حُصولِ حقوق کے ساتھ تکمیلِ فرائض پر بھی توجہ دینی ہوگی

March 07, 2021

نادیہ ناز غوری، لانڈھی، کراچی

دینِ اسلام نے عورت کو جس اعلیٰ و ارفع مقام پر فائز کیا ہے، تو ہم یہ کہنے میں حق بہ جانب ہیں کہ ہمارا مذہب خصوصاً خواتین کے حق میں انقلابی ثابت ہوا۔ یہ اسلام ہی ہے، جس نے عورت کو بطور ماں، بہن، بیوی اور بیٹی تقدّس، تعظیم، عزّت، عظمت اور وقار سے سرفراز کیا، لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ شیطان جب بھی کسی سماج اور معاشرے کو تباہ کرنا چاہتا ہے، تو وہ اس معاشرے کی خواتین کا کردار تباہ کرتا ہے۔

اس وقت دُنیا کی آبادی کا نصف سے زائد حصّہ خواتین پر مشتمل ہے۔ یوں کسی بھی معاشرے کو سنوارنے یا بگاڑنے میں عورت کا کردار بہت اہم ہے اور پھر معاشرے کی سب سے مضبوط اور بنیادی اِکائی خاندان میں بھی بنیادی اور کلیدی کردار عورت ہی کا ہے۔

اکثر خواتین ہی خاندان کے لیے فیصلے/ لائحۂ عمل اور طریقے متعیّن کررہی ہوتی ہیں۔ خالقِ کائنات نے اپنی ’’تخلیق کی صفت ‘‘کا کچھ حصّہ عورت کو ودیعت کیا۔ حالاں کہ یہ کام وہ مَرد کے سُپرد بھی کر سکتا تھا، لیکن اس کا ذمّے دار عورت کو بنانا، یعنی نسلِ انسانی کو چلانے کے لیے انسان کی پیدایش کا کام اس کو ودیعت کیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنی اس صفت میں شامل ہونے پر اس کو اتنے بڑے اعزاز سے نوازا کہ اس کے قدموں تلے جنّت رکھ دی۔ مَرد و عورت کی تخلیق کے بعد اولاد کی کفالت کی ذمّے داری مَرد، جب کہ تعلیم و تربیت کی ذمّے داری عورت کے سُپرد کی گئی۔

نسلوں کی صحیح خطوط پرتربیت اور تعمیرِکردار کے ذریعے معاشرے کو مفید شہری فراہم کرنا، اپنے گھر، خاندان کی حفاظت اور انہیں منظوم اور مربوط رکھنا ہی دراصل وہ اہم ترین ذِمّے داری ہے، جس پر کسی مُلک و ملّت کی ترقّی کا دار و مدار ہوتا ہے، مگر عصرِحاضر کے خاندانی نظام کا جائزہ لیا جائے، تو معاشرے میں خاندانوں کی ترجیحات ہی بدل گئی ہیں۔ مادّی ترقّی نے لوگوں کو آسایشیں تو فراہم کی ہیں، لیکن مفید خاندانی اقدار و روایات بالکل بدل چُکی ہیں۔

خاندانی نظام بکھر رہا ہے، جب کہ بچّوں کی تربیت کا یہ حال ہے کہ ان کا اپنے بیش تر ددھیالی اور ننھیالی رشتے داروں سے وہ تعلق ہی نہیں بن پاتا، جو ایک مضبوط خاندان کے لیے ضروری ہے۔ آج کل کے بچّے اپنے موبائل فون اور ٹیبلیٹ ہی کو اپنا رشتے دار سمجھتے ہیں۔ اُن کے پاس اپنے خاندان کے افراد کے لیے وقت ہی نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر وہ روزانہ نئے نئے دوست اور رشتے بناتے ہیں، مگر اپنے سگے رشتوں سے بالکل کٹے رہتے ہیں۔

آج ایک اہم مسئلہ خاندان کا ختم ہوتا تصوّر اور ماؤں کا بچّوں کی صحیح خطوط پر تربیت نہ کرنا بھی ہے۔ اور یہ نام نہاد آزادی مارچ یا آزادیٔ نسواں کے نام پر بھی عورتوں کے جن’’مسائل‘‘ کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، درحقیقت ان کی آڑ میں ہماری دینی و سماجی اقدار و روایات اور تہذیب و ثقافت کا جنازہ نکالا جارہا ہے۔

خواتین کے وقار کو نقصان پہنچانے کی ایک منظّم کوشش کی جارہی ہے۔ نظام میں دراڑیں ڈالی جارہی ہیں۔ مفید مشرقی اقدار و روایات پر مُضر مغربی ثقافت کی یلغار کی جارہی ہے، خواتین سے ہم دردی کی آڑ میں دینِ اسلام کی مفید تعلیمات، مشرقی خاندانی نظام ان کے نشانے پر ہیں۔ آج مسلم معاشرے میں اصلاحی عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ محض شاخیں کاٹنے سے کام نہیں چلے گا، مغرب کی اندھی تقلید، گم راہی کی جڑوں پر تیشہ چلانا وقت کا تقاضا ہے۔

عالمی یومِ خواتین کے موقعے پر ہمیں حصولِ حقوق کے ساتھ یہ بھی سوچنا چاہیے کہ کیا خواتین اپنی ذمّے داریاں احسن طریقے سے ادا کر رہی ہیں؟ کیا بچّوں کی تربیت مفید اسلامی تعلیمات کے مطابق ہورہی ہے؟ وہ جو اقبال نے فرمایا تھا ؎’’مکالماتِ فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن…اِسی کے شعلے سے ٹوٹاشرارِ افلاطوں‘‘، تو کیا آج مائیں اپنی بہترین تعلیم و تربیت سے محمّد بن قاسم، صلاح الدین ایّوبی جیسی شخصیات پیدا کر رہی ہیں، کیا آج ہمارا طرزِ بود و باش اسلامی اقدار و روایات کے مطابق ہے، کیا خواتین مغربی تہذیب سے متاثر و مرعوب ہوکر، اس کی اندھی تقلید کرکے گم راہی، تباہی کی سمت تو نہیں جا رہیں؟

وہ مغرب، جو اخلاقی لحاظ سے ابتری کی حالت کو پہنچ چُکا، جہاں اپنا خاندانی نظام تو یک سر بکھر چُکا، مگر انھیں اُمّتِ مسلّمہ میں پھر بھی سمٹا نظر آرہا ہے، تو وہ اس اُمّت سے بھی یہ نظام ختم کردینا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جب تک اُمّتِ مسلمہ میں ’’ماں‘‘ کا کردار موجود ہے، مجاہدین پیدا ہوتے رہیں گے، اسلام سربُلند رہے گا، لہٰذا اس ماں کے کردار ہی کو ختم کردو اور وہ اپنی اس کوشش میں کام یاب بھی ہورہے ہیں، مگر ماؤں کو احساس ہی نہیں۔

فرائض سے چشم پوشی اختیار کرکے محض حصولِ حقوق ہی پرسارا زور ہے۔ وہ دانستہ یا نادانستہ طور پر بچّوں کو مغربی ثقافت کا عادی بنا رہی ہیں۔ حالاں کہ مغربی تہذیب کی اصل حقیقت اور اندھی تقلید کے بارے میں اقبال نے بیسویں صدی ہی میں کہہ دیا تھا کہ؎’’نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک، تہذیبِ حاضر کی…یہ صنّاعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے‘‘۔

یاد رکھیے، گھر/خاندان معاشرے کی بنیادی اکائی ہے، جہاں اگلی نسلیں پروان چڑھتی، تربیت پاتی ہیں۔ اس ’’عالمی یومِ خواتین‘‘ کے موقعے پر خواتین کو یہ عہد کرنا چاہیے کہ وہ اپنے بچّوں کی تربیت اعلیٰ سماجی اور مذہبی اقدار و روایات کے مطابق کریں گی۔ نسلِ نو کو اُس مضر طرزِ معاشرت سے لازماً بچانا ہے کہ جس کی منزل زوال ہے۔ بقول اقبال؎’’جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا…اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد‘‘۔