین! آپ کو یہ بتائیں کہ اس لیمپ پوسٹ کے پاس کئی مرتبہ مختلف سیاسی جلوسوں پر پولیس نے لاٹھی چارج بھی کیا تھا۔ یہ جگہ یعنی لیمپ پوسٹ بڑی تاریخی تھی جو بینک اسکوائر کے سامنے تھا ، اس لیمپ پوسٹ کے وہاں رہنے سے ٹریفک میں رکاوٹ کا مسئلہ نہیں تھا۔ پھر پتہ نہیں کیوں اس کو وہاں سے کس کے حکم پر ہٹا دیا گیا۔ یہ پول چوکور شکل میں 2x2 میںسلور رنگ میں بنا ہوا تھا اور اس کے عین وسط میں بلب نیچے یعنی سڑک کے رخ پر لگا ہوا تھا، جب بجلی نہیں آئی تھی تو تیل سے لیمپ جلایا جاتا تھا۔ اس پوسٹ لیمپ پر بعض اوقات لوگ چڑھ بھی جاتے تھے ہم خود بھی جب گورنمنٹ کالج لاہور میں زیر تعلیم تھے تو لیمپ پوسٹ پر کھڑے ہو کر مال روڈ کا نظارہ کیا کرتے تھے۔

اس تاریخی شہر بلکہ شہر تاریخ سے پتہ نہیں کون کون سی تاریخی عمارتوں اور باغات کو ابھی غائب کیا جانا ہے کیونکہ قبضہ مافیا کب سے ان تاریخی عمارتوں اور تاریخی باغات پر نظریں گاڑے بیٹھا ہے۔ یہ تو بھلا ہو لاہور کے نئے سی سی پی او غلام محمود ڈوگر کا جنہوں نے قبضہ مافیا کے خلاف ایکشن لیا اور اب تک 1250ایکڑسے زائد زمین واگزار کرا لی ہے۔ انہیں چاہئے کہ وہ تاریخی عمارتوں اور باغات کو بھی قبضہ مافیا سے بچانے کے لئے ایسا قدم اٹھائیں۔ مال روڈ جس کا کبھی نام لارنس روڈ بھی رہا ہے۔ بڑی تاریخی سڑک ہے۔ 1861ء میں قائم ہونے والی یہ سڑک آج بھی آمدورفت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ مال روڈ پر پاک ٹی ہائوس والے چوک، انار کلی اور ٹولینٹن مارکیٹ والے چوک اور پھر ریگل چوک پر موٹے موٹے لوہے کے سلور رنگ کے ڈنڈے لگے ہوتے تھے۔ تاکہ جو لوگ سڑک پار کرنا چاہتے ہیں وہ ان ڈنڈوں کے پیچھے کھڑے رہیں تاکہ کسی حادثے سے محفوظ رہ سکیں۔ کبھی ہم آپ کو بتائیں گے کہ لاہور میں کہاں کہاں رائونڈ ابائوٹ یعنی گول چکر تھے۔

ہم اپنے دوست عابد علی عابد (ڈنمارک) گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر جاوید اکرام شیخ ( امریکہ) اور پرویز اکرام ربانی کے ساتھ ان ڈنڈوں پر بیٹھ کر مال روڈ پر آنے جانے والے لوگوں، تانگوں اور گاڑیوں کو دیکھ کر لطف اندوز ہوا کرتے تھے،ٹھنڈی سڑک تھی، کم ٹریفک تھی، شور بالکل نہیں تھا۔

جہاں مسجد شہدا ہے وہاں ایک پٹرول پمپ اور ٹیکسیوں کا اڈا تھا۔ کسی زمانے میں تانگوں کا اڈا بھی تھا بہرحال ٹیکسی اسٹینڈ اور پٹرول پمپ تو ہم نے خود دیکھا تھا۔ کافی عرصے تک پٹرول پمپ والوں اور حکومت کی مقدمہ بازی بھی رہی تھی پھر یہاں مسجد شہدا بن گئی اور پٹرول پمپ کو ہائیکورٹ کے سامنے منتقل کر دیا گیا جہاں یہ آج بھی ہے۔ میرے دونوں اساتذہ ماشاء اللہ حیات ہیں۔ اللہ انہیں لمبی عمر عطا فرمائے (آمین) گورنمنٹ کالج لاہور بھی کبھی بہترین روایات کا امین تھا۔ اس کالج میں پنجابی ڈیپارٹمنٹ اور سوشل ورک ڈیپارٹمنٹ قائم کرنے والے پہلے دو اساتذہ پروفیسر گلزار بخاری اور پروفیسر محمد سلیم بٹ بھی ماشاء اللہ حیات ہیں مگر کالج (اب یونیورسٹی) نے کبھی بھول کر بھی انہیں یاد نہیں کیا۔ مال روڈ پر پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس، عجائب گھر اور پھر اسکول آف آرٹس (اب این سی اے) کے باہر فٹ پاتھ پر جو بجلی کے پول نصب تھے وہ انگریزوں کے دور کے تھے اور بڑے دیدہ زیب تھے۔ جس طرح کے ولایت میں بجلی کے پول ہوتے ہیں۔ ان پر بڑے خوبصورت نقش و نگار تھے۔ یہ پول ہم نے 1980ء تک دیکھے پھر وہ ایک ایک کر کے غائب کر دیئے گئے کیونکہ وہ بڑے ٹھوس اور مضبوط لوہے کے تھے۔ کارپوریشن کے کسی افسر کی نظر کرم کا شکار ہو گئے۔ لیمپ پوسٹ اور یہ سارے بجلی کے کھمبے /پول سلور رنگ کے ہوتے تھے اور ان پر سال میں ایک مرتبہ سلور رنگ کیا جاتا تھا۔ اب پتہ نہیں اس سلور رنگ کرنے کے چکر میں کون کیا کھا جاتا ہو گا۔

جی پی او کے سامنے تار گھر یعنی ٹیلی گراف آفس تھا۔ بڑا رش ہوتا تھا۔ لوگ ٹیلی گرام۔ ٹرنک کال اور ٹیلکس دینے کے لئے اپنی باری کا انتظار کیا کرتے تھے اس تار گھر میں لاہور کا پہلا ٹیلی فون ایکسچینج لگا تھا یہاں کبھی چرچ بھی تھا یہ ٹیلی فون ایکسچینج پورے لاہور کے لئے تھا۔ کیا خوبصورت کالے رنگ کے ٹیلی فون سیٹ جرمن کے ہوا کرتے تھے۔ کبھی پوسٹ آفس، ٹیلی فون اور ٹیلی گراف کے اداروں کا ایک ہی عملہ تھا یعنی پی ٹی این ٹی۔ جی پی او کے باہر لال ڈبہ، نیلا ڈبہ اور ایک تیسرا ڈبہ بھی تھا اس کا رنگ ہم بھول گئے ۔ لال ڈبہ عام ڈاک کے لئے، نیلا ڈبہ ہوائی ڈاک کے لئے اور تیسرا ریل کے ذریعے خط بھیجنے کا ڈبہ ہوتا تھا۔ کبھی خط آدھی ملاقات ہوتا تھا۔ اب موبائل فون کے ذریعے آپ ویڈیو کال کر لیتے ہیں۔ بینک اسکوائر میں کبھی اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی عمارت ہوتی تھی اور ہم نے کالے بورڈ پر سفید رنگ میںا سٹیٹ بینک آف انڈیا لکھاخود دیکھا ہے۔

لاہور کا انٹرنیشنل ہوٹل کبھی غیر ملکی سیاحوں کے لئے بڑا مشہور تھا اس ہوٹل کو بھی ایک سیاستدان نے خرید کر تباہ و برباد کر دیا پھر کسی فنانس کمپنی نے اس سے لے لیا تھا۔ اب پتہ نہیں کس کے پاس ہے۔ یہ لاہور کا واحد ہوٹل تھا جس کے احاطے میں چھوٹا سا پٹرول پمپ بھی تھا ، اس ہوٹل کے کارنر پر ایک چھوٹا سا جنرل اسٹور بھی تھا۔ یہ پہلا ہوٹل تھا جس نے 1965ء میں جنریٹر (غیرملکیکمپنی کا) لگا یا تھا۔ بے شمار غیر ملکی سیاحوں کی بسیں ڈبل ڈیکرز اور ہیوی موٹر سائیکلیں یہاں کھڑی ہوتی تھیں پھر پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات شروع ہو گئے سیاح بھاگ گئے اور ہوٹل بھی برباد ہو گیا۔ (جاری ہے)