فخر امام ٹو یا کاکڑ فارمولہ 2؟

March 08, 2021

امریکی صدر فرینکلن ڈی روز ویلٹ نے کہا تھا، سیاست میں کچھ بھی حادثاتی طور پر نہیں ہوتا، اگر کوئی حادثہ ہو بھی تو آپ شرطیہ طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ جن کا خیال ہے کہ یوسف رضا گیلانی تو اپنی مدد آپ کے تحت عبدالحفیظ شیخ کو شکست دیکر کامیاب ہوگئے مگر عمران خان کو اعتماد کا ووٹ دلوانے میں اسٹیبشلمنٹ نے اہم کردار ادا کیا، انہیں سادگی کے اعلیٰ ترین ایوارڈ سے نوازنا چاہئے۔ ایک نہایت قابلِ احترام اور سینئر صحافی نے تو اپنے کالم میں اس کامیابی کو فخر امام ٹو قرار دے ڈالا۔ میری طالب علمانہ رائے کے مطابق یوسف رضا گیلانی کی جیت فخر امام ٹو تو ہرگز نہیں البتہ عمران خان کو مستقبل میں ’’کاکڑ فارمولا ٹو‘‘ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں تاریخی واقعات کا پس منظر اختصار سے بیان کردیا جائے۔ موجودہ حکومت میں وفاقی وزیر فوڈ سیکورٹی کا قلمدان سنبھالنے والے سید فخر امام نے ضیاالحق دور میں اسٹیبلشمنٹ کو مات دی اور قومی اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہو گئے۔ 1985ءکے عام انتخابات میں عابدہ حسین اور انکے شوہر سید فخر امام دونوں اپنے حلقوں سے قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے تھے۔ جنرل ضیاالحق خواجہ آصف کے والد خواجہ صفدر کو قومی اسمبلی کا اسپیکر نامزد کر چکے تھے مگر ایئر مارشل نور خان اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے والد ایئر کموڈور خاقان عباسی نے سیدہ عابدہ حسین کو اسپیکر کا الیکشن لڑنے کو کہا۔ خاتون ہونے کے ناتے چونکہ ان کی کامیابی کے امکانات کم تھے اور پھر بعض ارکانِ پارلیمنٹ کو تحفظات بھی تھے، اس لئے سید فخر امام کے کاغذات نامزدگی جمع کروا دیے گئے۔ ضیاالحق کی طرف سے بار بار پیغام دیا جاتا رہا کہ فخر امام اس مقابلے سے دستبردار ہو جائیں۔ آخری دن عابدہ حسین کے والدکرنل(ر) عابد کے دیرینہ دوست نواب زادہ عبدالغفور ہوتی ضیاالحق کا پیغام لے کر آئے مگر عابدہ حسین اور فخر امام نے پیچھے ہٹنے سے انکار کردیا۔ سید فخر امام ضیاالحق کے امیدوار کو 15ووٹوں سے شکست دے کر اسپیکر قومی اسمبلی منتخب ہو گئے تو سیدہ عابدہ حسین نے فوجی ڈکٹیٹر کا غصہ ٹھنڈا کرنے کیلئے بریگیڈیئر صدیق سالک کے ذریعے ملاقات کی درخواست کی۔ اگلے ہی روز ملاقات کا بندوبست ہوگیا مگرضیاالحق اس شکست کو نہ بھولے اور پھر فخر امام نے بطور اسپیکر اس بات کو بھولنے بھی نہ دیا۔ پہلے تو فخر امام نے رولنگ کے ذریعے مارشل لا کو غیرقانونی قرار دے ڈالا اور پھر وزیراعظم محمد خان جونیجو کی اہلیت پر سوالات اُٹھ گئے۔ انتخابات غیرجماعتی بنیادوں پر ہوئے تھے اور وہ امیدوار جو کسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہوں، الیکشن لڑنے کے اہل نہ تھے مگر بعد ازاں وزیراعظم متحدہ مسلم لیگ کے نام سے بنائی گئی کنگز پارٹی کے صدر بن گئے تو اسپیکر قومی اسمبلی فخر امام سے رولنگ مانگی گئی جو انہوں نے محفوظ کرلی۔ چنانچہ اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی اور حامد ناصر چٹھہ قومی اسمبلی کے نئے اسپیکر بن گئے مگریہ تحریک کیسے منظور کروائی گئی؟ یہ کہانی سیدہ عابدہ حسین نے اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب ’’Power Failure‘‘میں بیان کی ہے۔ عابدہ حسین لکھتی ہیں، میں نے شیخو پورہ سے ایم این اے ملک سرفراز سے بات کی تو اس نے کہا مجھے صاف گوئی سے کام لینا چاہئے۔ جنرل ضیاالحق آج صبح چیمبر میں تشریف لائے اور ایم این ایز ہاسٹل سے کم ازکم پچاس ارکانِ پارلیمنٹ کو ملاقات کیلئے بلایا۔ ہم میں سے ہر ایک سے الگ الگ ملاقات کے دوران جنرل ضیاالحق نے ایک ہی بات کی کہ اگر تم نے اسپیکر کو ووٹ دے کر اسے بچانے کی کوشش کی اور وہ دوبارہ منتخب ہوگیا تو میں اسمبلی تحلیل کردونگا۔ بعد میں مشاورت کے بعد ہم نے اسپیکر کے بجائے اسمبلی کو بچانے کا فیصلہ کیا۔دوسرا واقعہ نوازشریف کے پہلے دورِ حکومت سے متعلق ہے۔ صدر غلام اسحاق خان نے ڈکٹیشن نہ لینے والی تقریر کی پاداش میں 18اپریل 1993کو قومی اسمبلی تحلیل کردی اور وزیراعظم نوازشریف کو گھر بھیج دیا۔ نوازشریف نے صدارتی حکم نامے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو 26مئی 1993کو ایک تاریخی عدالتی فیصلے کے ذریعے نوازشریف کی حکومت بحال کردی گئی۔ اگلے روز یعنی 27مئی 1993کو وزیراعظم نوازشریف نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیا توانہیں 200ارکان پر مشتمل ایوان میں سے 123ارکان نے اعتماد کا ووٹ دیا۔ انہیں عددی برتری، اخلاقی، قانونی، آئینی اور عدالتی جواز میسر تھا مگر زمینی حقائق کچھ اور کہہ رہے تھے۔ پنجاب میں ان کے بااعتماد وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں کی چھٹی ہو چکی تھی۔ ان کے تعینات کردہ گورنر پنجاب میاں اظہر کو فارغ کرکے موجودہ رکنِ قومی اسمبلی چوہدری فرخ الطاف کے والد یعنی وفاقی وزیر فواد چوہدری کے چچا چوہدری الطاف حسین کو گورنر پنجاب تعینات کیا جا چکا تھا۔ نواز شریف نے آرٹیکل 234Aنافذ کرکے پنجاب کا انتظام سنبھالنے کی کوشش کی مگر ہوائوں کا رُخ بدل چکا تھا۔ اُدھر اپوزیشن لیڈر بینظیر بھٹو لانگ مارچ کا اعلان کر چکی تھیں۔ کور کمانڈر کانفرنس میں پانچ گھنٹے حالات کا جائزہ لینے کے بعد یہ تجویز پیش کی گئی کہ صدر اور وزیراعظم دونوں رخصت ہو جائیں اور نئے انتخابات کروائے جائیں۔ یہ تجویز کاکڑ فارمولے کے نام سے مشہور ہوئی اور آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ نے خود بینظیر بھٹو کو ٹیلیفون کرکے لانگ مارچ ملتوی کرنے کو کہا۔

یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کو ’’فخر امام ٹو‘‘ اسلئے نہیں کہا جا سکتا کہ اسٹیبلشمنٹ نے سہولت کار کا کردار ادا نہیں کیا تو ان کی جیت کی راہ میں روڑے بھی نہیں اٹکائے۔ البتہ ’’کاکڑ فارمولا ٹو‘‘ کے امکانات موجود ہیں۔ تختِ لاہور چھیننے کا منصوبہ بن چکا ہے، چیئرمین سینیٹ کا انتخاب بھی بڑے چیلنج کی صورت میں سامنے ہے۔ پی ڈی ایم اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کے فیصلے پر قائم ہے۔ پنجاب چھن جانے کے بعد وفاق میں قدم جمائے رکھنا مزید دشوار ہو جائے گا۔ سیاسی عدم استحکام کو ختم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ قومی اسمبلی تحلیل کرکے دوبارہ عوام سے رجوع کرنے اور نیا مینڈیٹ لینے کی تجویز پر عمل کیا جائے۔