قربانی تو دینا پڑتی ہے

March 02, 2021

پنشنروں سے پیچھا چھڑانے کیلئے آئی ایم ایف کے دیسی ماہرین نے جو تجاویز حکومت وقت کو دی ہیں، ان تجاویز سے میں آپ کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔ جب تک ہمیں کھلبلی لگی رہتی ہے تب تک ہم سنانے والے کی بات غور سے نہیں سنتے۔ وسوسوں میں گھرے ہوئے لوگ اپنے آپ سے سوال جواب کرتے رہتے ہیں، پوچھتے ہیں :اس لاوارث کو آئی ایم ایف اور حکومت وقت کے درمیان ہونے والے خفیہ معاہدوں کے بارے میں کیوں کر پتہ چلا ہے ؟ یہ شخص جاناپہچانا جھوٹا ہے۔ جھوٹ موٹ کے قصے کہانیاں سنانا اس کی عادت ہے، اس کی بات پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ جناب عالی بات بتانے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ آپکو وسوسوں سے مکتی دلوا دوں تاکہ آپ میری بات غور سے سن سکیں۔ ویسے بھی جو بات میں آپ کو سنانے جا رہا ہوں، وہ بات سب کی دلچسپی کی بات نہیں ہے۔ یہ بات بڈھوں سے جان چھڑانے والی آئی ایم ایف کی تجاویز کے بارے میں ہے۔ اگر آپ نوجوان ہیں، جوان ہیں اور فیملی میں بڈھوں کی روک ٹوک سے بیزار بیٹھے ہیں تو پھر آپ آئی ایم ایف کی تجاویز کا بغور مطالعہ کر سکتے ہیں۔ یہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں کہ میری بات سننے کے بعد آپ خود فیصلہ کریں کہ آپ نے جو بات سنی ہے وہ بات قابل یقین ہے، یا کہ نہیں ہے۔بڈھے پنشنروں سے جان چھڑانے کی آئی ایم ایف کی تجاویز کا اختصار یہ کچھ اس نوعیت کا ہے۔

ابتدائیہ :پاکستان قدرتی خزانوں سے مالا مال ملک ہے۔ پاکستان کے پاس سونے ،چاندی، قیمتی معدنیات کے علاوہ گیس اور تیل کے لامحدود ذخائر ہیں۔ زرعی پیداوار سے پاکستان دنیا کے غریب ممالک کا پیٹ بھر سکتا ہے۔آئی ایم ایف کو حیرت ہے کہ قدرتی وسائل سے اس قدر لدا پھندا ملک غریب کیوں ہے۔ مانا کہ پاکستان میں رشوت، اور ترقیاتی مد میں پڑے ہوئے اربوں کھربوں کے بجٹ میں لوٹ کھسوٹ کا بول بالا ہے۔ کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ کرپٹ سیاست دان اور بیورو کریسی کی کھلم کھلا لوٹ مار کے باوجود قدرتی وسائل سے حاصل ہونے والی دولت ختم نہیں ہوسکتی۔ بے انتہا دولت ہے پاکستان کے پاس۔ پھر پاکستان مفلس کیوں ہے ؟ آئی ایم ایف کے کھوجیوں نے دن رات کی تحقیق کے بعد پتہ چلا لیا ہے کہ پاکستان کی بے تحاشا دولت کہاں جاتی ہے ؟ پاکستان کی دولت بڈھے پنشنروں پر خرچ ہوتی ہے۔ عام طور پر ریٹائرمنٹ کے بعد پنشنر سات آٹھ برس زندہ رہتے ہیں اور اس کے بعد مر جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے کھوجیوں نے کھوج لگا لی ہے کہ پاکستانی پنشنروں کا جاپان کے بوڑھوں سے گٹھ جوڑ ہے۔ پاکستانی پنشنروں نے جاپان کے بوڑھوں سے ستر ،اسی ،نوے اور ایک سو سال زندہ رہنے کا گر سیکھ لیا ہے۔

پاکستانی پنشنروںنے زندہ رہنے کی سنچری بنانے کا ہنر ہتھیا لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں پنشنروں کی تعداد تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے ۔ آئی ایم ایف نے محسوس کیا ہے کہ حکومت وقت جب تک پنشنرز کی تعداد کم کرنے کیلئے موثر قدم نہیں اٹھائے گی تب تک پاکستان معاشی، اقتصادی اور مالی مسائل کی دلدل میں دھنستا جائے گا۔اقتصادی اور مالی طور پر پاکستان کو مستحکم کرنے کیلئے لازمی ہوچکا ہے کہ پنشنروں کی تعداد محدود کر دی جائے۔اس ضمن میں آئی ایم ایف نے تجاویز کا مسودہ حکومت وقت کے حوالے کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف نے حکومت وقت کو آگاہ کر دیا ہے کہ ان تجاویز پر عمل نہ کرنے سے آئی ایم ایف پاکستان کو ملنے والی مالی معاونت اور مالی امداد روک سکتا ہے۔ آئی ایم ایف کی تجاویز کا اختصار کچھ اس نوعیت کا ہے۔

نمبر1:پاکستانی اور جاپانی بوڑھوں کے درمیان ہر طرح کے روابط پر فوراً بندش ڈال دی جائے۔

نمبر2:بااثر پنشنر نزلہ زکام کا علاج کروانے کیلئے سرکاری اخراجات پر بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔ ان کو نزلہ زکام ٹھیک ہونے میں کم از کم چھ ماہ لگ جاتے ہیں۔ ان کے بیرون ملک قیام کے دوران رہن سہن سے لیکراسپتال کے اخراجات تک حکومت پاکستان برداشت کرتی ہے۔ آئی ایم ایف نے حکومت وقت کو متنبہ کر دیا ہے کہ اب پنشنر علاج کی غرض سے یورپ اور امریکہ نہیں جائیں گے۔ لہٰذا باثر اور بے اثر پنشنروں کے پاسپورٹ ضبط کر لئے جائیں۔

نمبر3:ریٹائرمنٹ کے پانچ برس بعد پنشنروں کا میڈیکل الائونس آدھا کر دیا جائے۔

نمبر4:ریٹائرمنٹ کے دس برس بعد اگر کوئی پنشنر چلتا پھرتا دکھائی دے تو پھر بغیر تاخیر کے اس کا میڈیکل الائونس مکمل طور پر بند کر دیا جائے، اور اس کی پنشن آدھی کر دی جائے۔

نمبر 5:ریٹائرمنٹ کے پندرہ برس بعد اگر کوئی پنشنر گھومتا پھرتا دکھائی دے تو فوراً اسکی باقی ماندہ آدھی پنشن بھی روک دی جائے۔

نمبر6:آئین اورپنشن قوانین میں ترمیم کی جائے ملازمت سے ریٹائر ہونے والے شخص کی پنشن کی زیادہ سے زیادہ مدت دس برس ہوگی۔ریٹائرمنٹ کے دس برس بعد اسے پنشن نہیں ملے گی ۔ملازمت سے ریٹائر ہونے والے شخص کا کنبہ یعنی فیملی اسکی ذات تک محدود ہو گی اسکے کنبہ میں بیوی، بچے اور بوڑھے ماں باپ شامل نہیں ہونگے۔ لہٰذا پنشنر کے وفات پا جانے کے بعد اس کی پنشن اس کی بیوی کے نام منتقل نہیں ہو گی۔

آئی ایم ایف کویقین ہے کہ ان تجاویز پر عمل کرنے سے پاکستان مالی مسائل کی دلدل سے نکل آئے گا۔ اس کے بعد پاکستان کو مالی معاونت اور امداد کیلئے عالمی اداروں کی طرف دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہو گی۔ دوستوں کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت محسوس نہیں ہو گی۔ڈرائیور بن کر ان کی گاڑی چلانے کی نوبت نہیں آئے گی۔