انسان کے اندر کی نشانیاں

March 17, 2021

آپ دنیا کے ہر عجوبے پر با آسانی غور کر سکتے ہیں لیکن اپنے اندر اتر نہیں سکتے۔ جلیل القدر صوفیا کے علاوہ کبھی کوئی سمجھ نہیں سکا کہ انسانی خواہشات کا منبع کیا ہے ، جن کی وجہ سے دنیا میں ہر جگہ فساد برپا ہے ۔ یہ وہی خواہشا ت ہیں ، جن کے بارے میں فرشتوں نے اللہ سے یہعرض کیا تھا کہ ’’ اسے زمین پر اپنا نائب بنائے گا، جو خون بہاتا ہے ؟‘‘ ماں کی گود سے لے کر قبر تک، انسان اپنی ان عادات اور خواہشات کے ہاتھوں ذلیل ہوتا ہے ۔

دنیا میں ہر شے کے ماہرین پائے جاتے ہیں۔ گاڑیوں کا کام کرنے والا انجن کی آواز سن کر بتا دیتاہے کہ اس میں کیا خرابی ہے۔ گوشت کا کام کرنے والا بکرا دیکھ کر ہی بتا دیتاہے کہ وزن کتنا ہے۔ ہر شے کے ماہرین دنیا میں پائے جاتے ہیں، بس نہیں ملتے تو نفس کے ماہر۔ انسان کی خود سے محبت اور ساری انسانی خواہشات کا مجموعہ نفس کہلاتا ہے۔کہیں اور نہیں، یہ دماغ کے اندر ہی پایا جاتاہے۔جب آپ اپنی کسی خواہش کی تکمیل کرتے ہیں تو دماغ میں مخصوص کیمیکل خارج ہوتے اور تسکین کا احساس دلاتے ہیں۔ دنیا میں موجود ہر شخص مضطرب ہے۔ سوائے حضرت علی بن عثما ن ہجویری ؒ جیسے صوفیا کے، خدا سے جنہوںنے دوستی اور نفس کا مطالعہ کیا۔

ہر قسم کے انسانی روّیوں، تمام جذبات کی بنیاد صرف اور صرف اس بات پہ رکھی ہے کہ نفس کو اپنے آپ سے محبت ہوتی ہے۔ دیگر تمام جذبات و احساسات اس میں سے پھوٹتے ہیں۔ گنج پن، چھوٹے قد، گہرے رنگ، بد صورت شکل اور دیگر جتنے بھی کمتری کے احساسات ہیں، ان کا سبب یہ ہے کہ نفس کی خود سے محبت اتنی شدید ہوتی ہے کہ اپنے اندر چھوٹی سے چھوٹی خامی بھی اسے گوارا نہیں ہوتی۔ کسی شخص کا مذاق اڑا کر دیکھ لیجیے۔ وہ بات دل میں رکھ لے گا اور آپ کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتا رہے گا۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ نفس کی خود سے محبت کی بنا پر اپنی توہین اسے گوارا نہیں ہوتی۔ مزید یہ کہ جتنے زیادہ لوگ اس پر ہنسنے والے ہوں گے، اتنا ہی نفس کا جوابی ردّعمل شدید ہوگا۔ علاج اس کا یہ ہے کہ انسان خود پر ہنسنا شروع کردے۔

کوئی آپ کو نقصان پہنچا دے تو آپ بدلہ لیے بغیر نہیں ٹلتے۔ انتقام کا یہ کھیل بہت لمبا ہو جاتا ہے۔ اتنی اس میں لاشیں گر جاتی ہیں کہ انسان سوچتا ہے کہ ابتدا میں جو نقصان پہنچا تھا، اس پہ صبر کر لیتے تو کیا تھا۔ وجہ بہرحال یہی ہوتی ہے کہ نفس کو اپنا آپ بہت عزیز ہے اور خود کو نقصان پہنچانے والے کو وہ معاف نہیں کر سکتا۔ اکثر اوقات دوسری جبلتیں بھی اس کے ساتھ مل جاتی ہیں۔ آپ کی شہرت اگر یہ ہے کہ آپ بہت طاقتور، دشمن دار، چالاک اور ہوشیار ہیں تو پھر تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آپ دشمن سے بدلہ نہ لیں ۔ علاقے کے لوگوں پر اپنی بڑائی سے متعلقہ حبِ جاہ اور غلبے کی جبلت بھی اس میں شامل ہوجاتی ہے۔آپ نے بدلہ لینے کے بعد لوگوں کو اپنی داستان بھی سنانا ہوگی ۔ علاج یہ ہے کہ جھوٹی انا اور عزت کے فریب میں مت آئیے۔

نفس میں شدید ترین خوف پایا جاتا ہے۔ اکثر تنازعات کی وجہ یہی خوف ہوتاہے۔ ایک انچ زمین پر لاشیں گرنے کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ آج اگر ایک انچ پر قبضہ ہوتا ہے تو کل کو ایکڑوں کے ایکڑ جائیں گے۔ یہ بھی کہ اگر آج ایک انچ ہم نے چھوڑ دیا تولوگ ہمیں کمزور اور بے وقوف سمجھیں گے ۔ محفل میں آپ پر اگر ایک جملہ کسا جاتاہے اور لوگ ہنستے ہیں تو نفس فوراً ہوشیار باش ہوجاتا ہے۔ اپنی بقا کا یہ خوف اس میں عود کر آتا ہے کہ کہیں مستقل اس کی ذلت کا یہ سلسلہ شروع نہ ہو جائے۔وہ پلٹ کر حملہ کرتا ہے۔ پھر دونوں اطراف سے جملے بازی کا سلسلہ جاری رہتاہے۔ آہستہ آہستہ یہ مستقل اور گہرے عناد میں ڈھل سکتاہے۔ ایک دوسرے کی تضحیک کے اس کاروبار میں،جو ہارے گا، اس دل میں کینہ رہے گا۔ جیتنے والے میں غلبے کی جبلت کو سرشاری ملے گی۔ خطرہ اس میں یہ ہوتاہے کہ بار بار، ہر جگہ وہ یہی کام کرنے کوشش کرتاہے؛حتیٰ کہ اونٹ پہاڑ کے نیچے آجاتاہے۔ بقا کے خوف، غلبے کی خواہش اور بے انتہا تجسس پر مشتمل نفس کی خواہشات ہی وہ محرکات ہیں، جنہوں نے کرئہ ارض پہ انسانی علم کو آخری حدوں تک پھیلنے میں مدد دی۔ غلبے کی جبلت میں بہت بڑی تسکین چھپی ہوتی ہے۔ ہمیشہ آپ کی بات پر سب لوگ ہنسیں۔ مخالف جنس کی کشش، حبِ جاہ اور غلبے کی جبلت، یہ سب آپس میں تعامل کر لیتی ہیں۔ اس کے بعد انسان اپنی حدوں سے باہر نکلتا ہے۔ اکثر اسے ذلت اٹھانا پڑتی ہے۔ اکثر اوقات غلبے کی یہ جبلت مکمل تباہی پہ منتج ہوتی ہے۔

نفس کی یہ خواہشات انسانی فیصلہ سازی پہ بری طرح سے اثر انداز ہوتی ہیں۔ غصے اور انتقام کے جذبات میں، وہ فیصلہ ہمیشہ عقل کے خلاف کرتاہے۔ ایسے افراد کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے، جو وقتی جذبات کی بجائے ناپ تول کر عقل کی مدد سے اپنا ردّعمل ترتیب دیتے ہوں۔ نفس ہر حال میں اپنی تعریف چاہتاہے۔ آپ ایک ڈرائیور کو صرف اتنا کہہ دیجئے کہ آج تک کسی کو اتنی اچھی ڈرائیونگ کرتے نہیں دیکھا، جتنی کہ تمہیں۔اسے چوڑا ہونے میں ایک سیکنڈ بھی نہیں لگے گا۔نفس کی خود سے محبت ہی کی وجہ سے انسان میں خوشامد سے فوری متاثر ہونے کا رجحان پایا جاتاہے۔ آپ کسی کی مونچھوں کی دو تین بار تعریف کر دیجیے۔ اس کے بعد آپ ہمیشہ اسے مونچھیں سنوارتے ہی دیکھیں گے۔ آسانی سے وہ اس فریب میں آجائے گا کہ اس کی مونچھیں شاندار ہیں۔ نفس کی نفسیات کو سمجھنے والے بڑی عمر کے لوگوں کو بچوں کی طرح نچا سکتے ہیں ۔