خان کیوں گھبرارہے ہیں؟

March 03, 2021

تاریخ میں پہلی بار یہ مشاہدہ کرنے کا موقع مل رہا ہے کہ سینیٹ انتخابات کے دوران اپوزیشن نہیں بلکہ حکومت گھبرارہی ہے اور سب سے زیادہ کھرب پتی حکومتی جماعت نے میدان میں اتارے ہیں لیکن شور بھی سب سے زیادہ مچارہی ہے ۔

تاریخ میں پہلی بار یہ بھی دیکھنے کو مل رہا ہے کہ سرکار کی طاقت، پولیس ، ادارے اور خفیہ ایجنسیاں جن کے کنٹرول میں ہیں، وہ لیڈر سینیٹ انتخابات کے حوالے سے پریشان ہیں۔ اسی طرح تاریخ میں پہلی بار یہ تماشا دیکھ رہے ہیں کہ ایک صدر سپریم کورٹ کو غیرآئینی ریفرنسز بھیج رہے ہیں اور عدالت کا قیمتی وقت ضائع ہونے کے بعد اسے واپس بھیج دیا جاتا ہے ۔

یہ بات بھی ہم نے تاریخ میں پہلی بار دیکھی کہ حکومتِ وقت نے پارلیمنٹ کا مینڈیٹ سپریم کورٹ کو دینے کی کوشش کی اور ایسے عالم میں کہ جب معاملہ سپریم کورٹ میں زیرسماعت تھا،اسی ایشو سے متعلق اسی صدر مملکت نے آرڈیننس جاری کردیا جس نے عدالت کو ریفرنس بھیجا تھا۔

عمران خان اور ان کے گوئبلز شور مچارہے ہیں کہ وہ سینیٹ انتخابات سے پیسے کا استعمال ختم کرنا چاہتے ہیں جبکہ اپوزیشن خریدوفروخت کو دوام دینا چاہتی ہے لیکن زمینی صورتِ حال کیا ہے؟آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔پنجاب کا معاملہ حل ہوگیا۔

بلوچستان میں سرے سے پیپلز پارٹی اور نون لیگ کا کوئی امیدوار نہیں جبکہ پیسہ اور ڈنڈا دونوں حکومتوں کے ساتھ ہے ۔سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے لیکن پی ٹی آئی کو وفاقی حکومت اور اس کے اداروں کا تعاون حاصل ہوگا۔ خیبر پختونخوا میں اپوزیشن جماعتوں نے جماعت اسلامی کو ساتھ ملا کر ایڈجسٹمنٹ کرلی ہے جبکہ قومی اسمبلی کی ووٹنگ کی حرکیات ہی الگ ہیں۔

خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی چار کھرب پتیوں کو میدان میں اتارچکی ہے جن میں سے تین ایک خاندان کے اور ایک ہی انڈسٹری سے وابستہ ہیں ۔ پیپلز پارٹی کے فرحت اللہ بابر امیدوار ہے ۔ اپوزیشن کے باقی سب امیدوار مڈل کلاس ہیں ۔ صرف نون لیگ کا ایک امیدوار یعنی عباس آفریدی کھرب پتی ہے۔

یہاں سے اب تک جو اطلاعات آرہی ہیں تو حکومتی اسکیموں اور دیگر مراعات کے علاوہ پی ٹی آئی کے امیدوارہی زیادہ آفرز دے رہے ہیں ۔ مرکز میں حفیظ شیخ خزانے پر بیٹھے ہیں اور ایم این ایز کے لئے بڑا لالچ ترقیاتی اسکیموں کا ہوتا ہے جو ان کے ہاتھ میں ہے ۔ وفاقی ادارے اور پولیس ان کے ساتھ ہے اور پیسے کی بات ہو توپیپلز پارٹی کے مقابلے میں حکومتی پارٹی زیادہ آفر دینے کی پوز یشن میں ہے ۔

سندھ میں صوبائی حکومت کا مرکزی حکومت سے اور وزیراعلیٰ کا گورنر سے اور زرداری صاحب کا پی ٹی آئی کے کھرب پتیوں سےمقابلہ ہوگا۔ وہاں اگر پیسےکی وجہ سے کسی پارٹی کو نقصان ہوسکتا ہے تو وہ ایم کیوایم ہے کیونکہ فیصل سبزواری وغیرہ ارب پتی نہیں بلکہ مڈل کلاس لوگ ہیں۔

سوال یہ ہے کہ جماعت اسلامی اور اے این پی کو کیوں یہ خوف نہیں کہ اس کے لوگ بک جائیں گے اور سب سے زیادہ پریشان ، عمران خان کیوں ہیں ؟ ظاہر ہے کہ صوبائی اور قومی اسمبلی کے ٹکٹ ایسے لوگوں کو دیے گئے ہیں کہ جو نظریاتی نہیں، اس لئے اب وہ گھبرائے ہوئے ہیں کہ یہ لوگ دوسری پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ نہ ڈال دیں ۔

گھبراہٹ کی دوسری وجہ یہ ہے کہ پیسے ، دولت اور اقربا پروری کی بنیاد پر سب سے زیادہ امیدوار تحریک انصاف نے کھڑے کئے ہیں اور جب ایم این ایز اور ایم پی ایز دیکھ رہے ہیں کہ ان کی قیادت نے میرٹ کی بجائے پیسے، دوستی یا پھر سفارش پر ٹکٹ دئیے ہیں تو وہ سوچ سکتے ہیں کہ اپنی قیادت کی پیروی کرتے ہوئے وہ کیوں نہ اپنے ووٹ کو کیش کرلیں؟پیپلز پارٹی نے جن لوگوں کو سینیٹ میں امیدوار بنایا ،ان پر پارٹی کے اندر سے کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ نون لیگ کے ٹکٹوں کے خلاف پارٹی کے اندر سے کوئی آواز نہیں آئی ۔ایم کیوایم نے بھی بھرپور میرٹ کا خیال رکھا ۔ جماعتِ اسلامی ، اے این پی ، بی این پی اور پختونخوا میپ کے ٹکٹ بھی میرٹ پر دیے گئے اور کسی پارٹی کے اندر سے کوئی اختلافی صدا بلند نہیں ہوئی لیکن تحریک انصاف کا طرز عمل اِن پارٹیوں کے بر عکس ہے۔

بلوچستان میں پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ، وزیراعظم کے معاون خصوصی اور صوبائی وزیر سردار یار محمد رند سے کوئی مشورہ نہیں کیا گیا۔ بلوچستان اسمبلی میں پی ٹی آئی کے سات ایم پی ایز ہیں لیکن پی ٹی آئی کا کوئی امیدوار نہیں اورتمام ارکان کو باپ پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ دینا ہوں گے جبکہ اس کے برعکس اے این پی کو چار ارکان کے عوض دو وزارتوں کے علاوہ ایک مشیر کا عہدہ بھی ملا ہےاور اب ایک سینیٹر بھی مل جائے گا۔ سندھ میں پہلے تنظیمیں میدان میں آئیں اور گواہی دی کہ جن لوگوں کو عمران خان نے ٹکٹ دئیے وہ کسی کے اے ٹی ایم ہیں اور اب پی ٹی آئی رہنما لیاقت جتوئی نے الزام لگایا کہ ابڑو صاحب کو کروڑوں کے عوض ٹکٹ دیا گیا۔

چنانچہ پی ٹی آئی کے ایم پی ایز وڈیوز ریکارڈ کرکے اعلان کررہے ہیں کہ وہ ان کھرب پتیوں کوووٹ نہیں دیں گے۔ پختونخوا کے کھرب پتیوں کو ٹکٹ دینے پر بھی پارٹی ایم پی ایز برہم ہیں۔ مرکز میں حفیظ شیخ جیسے چھتری برداروں، عبدالرزاق دائود جیسے سرمایہ داروں یا پھر زلفی بخاری جیسے ذاتی خدمتگاروں کو ان کا حاکم بنا دیا گیا ہے ۔ا یم این ایز میں سے چند پیارے وزیر بنادئے گئے ہیں لیکن باقی ایم این ایز کو اسمبلی میں بات کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی ۔ اب عمران خان کو ڈر ہے اور یہ ڈر بجا ہے کہ کہیں یہ لوگ اپنی بے توقیری کا بدلہ نہ لے لیں اور کہیں وہ بھی ووٹ ڈالتے وقت وہ کلیہ استعمال نہ کریں جو خود انہوں نے ٹکٹ دیتے وقت استعمال کیا ہے ۔ عمران خان نے آخری وقت میں سینیٹ کا ووٹ اوپن بیلٹ سے کرانے کے لئے جتن کرکے ان لوگوں کو اور بھی ناراض کردیا کیونکہ ان کوششوں کا مطلب اپنے اراکین پر عدم اعتماد تھا۔

ان میں جو عزت دار لوگ ہیں، وہ یہ سوچ رہے تھے کہ پیپلز پارٹی، نون لیگ اور دیگر پارٹیوں کی قیادت تو اپنےاراکینِ پارلیمنٹ پر اعتماد کررہی ہے لیکن اس کے بر عکس اپنی قیادت کو بکاؤ مال نظر آرہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دن رات دوسروں کو گھبرانا نہیں کی نصیحت کرنےو الے خان صاحب اب خود گھبرارہے ہیں۔