لائن آف کنٹرول پر سیز فائر، اُمید کی نئی کرن

March 14, 2021

گزشتہ دنوں پاکستان اور بھارت کے مابین لائن آف کنٹرول پر سیز فائر، یعنی جنگ بندی کا ایک اور معاہدہ ہوا۔فروری کے آخری جمعے کو جاری ہونے والی مشترکہ پریس ریلیز الفاظ کی تعداد کے لحاظ سے تو چھوٹی سی تھی، لیکن اس نے برّصغیر ہی نہیں،خطّے کے ممالک، امریکا اور اقوامِ متحدہ تک کو اپنی جانب متوجّہ کیا اور اُنھوں نے اپنے ردّ ِعمل میں اِس معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے’’ ایک خوش گوار پیش رفت‘‘ قرار دیا۔ سیز فائر معاہدے کی اس پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ جنوبی ایشیا کے دونوں پڑوسی ممالک کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کی ملاقات ہوئی، جس میں کنٹرول لائن اور دیگر سیکٹرز کی موجودہ صُورتِ حال کا جائزہ لیا گیا۔

باہمی بات چیت میں طے پایا کہ دونوں ممالک کے درمیان رابطے کے لیے ہاٹ لائن میکنزم قائم کیا جائے گا۔معاہدے میں یہ بھی طے ہوا کہ سیز فائر پر 25 فروری کی رات سے عمل کیا جائے گا، لیکن اِس بیان کے جو الفاظ سب سے زیادہ توجّہ کا مرکز بنے، وہ بات چیت کے’’ دوستانہ اور خوش گوار ماحول‘‘ میں ہونے سے متعلق تھے۔پاک، بھارت سرحد اور کنٹرول لائن پر گزشتہ سالوں میں جس قسم کا تنائو رہا اور جس تسلسل سے خون ریز واقعات ہوتے چلے آئے ہیں، اُن کے پس منظر میں’’ خوش گوار ماحول میں بات چیت‘‘ یقیناً دونوں ممالک کے عوام کے لیے کسی حیرت انگیز اور کسی خوش خبری سے کم نہیں۔ خاص طور پر اُن لوگوں کے لیے یہ معاہدہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے، جو کنٹرول لائن سے متصل علاقوں میں رہتے ہیں اور کسی نہ کسی سانحے کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔سیاسی تناظر میں دیکھا جائے، تو سیز فائر معاہدے کو بیش تر ماہرین نے مثبت اور آنے والے دنوں میں بہتری کی علامت کے طور پر لیا ہے۔تاہم، یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا واقعی اِس معاہدے سے 70 سال پرانی دشمنی میں کمی آئے گی؟

لائن آف کنٹرول دونوں ممالک کے درمیان کشمیر کی سرحد ہے ، جو پہلے ’ ’سیز فائر لائن‘‘ کہلاتی تھی۔ 3 جولائی 1972 ء کے شملہ معاہدے کے بعد اسے’’ لائن آف کنٹرول‘‘ کا نام دیا گیا۔شملہ معاہدے پر اُس وقت کے پاکستانی وزیرِ اعظم، ذوالفقار علی بھٹّو اور بھارت کی وزیرِ اعظم، اندارا گاندھی نے دست خط کیے تھے۔یہ معاہدہ 1971 ء کی پاک، بھارت جنگ کے پس منظر میں طے پایا تھا۔

لائن آف کنٹرول تقریباً740 کلو میٹر پر پھیلی ہوئی ہے۔یہ کنٹرول لائن زیادہ تر’’ ہاٹ‘‘ ہی رہتی ہے کہ فائرنگ اور گولہ باری کے واقعات عام ہیں، جن میں بے قصور شہری بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، جب کہ کئی بار تو ان واقعات کے سبب دونوں ممالک میں تعلقات انتہائی کشیدہ بھی ہوجاتے ہیں۔پاکستان تقریباً ہر ہفتہ، پندرہ دن بعد بھارتی سفیر کو طلب کرکے شہری آبادیوں پر بلاوجہ فائرنگ اور گولہ باری پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتا رہتا ہے۔

پلواما اور بالاکوٹ واقعات بھی اسی کشیدگی کا نتیجہ تھے، جب کہ ان حالات میں بھارتی میڈیا ہمیشہ جلتی پر تیل کا کام کرتا ہے۔ اگر دیکھا جائے، تو لائن آف کنٹرول کو پُرسکون رکھنے کے لیے یہ کوئی پہلا معاہدہ نہیں۔اِس سے قبل 2003 ء میں بھی ایک ایسا ہی معاہدہ ہوا تھا، پھر2017 ء میں معاہدہ ہوا، لیکن کچھ ہی عرصے بعد سیز فائر کی خلاف ورزیاں ہونے لگیں۔ دونوں مُلک ایک دوسرے پر معاہدے کی خلاف ورزی کے الزامات لگاتے رہے، جس سے ماحول میں کشیدگی اور تناؤ برقرار رہا۔ حالیہ سیز فائر معاہدے کا دنیا بھر میں اِس لیے خیر مقدم کیا گیا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان فوجی تنائو بعض اوقات بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

کئی مرتبہ یہ خطرہ بھی پیدا ہوجاتا کہ کہیں دونوں میں سے کوئی مُلک باقاعدہ جنگ ہی شروع نہ کردے، جیسا کہ بھارت نے بالاکوٹ میں فضائی کارروائی کی صُورت کیا، جس کے جواب میں پاکستان کو بھی کارروائی کرنی پڑی اور اس کے ایک لڑاکا طیّارے کو مار گرایا۔ اُس وقت تو پاکستان کی تحمّل کی پالیسی کے سبب معاملہ ٹل گیا، لیکن اس کے باوجود سرحدوں پر کشیدگی میں کوئی خاص کمی نہیں آئی۔ سیز فائر کی خلاف ورزیاں حسبِ سابق معمول رہیں اور بے گناہ شہری ہلاک ہوتے رہے۔بھارت بار بار سرحد پار آپریشن کا ذکر کرتا ہے، جب کہ پاکستان ہمیشہ سے خبردار کرتا چلا آرہا ہے کہ بھارت کو اِس طرح کی کسی بھی جارحیت کے سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے۔

حالیہ سیز فائر معاہدے اور ڈی جی آپریشنز کی خوش گوار ماحول میں بات چیت اِس لیے بھی خوش آیند ہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے آئین کی شق 370 اور پھر جمّوں وکشمیر کو تین صوبوں میں تقسیم کرنے کی غیر قانونی حرکت سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا۔عوامی احتجاج روکنے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈائون کیا گیا اور ظلم و تشدّد کی وہ بدترین مثالیں قائم کی گئیں، جن کی دنیا بھر نے مذمّت کی۔ کشمیر سال بھر بند رہا اور چپّے چپّے پر بھارتی سیکیوریٹی اہل کار تعیّنات رہے، اب لاک ڈاؤن میں کچھ نرمی تو کی گئی ہے، مگر بھارتی فوج کی جانب سے ظلم وستم کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔

بھارت کی یہ کارروائیاں اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے سراسر منافی ہیں، جن میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ کشمیر کا فیصلہ اُس کے عوام کی رائے ہی سے کیا جائے گا۔ کورونا وبا نے جس طرح دنیا کو متاثر کیا اور اس کے سبب معیشتیں بُری طرح دبائو میں آئیں، عوام کو شدید ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، شاید اسی نے دونوں ممالک کی قیادت کو کنٹرول لائن اور سرحد پر کشیدگی میں کمی کے لیے اقدامات پر مجبور کیا ہے۔اسی لیے معاہدے سے متعلق جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ’’ سرحدوں پر باہمی سودمند اور پائیدار امن کے قیام کے لیے دونوں ڈی جی ایم اوز نے اس بات پر رضامندی ظاہر کی کہ ایک دوسرے کے کور ایشوز اور تحفّظات پر بات کی جائے، جن سے امن کو خطرہ ہو یا جو تشدّد کا باعث بنیں۔

طرفین نے لائن آف کنٹرول پر 25 فروری کی آدھی رات سے سیز فائر کے تمام معاہدوں پر سختی سے عمل کرنے کا فیصلہ کیا۔‘‘ امریکا نے اس پر اپنا ردّعمل دیتے ہوئے کہا کہ معاہدہ اچھی پیش رفت ہے۔اقوامِ متحدہ نے بھی اس کا خیر مقدم کیا کہ یہ دونوں ممالک کے درمیان امن کے سلسلے کی ابتدا ہوسکتا ہے۔ امریکا کے ایک سابق صدر، بل کلنٹن نے کہا تھا کہ’’ لائن آف کنٹرول دنیا کی سب سے خطرناک جگہوں میں شمار ہوتی ہے۔‘‘ظاہر ہے، وہ دونوں ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کے پس منظر میں یہ بات کہہ رہے تھے۔پاکستان اور بھارت ایک ہی مالک، یعنی برطانیہ سے آزاد ہوئے۔ آزادی کا دن بھی تقریباً بارہ گھنٹے کے فرق سے تھا، لیکن اُس دن سے لے کر آج تک شاید ہی ان دونوں ممالک کے عوام نے باہمی تعلقات کے حوالے سے کبھی سُکھ کا سانس لیا ہو یا امن کے دن دیکھے ہوں۔دونوں کے درمیان کشمیر کے تنازعے پر چار جنگیں اور لاتعداد جھڑپیں ہوچُکی ہیں۔

ہر وقت جنگ، جھڑپ اور کشیدگی کے سبب تلخیاں بڑھتی ہیں اور دونوں ممالک کے تعلقات مزید ابتری کی طرف چلے جاتے ہیں۔حالاں کہ دونوں طرف کے سیاسی رہنما، حکم ران، اہلِ دانش اور عام آدمی اس بات کا رونا روتے ہیں کہ 75 سال کی اس دشمنی نے دونوں ممالک کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔معاشی اور سماجی ترقّی، جو اِن پڑوسی ممالک کے عوام کا حق تھی، نہ ہوسکی۔ غربت، جہالت اور افلاس نے اس خطّے میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔دونوں ممالک کو اسلحے اور افواج پر جتنا خرچ کرنا پڑتا ہے، اگر وہ رقم عام آدمی کی بہتری کے لیے خرچ ہوتی، تو ماہرین کو یقین ہے کہ یہ خطّہ دنیا کے ترقّی یافتہ خطّوں میں سے ایک ہوتا۔بھارت نے صرف مقبوضہ کشمیر میں عوام کی آواز دبانے کے لیے سات لاکھ سے زاید فوجی اہل کار تعیّنات کر رکھے ہیں۔

ماضی میں بھی معاہدوں اور دوسرے طریقوں سے امن کی کوششیں ہوتی رہیں۔جامع مذاکرات سے لے کر بیک ٹریک ڈپلومیسی تک، سب ہی طریقے آزمائے گئے۔سربراہی ملاقاتیں ہوئیں، جن میں مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی گئی اور دنیا نے بھی کئی معاملات میں دونوں ممالک کے درمیان ثالث کا کردار ادا کیا، لیکن ان ساری کوششوں کا انجام کبھی بھی عوام کے لیے امن کی صُورت سامنے نہیں آیا۔اگر ہم اپنے پڑوس میں دیکھیں، تو پاکستان اور بھارت دونوں کو یقیناً سبق سیکھنے کی بہت سے چیزیں ملیں گی۔سب سے بڑی مثال تو ہمارے سب سے قریبی دوست چین کی ہے۔پاکستان اور بھارت کی پانچویں نسل مُلک کی قیادت کر رہی ہے، جب کہ چین کی بھی پانچویں نسل کو اقتدار منتقل ہوچُکا ہے۔

چین کے مختلف ممالک کے ساتھ بہت سے تنازعات ہیں، جو جنوب مشرقی ایشیا سے جنوبی ایشیا تک پھیلے ہوئے ہیں، یہاں تک کہ اس میں ہمالیہ کی وہ سرحد بھی شامل ہے، جو لائن آف کنٹرول کا بھی حصّہ ہے۔چین اور بھارت کی 1962 ء کی جنگ اور اب تک جاری رہنے والی جھڑپیں کوئی ڈھکی چُھپی بات نہیں۔دونوں ممالک ہمالائی سرحد کو’’ لائن آف ایکچول کنٹرول‘‘ کہتے ہیں۔پھر چین کا برطانیہ کے ساتھ ہانگ کانگ کا تنازع، جاپان کے ساتھ پیسیفک اور ماضی کی تلخیاں، اسی خطّے میں جزائر کی ملکیت کے معاملات، تائیوان ایشو پر امریکا سے مقابلہ، لیکن ان سب کے باوجود چین نے ایک حقیقت پر مبنی پالیسی اپنائی۔اُس کے حکم رانوں اور اہلِ دانش وسیاست نے اپنے مُلک کی معاشی ترقّی کو ہر پالیسی پر فوقیت دی، وگرنہ اُن کے لیے ایسے خوف ناک مسائل کھڑے ہوسکتے تھے، جو 144 کروڑ لوگوں کو کبھی بھی ترقّی کے میدان میں آگے نہ بڑھنے دیتے۔

اُنہوں نے دشمنیوں اور تنازعات پر ملکی تعمیر و ترقّی کو ترجیح دی۔ دوسرے الفاظ میں چین کی پانچ نسلوں کی قیادتیں ایک تسلسل کے ساتھ اس فیصلے پر کاربند رہیں کہ عوام کی زندگیوں کو بہتر بنانا ہی اُن کی ریاست کا اولین مقصد ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے اُنہوں نے چالیس برس سَر جُھکا کر صرف کام، کام اور کام کیا۔امن ہر حال میں مقدّم رکھا۔اس پالیسی کے دو نتائج برآمد ہوئے، ایک تو یہ کہ چین ایک عظیم مملکت بن گیا اور دوسری طرف، عوام بھی ایک بڑی طاقت کے طور پر اُبھرے۔جو کل تک اُسے حقارت سے دیکھتے تھے، آج اُس سے دوستی پر فخر محسوس کرتے ہیں۔چالیس کروڑ سے زیادہ لوگوں کو غربت کی لکیر سے نکال کر خوش حال بنانا کسی کارنامے سے کم نہیں۔چین کو اب دنیا کے تیار مال کی فیکٹری اور’’ ترقّی کا انجن‘‘ کہا جاتا ہے۔اس کی ترقّی کو تمام مالیاتی ادارے، عالمی گروتھ ریٹ کا بیرومیٹر قرار دیتے ہیں۔

اگر بھارت کو دشمن مان کر نظر انداز بھی کردیا جائے، تو کیا اپنے اس قریبی دوست کی یہ کام یابی ہمیں کوئی سبق نہیں دیتی؟ جب کہ چین بار بار یہ کہتا رہا ہے کہ’’ جنوبی ایشیا کے یہ دونوں ممالک صبر و تحمّل سے کام لیتے ہوئے بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کریں۔‘‘ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم نے چین کی دوستی سے کیا سیکھا؟جہاں تک امداد لینے اور سی پیک جیسے منصوبوں میں کام یاب شراکت ہے، وہ تو سب پر عیاں ہے، لیکن کیا ہم بھی اس پوزیشن میں آئے کہ دوسرے ممالک کی مدد کر سکیں؟ ہماری کم زور معیشت کے کیا تقاضے ہیں؟ ہمیں اسی پر فوکس کرنا ہوگا۔دشمنیاں پالنے کی بجائے عوام کے حالات میں بہتری لانا اور مُلک کو ترقّی کی راہ پر ڈالنا اولین ترجیح ہوگی، تب ہی دنیا میں نام کما سکیں گے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ برّصغیر میں امن کا فقدان دنیا کو سرمایہ کاری سے روکتا ہے۔

بڑے منصوبے، جن کی بین الاقوامی اہمیت ہو، یہاں مشکل ہی سے شروع کیے جاسکتے ہیں، کیوں کہ جن ممالک میں ہر وقت جنگ کا دھڑکا لگا ہوا ہو، وہاں کون سرمایہ کاری کرنا پسند کرے گا؟ جذباتی باتیں اپنی جگہ، لیکن عوامی حالات معاشی اشاروں ہی کے تابع ہوتے ہیں۔اسی لیے جب لائن آف کنٹرول پر سیز فائر جیسے معاہدے ہوتے ہیں، تو عوام کے دِلوں میں بہت سی امیدیں جاگ جاتی ہیں۔بلاشبہ، دونوں ممالک کی اپنی اپنی شکایات ہیں اور ان دونوں کے لیے اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنا بھی آسان نہیں۔خاص طور پر کشمیر کا مسئلہ بہت ہی گنجلک ہوچُکا ہے۔

نریندر مودی کی حکومت نے جس طرح گزشتہ دو سال میں مقبوضہ کشمیر میں جبر کے اقدامات کیے، اس سے امن کی امیدیں دَم توڑنے لگی ہیں۔یہ سوال بھی سامنے آنے لگا کہ کیا بھارت، مسئلۂ کشمیر کا کوئی یک طرفہ حل مسلّط کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟ اگر ایسا ہے، تو کیا کشمیریوں، پاکستان، اقوامِ متحدہ اور باقی دنیا کو بھارتی اقدام قبول ہوگا۔پھر یہ بھی کہ کیا اس قسم کا یک طرفہ حل دیرپا بھی ثابت ہوسکتا ہے؟ہر صاحبِ عقل جانتا ہے کہ اس طرح معاملات حل نہیں ہوتے، جیسے بھارت کرنا چاہتا ہے یا کر رہا ہے۔بہتر یہی ہوگا کہ سیز فائر معاہدے کو ایک اچھی مثال بنا کر آگے بڑھا جائے اور کوشش کی جائے کہ اسے فوجی معاملات سے سیاسی معاملات تک لے جایا جائے۔