میرا تیرا ختم کرنا ہوگا

March 12, 2021

کہا تو یہی جاتا ہے کہ قوموں کی عزت مائوں ،بہنوں اور بیٹیوں سے ہے ،مگر افسوس در افسوس یہ جملہ صرف کہنے کی حدتک ہی ہے ۔اگر حقیقت میں یہ قوموں کی عزت ہیں تو کون ان کی عزتوں کو پامال کرتا ہے؟ کون ان کو زندہ در گور کرتا ہے ؟ کون ان کو’’ غیرت‘‘ کےنام پر قتل کرتا ہے ؟ کون ان سے جینے کاحق چھین لیتا ہے ؟نہ جانے کیوں دنیا بھر میں عورتوں کے حقوق سلب کرلیے گئے ہیں ۔جب کہ جدیددور میں عورت ہر شعبے میں باعزت طر یقے سے اپنی صلاحیتوں کے جو ہر دکھا کر اپنے خاندان کے ساتھ ساتھ ملک کا نام بھی روشن کررہی ہے۔

گزشتہ سال کورونا وائرس سے لوگوں کو محفوظ رکھنے کے لیے متعدد خواتین نے فرنٹ لائن ورکرز کے طور پر بہادری کے ساتھ اپنا بھر پور کردار ادا کیا ۔علاوہ ازیں مختلف ممالک میں سیاسی عہدو ں پر فائز خواتین نے اس عالمی وبا سے اپنے ملک کو محفوظ رکھنےمیں اہم کردار ادا کیا ۔جن میں نیوزی لینڈ کی جیسنڈا آرڈن ،جرمنی کی اینجلا مرکل،آئس لینڈ کی کیترین شامل ہیں ۔

لیکن اس کے باوجود آج بھی دیہی علاقوں میں خواتین ظلم و تشدد کی چکی میں پس رہی ہیں ،وہ آج بھی اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں اوروہ آج بھی اپنے حق کے لیے آواز بلند نہیں کرسکتیں ۔نہ اپنی مرضی سے تعلیم حاصل کرسکتی ہیں۔اور نہ اپنی رائے کا اظہار کرسکتی ہیں ۔آخر ایسا کیوں ہے ؟یہ سب کچھ اور خواتین کے دیگر مسائل کے حوالے سے ہم نے گفتگو کی ہے ، طاہرہ عبداللہ سے ۔یہ گزشتہ 42 سال سے خواتین تحریکوں کے ساتھ رضاکارانہ کام کررہی ہیں ۔آئیے آپ بھی ہمارے ساتھ اس گفتگو میں شامل ہو جائیں ۔

……٭٭……٭٭……٭٭……

س:کچھ اپنے بارے میں بتائیں ؟

ج:میں اقتصادی ترقی کے شعبے میں بہ حیثیت کارکن کام کرتی ہوں ۔اس کے ساتھ انسانی حقوق کی کارکن بھی ہوں ،تاہم کسی ادارے کے ساتھ منسلک نہیں ہوں ۔البتہ خواتین کے حقوق کے لیے پاکستان میں ہونے والی مختلف تحریکوں کے ساتھ رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات انجام دیتی ہوں۔

س:آپ کےخیال میں اس وقت خواتین کے اہم مسائل کون سے ہیں اور کس مسئلے کے حل کو اوّلیت دینی چاہیے ؟

ج:اس وقت پوری دنیا میں خواتین کے کثیرالجہتی مسائل ہیں جن پر ہمیں توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے ۔یہ مسائل صرف بچیوں یا خواتین کے ہی نہیں ہے بلکہ ٹرانس جینڈر اور مردوں کے بھی بہت مسائل شامل ہیں جن کو ہمیں زیر غور لانا چاہیے ۔خواتین اس معاشرے کا اہم حصہ ہیں اور ہمارے ملک کی آبادی کا 48.8فی صد حصہ خواتین اور بچیوں پر مشتمل ہے ۔ہمیں اس بات کو وسیع تر تناظر میں دیکھنا ہوگا کہ خواتین کے اہم مسائل کیا ہیں میں سمجھتی ہوں ۔اس وقت تمام مسائل میں جو مسئلہ اولیت کا حامل ہے وہ ہے ’’غربت ‘‘ ۔ شایدبعض لوگوں کو میری اس بات پر حیرانی ہوگی کہ، کیا غربت سب سے اہم مسئلہ ہے۔

میری نظر میں غربت تمام مسائل کی جڑ ہے ۔اس بات سے انکار نہیں کہ معاشرے میں خواتین اور بچیوں پر بدترین تشدد کیا جا تا ہے، جس میں وقت کے ساتھ مسلسل اضافہ ہورہا ہے ،جس کی اہم وجہ پدر شاہی نظام ہے لیکن اگر دیگر مسائل کی بات کی جائے تو ان کی وجہ غربت ہی ہے ۔ میں یہ بھی سمجھتی ہوں کہ اقتصادیات کو اگر وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو پدر شاہی نظام بھی اقتصادیات پرکھڑا ہے اوراب تک بہت مضبوطی سے کھڑا ہے ۔ بہرحال یہ حقیقت ہے کہ غربت کی وجہ سے بے شمار مسائل جنم لیتے ہیں ۔مثال کے طور پر صحت ،تعلیم اورغذائیت کا فقدان جو خواتین دیہی علاقوں میں کھیتی باڑی یا دیگر کام کرتی ہیں ان کو معاوضہ نہیں ملتا۔

یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ۔یہاں میں ایک بات ضرور کہنا چاہوں گی کہ حکومت کی جانب سے غریب عورتوں کو ماہانہ چند ہزار روپےدے کر کوئی خیر کاکام نہیں ہورہا ہے ،نہ ہی اس طرح ان کے مسائل کم ہوتے ہیں۔ میں ان سرکاری پروگرامز کی بات کررہی ہو ں جن کوعر صہ دراز سےمختلف حکومتوں ، سیاسی جماعتوں اور ایڈمنسٹریشن نے جاری رکھا ہوا ہے ۔میں یہاں پر ایک مثال دینا چاہوں گی کہ جب کوئی چوٹ لگتی ہے تو اس پر ہم بینڈایڈ لگا دیتے ہیں لیکن جب کینسر یا کوئی اور بڑی بیماری ہوتی ہے تو بینڈایڈسے کام نہیں چلتا بلکہ سرجری کی ضرورت پڑتی ہے ۔بالکل اسی طر ح ہمارے ملک میں غربت کاحال ہے،یہ اتنی زیادہ ہے کہ اس پر قابو پانا اتنا آسان نہیں ہے ۔اس کی شرح تقریباً67 فی صد ہے۔

اگر حکومت یہ کہتی ہے کہ غربت کی شرح 20 فی صد ہے تو یہ غلط بتاتی ہے ۔میں کسی سیاسی جماعت کی بات نہیں کررہی بلکہ ریاست کی بات کررہی ہوں ۔ اوریہ آج کی بات نہیں بلکہ گزشتہ کئی سالوں سے ہم سے غربت کی شرح پرجھوٹ بولا جارہا ہے ۔ دیہی علاقوں میں خواتین ،مردوں ، بچوں اور بچیوں کے جو مسائل ہیں ہمیں ان کا علم ہی نہیں ہے ۔وہ کس قدر مسائل کا سامنا کررہے ہیں ،ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے ۔ شہری اور دیہی علاقوں میں کہنے کو تو دس ،بیس کلو میٹر کا فاصلہ ہے لیکن ذہنی طور پر تو ایک ہزار کلو میٹر سے بھی زیادہ ہے ۔اسی لیےشہروں میں بیٹھ کر ہمیں وہاں کے مسائل کا احساس تک نہیں ہوتا ۔

مثلاً صحت نہیں ہے ،تعلیم نہیں ہے ،ذرائع آمدورفت نہیں ہے ،روزگار نہیں ہے اور اگر روزگار ہے بھی تو اس کا معاوضہ نہیں ملتا ۔ دیہی علاقوں میں موجود سہولیات کی فہرست بنائیں تو وہ بہت مختصر ہوگی ،کیوںکہ وہاں بنیادی سہولیات تک صحیح طر ح سے میسر نہیں ہیں ۔ اور ان تمام مسائل کو حل کرنا کسی فرد کی نہیں بلکہ ریاست کی ذمہ داری ہے ۔یہ ہمارے آئین میں موجود ہے کہ عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنا ریاست کا فر ض ہے ۔تو پھر کیوں نہیں دئیے جاتے ؟

س:سماجی واقتصادی طور سے خواتین کی راہ میں حائل تعصبات اور مشکلات کا خاتمہ کس طر ح ممکن ہے ؟اگر ہے تو کیسے؟

ج:سماجی طور پر ہم آج تک10 ہزار سال پرانی مہرگڑھ کی تہذیب وتمدن پر بہت فخر کرتے ہیں اور کرنا بھی چاہیے ۔ہم جنوبی ایشیا کے اس خطے میں رہتے ہیں جہاں کی قدیم تہذیب و تمدن ،ہمارے رسم ورواج و اقدار بہت اچھے ہوا کرتے تھے ،مگر بد قسمتی سے پچھلے کئی سالوں میں معاشرہ بہت برائی اور تنزّلی کی طرف چلا گیا ہے ۔جن میں پدر شاہی نظام ،جاگیردارانہ نظام اور قبائلی سوچ،فکر اور رویے ہیں ۔کسی قبائل کا فرد ہونا یارکن ہونا کوئی بری بات نہیں ہے ۔

لیکن قبیلوں کی سوچ بہت محدود دائرے میں رہتی ہے ۔یعنی کہ وہ صرف اپنے بارے میں ،اپنے گروہ کے بار ے میں اور اپنے قبیلے کے بارے میں ہی سوچتے ہیں ۔ان کی سوچ بس یہیں تک محدود رہتی ہے ،اس سے آگے وہ کچھ نہیں سوچتے۔ یعنی ان کی دنیا قبیلے کے دائرے کے گرد ہی ختم ہوجاتی۔سوچ چاہے پدر شاہی ہو، جاگیردارانہ یا قبائلی ہو وہ سامنے والے کو نیچا دکھانے کے لیے ہی ہوتی ہے ۔ پدر شاہی نظام میں عورتوں کو قطعاً اہمیت نہیں دی جاتی۔ اس مسئلےکا حل یا خاتمہ میر ی نظر میں صرف ایک طر یقے سے کیا جاسکتا ہے ،وہ یہ اس وقت جو اقتدار میں ہیں،جاگیردار، یا قبائل میں ہیں۔وہ توجہ دیں، تعلیم پر ۔ تعلیم کا معیار بہتر بنایا جائے۔

تعلیم کے ساتھ تکثیریت ،تنو ع ،برابری اور عدل وانصاف کا درس بھی دیا جائے ۔اس کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کے ساتھ باہمی احترام کارشتہ قائم کیا جائے ۔ جب تک ہم یہ تمام چیزیں اپنے تعلیمی نصاب میں اور تدریسی کتب میں شامل نہیں کریں گے ،اُس وقت تک تعلیم صحیح نہیں ملے گی۔ پاکستانی خواتین کے بنیادی حقوق پامال ہو رہے ہیں ، حقوق تو دور کی بات ہے ۔وہ آج بھی ظلم وتشدد کی چکی میں پس رہی ہیں ۔

دوسری اہم بات یہ کہ حقوق نہ کوئی دیتا ،نہ کوئی لیتاہے ،نہ میسر ہوتے ہیں اور نہ ہم کسی سے مانگتے ہیں ۔ہر عورت اپنے حقوق لے کر پیدا ہوتی ہے ۔لیکن اُن کا تحفظ نہیں ہوتا۔ہمارے ملک کےآئین میں بنیادی انسانی حقوق کی چالیس شقیں ہیں۔ ان کو اپنے حقوق کی ضمانت اور تحفظ میں کتنی مشکلات کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے ،یہ سب کو پتا ہے۔وراثت میں آدھا حصہ بھی نہیں ملتا، ملاز مت میںآدھی تنخواہ، جب کہ کام وہ بھی مرد کے برابر ہی نہیں بلکہ اُس سے زیادہ کرتی ہے۔ لیکن صرف آدھی تنخواہ اس لیے دی جاتی ہے ،کیوں کہ وہ عورت ہے ۔

یہ عورت کے حقوق سلب کرنا ہوتا ہے اور جب حقوق سلب کیے جاتے ہیں تو اپنی جدوجہد سےان کے لیے آواز بلند کرنی پڑتی ہے۔ نہ مانگنا ہوتا ،نہ لینا ہوتا اور نہ ہی دینا ہوتا ہے ،بلکہ مطالبہ کرناہوتا ہے کہ تم نے ہمارے حقوق غصب کیے ہیں تواب ہم اپنے حقوق کے لیے جنگ کریں گے ۔

س:کیا آپ سمجھتی ہیں کہ آپ کووہ تمام حقوق حاصل ہیں جو ایک عورت کو ملنے چاہئیں ؟

ج: ہم یہ جانتے ہیں کہ ہمارے حقوق کیا ہیں ۔لیکن یہ حقوق پامال کیے جارہے ہیں۔مثلاً سماجی حقوق ،اقتصادی حقوق ،تعلیمی حقوق اورروزگار کے حقوق۔ ویسے تو لڑکے اور لڑکی میں تفریق کا آغاز گھروں سے ہی ہوتا ہے ۔اگر مرغی ایک انڈا دیتی ہے تو والدین اُسے اُبال کر یا فرائی کرکے بیٹے کو کھلا دیتے ہیں ۔یہ نہیں سوچتےکہ اس انڈے کا آملیٹ بنا کر بیٹا بیٹی دونوں کو آدھا آدھا کھلا دیں۔

اس لیے اب تفریق ختم کرنےکاآغاز ہمیں اپنے گھروں سے ہی کرنا ہو گا ۔ نہ خواتین اپنی مرضی سے تعلیم حاصل کرسکتی ہیں۔نہ آزادی سے اپنی زندگی کے فیصلےکرسکتی ہیں ۔جب کہ سولہ سال کی عمر تک لازمی اور مفت تعلیم دینا ریاست کا فرض ہے ،جسے پورا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔نہ صرف تعلیم مفت بلکہ کتابیں اور یونیفارم مفت فراہم کرنا بھی ریاست کی ذمہ داری میں ہی شامل ہے ۔

س:کام کے دوران کوئی خوش گوار یا تلخ واقعہ پیش آیا ؟

ج:میرے کام کا احاطہ کچھ وسیع ہے۔مجھےکام کرتے ہوئے42 سال ہو گئے ہیں۔لہٰذا میں کوئی ایک تلخ یا ایک خوش گوار واقعے کا ذکر نہیں کرنا چاہتی ،کیوں کہ بے شمار خوش گواراور تلخ واقعات ہیں۔

س 2018: میں عورت مارچ کے موقع پر خواتین نے جو نعرہ بلند کیا تھا، ’’میرا جسم میری مرضی ‘‘ اس پر مردوں کی جانب ہی سے نہیں بہت سی خواتین نے بھی اعتراض کیاتھا ،اس ضمن میں آپ کی کیا رائے ہے ؟

ج: جن عورتوں اور مردوں نے اعتراض کیا یا مخالفت کی ،میں ان سے پوچھتی ہوں کہ آپ کو ڈر کس بات کا ہے۔8 مارچ 2020 ء کو تو ہم پرباقاعدہ طور پر حملہ کیا گیا۔اسلام آباد میں تو تحریک کی حامی خواتین پر پتھرائو تک کیا گیا۔ ہم نے شدید تشدد کا سامنا کیا ۔میرا نہیں خیال کہ کسی بھی مذہب میں یا تہذیب میں یہ سکھایا جاتا ہے کہ عورتوں کے جلوس پر پتھرائوکیا جائے یا ان کو تشدد کا نشانہ بنایا جائے۔ میں اعتراض کرنے والوں سے صرف یہ کہناچاہتی ہوں کہ جس طر ح آپ کو ہماری بہت ساری باتیں اچھی نہیں لگتیں بالکل اسی طر ح ہمیں آپ کی بہت سی باتیں اچھی نہیں لگتیں ۔

ہماری تحریک کے نمائندے اور اراکین جو مطالبات کرتے ہیں وہ برابری اور عدل و انصاف پر مبنی ہیں ۔لیکن ہمارے معاشرے میں ،عورت دوست قوانین کے باوجود نہ برابری ہےاورنہ ہی انصاف۔تو اس لیے ان سے خوف زدہ ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ ’’میرا جسم میری مرضی ‘‘ نعرےکا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ عورت کوئی نامناسب حرکت کرے۔بلکہ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ تمام حقوق کی ضمانت ہو ،مثلاً: جینے کا حق ، غذا کا حق ، صحت کا حق ،اپنی مرضی سے تعلیم حاصل کرنےکا حق ،اپنی مرضی سے ملازمت کرنےکاحق ،اپنی مرضی سے شادی کرنےیا نا کرنے کا حق ،اپنی مرضی سے ووٹ ڈالنے کا حق ۔جن عورتوں اور لڑکیوں نے یہ نعرہ بلند کیاہے ،اُن کا مطلب یہی ہےکہ میں انسان ہوں ، ایک فرد ہوں اور میری اپنی شناخت ہے۔

عورتوں کی تحریک میں شامل خواتین اور لڑکیاں سوال کرتی ہیںکہ جن مردوں کو اس نعرے پر اعتراض ہے ،کہ اگر ہم خواتین یہ نعرہ لگانے لگ جائیں ’’ میرا جسم ،تمہاری مرضی ‘‘ تو کیا آپ خوش ہوجائیں گے ؟آپ جب چاہیں مجھے’’ ریپ‘‘ کردیں ، جب چاہیں مجھے کارو کاری کرکے قتل کردیں، جب چاہیں مجھ پر تیزاب پھینک دیں ۔کیا ایسے نعرے آپ کو اچھے لگیں گے ؟ غلط سمجھاگیا ہے کہ یہ نعرہ فحاشی پر مبنی ہے ، جب کہ اس کا مطلب ہرگزیہ نہیں تھا نہ ہے۔

ایک لڑکی جب نوجوان ہوجاتی ہے تو اس کو بس عزت ،احترام، پیار ، شفقت، تحفظ ،برابری ،مساوات اور عدل و انصاف چاہیے۔ والدین سے میری گزارش ہے کہ اپنی بیٹیوں سے بھی اتنا ہی پیار کریں جتنا اپنے بیٹوں سے کرتے ہیں ۔ان کے ساتھ برابری کا سلوک کریں ،ان پر توجہ دیں ،ان پر بھروسہ رکھیں ،اعتماد کریں،فخر کریں اور یقین رکھیں کہ وہ آپ کے بھروسے کو کبھی رد نہیں کریں گی۔ آپ کا سر بلند ہو گا ،آپ کی بیٹی کے سر اُٹھانے سے۔