خطے کی صورتحال اور پاکستان

March 21, 2021

ہمارے قومی اداروں کا بھی عجب حال ہے، اگر ان کی کار کردگی پر سوال کئے جائیں تو وہ اپنی صفائی پیش کرنے لگ جاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن ہو یا نیب یہ دونوں ادارے بہت ہی بااختیار ہیں۔ ان کی اہمیت اور حیثیت اس لئے بھی اہم ہے کہ یہ داخلی خود مختاری سے اپنے امور کو سرانجام دیتے ہیں۔ نیب کا ادارہ ایک سابق جنرل کے دور میں زیادہ فعال ہوا سابق صدر کی نیت پر شک مناسب نہیں۔ مگر ان ہی کے دور اقتدار میں نیب کے ذریعے سیاسی مخالفوں کو رام کرنے کا سلسلہ شروع ہوا اور آج کا نیب اس معاملہ میں ملوث نظر نہیں آتا مگر سیاست کے بااثر گروپ نیب پر مسلسل الزام تراشی کرتے رہتے ہیں اور ایسا ہی کچھ معاملہ پاکستان الیکشن کمیشن کا ہے۔ پاکستان الیکشن کمیشن کے پاس ایک ہائیکورٹ جیتنے اختیارات ہیں پھر انتخابات کے سلسلہ میں اگر بدانتظامی اور کرپشن کی شکایات ہوں تو ان کا مداوا کرنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ مقام افسوس ہے کہ الیکشن کمیشن اس معاملہ میں نیک نامی نہیں کما سکا۔

خطہ کی موجودہ صورت حال میں پاکستان کئی حوالوں سے دوستو ںکے لئے خصوصی طور پر بہت ہی اہم ہے، ایک طرف چین کے ساتھ ہمارا رابطہ اور تعلق، دوستی اور ہمسائیگی بہت اہم ہے، دوسری طرف ایران کے ساتھ تعلق خاطر کافی قابل توجہ ہے۔ اس وقت امریکہ سابق صدر ٹرمپ کے بعد اپنی خارجہ پالیسی کو نئی ترتیب دیتا نظر آ رہا ہے، روس کے ساتھ تعلقات میں تنائو نظر آ رہا ہے۔ چین کی ترقی اور تجارت سے خطرہ محسوس کیا جا رہا ہے اور سب سے اہم بات کہ وہ بھارت کے کردار سے بھی مطمئن نہیں اور بھارت کو مشورہ دے رہا ہے کہ وہ اپنے طور طریقے درست کرے۔ بھارت کو انداز ہ ہو چکا ہے کہ دنیا کی سیاست میں دروغ گوئی سب سے خطرناک ہوتی ہے۔ بھارت چین سے ڈرتا بھی ہے اور مقابلے کا بھی صرف ہی سوچتا ہے اور پاکستان کو اپنا دشمن خیال کرتا ہے مگر اب بھارتی افواج پاکستان کے ساتھ علاقائی صورت حال میں بات چیت میں شریک نظر آرہی ہیں اور یہ کافی اچھی پیش رفت ہے۔

ایک طرف پاکستان کے گرد وبیش کی دنیا میں سیاسی اور معاشی تبدیلیاں نظر آ رہی ہیں۔ افغانستان میں امریکہ اپنی شرائط پر طالبان سے بات چیت کرتا نظر آ رہا ہے اور اس کو بامقصد مکالمہ بنانے کے لئے پاکستان کی ضرورت بھی ہے۔ دوسری طر ف طالبان بھی سنجیدگی سے ان مذاکرات میں شامل ہو رہے ہیں۔ پھر روس بھی افغانستان کی حیثیت کو نظر انداز نہیں کرسکتا اور اس وقت افغانستان میں چین اور ایران کا کردار بھی اہم نظر آ رہا ہے۔ اس سارے تناظر میں بھارت جو کبھی روس کی وجہ سے افغانستان میں دخل اندازی کرتا رہا ہے اور آج وہ امریکہ کی حمایت کی وجہ سے افغانستان کے معاملہ میں اپنی طرف توجہ چاہتا ہے۔ بھارت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایران کے ساتھ بدعہدی کر چکا ہے اور چین کے ساتھ سرحدی تنازع نے اس کی سیاست اور معیشت کو کمزور کردیا ہے۔ وزیر اعظم ہند مسٹر مودی کو اندرون ملک بڑی بے چینی کا سامنا ہے۔ ایک طرف اقلیتوں کے ساتھ حقوق کا معاملہ بھارتی جنتا پارٹی کو پریشان کر رہا ہے اور دوسری طرف امریکہ کو انداز ہ ہوچکا ہے کہ بھارت کو خطہ میں جنگی جنون سے پرہیز کرنا ہوگا اور ایسا کرنا امریکہ اور بھارت کے مفاد میں ضروری ہے۔

پاکستان کی اندرونی سیاست اور چپقلش نے پاکستانی دوستوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ ہمارے چینی دوست جو سی پیک منصوبہ کےتناظر میں پاکستان کی کئی حوالوں سے مدد کرنے کی منصوبہ بندی کرتے رہے تھے اب کچھ کچھ بیزار دکھائی دیتے ہیں۔ہمارے سیاسی لیڈران کا اپنا اپنا دعویٰ ہے۔ ایک طرف سابق صدر آصف زرداری کا کہنا ہے کہ چین کے ساتھ تمام منصوبے ان کی وجہ سے وجود میں آئے۔ دوسری طرف پنجاب کے سابق صوبے دار شہباز شریف کا دعویٰ ہے کہ چینی دوست ان کی سپرسپیڈ سے بہت ہی متاثر رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان سی پیک کے حوالے سے مخلص تو ہیں لیکن کچھ باتوں کا اظہار نہیں کر سکتے۔ایک تو امریکی دوستوں کا سلوک اور خصوصاً آئی ایم ایف کا کردار پریشان کن ہے۔ آئی ایم ایف پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانا چاہتا ہے مگر اپنی شرائط پر جو کہ پاکستان کے لئے اتنی زیادہ مفید نہیں ہیں۔ ہمارے سابق حکمرانوں نے آئی ایم ایف سے اتنا قرضہ لیا کہ اب اس سے چھٹکارا مشکل نظر آ رہا ہے، امریکہ بھی ہمارے اداروں میں مداخلت کی کوشش کر رہاہے، جو کہ غیر مناسب ہے۔ٹرمپ کے زمانہ صدارت میں امریکہ کا بہت دبائو تھا کہ اسرائیل کو تسلیم کرو، ہمارے عرب دوست بھی امریکہ کے ہمنوا تھے اور ہمارے ساتھ تعلقات میں ترشی بھی نمایاں رہی مگر اب صورت حال مختلف ہے۔ امریکی صدر نے اسرائیل پر واضح کردیا ہے کہ وہ اسرائیلی وزیراعظم سے مطمئن نہیں۔ پہلے وہ الیکشن کروائیں اور اس کے بعد وہ اسرائیلی دوستوں کی بات سنیں گے۔

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے پاس بھی وقت کم ہے وہ بہت سنجیدگی سے نیب اور دیگر پاکستانی اداروں کی کارکردگی کے حوالہ سے تبدیلی کے خواہش مند ہیں مگر حزبِ اختلاف کسی بھی طور تعاون پر تیار نظر نہیں آتی۔ اس سیاسی مخالفت نے دونوں فریقوں کو کمزور بنا رکھا ہے، اس کا حل نکالنا بھی ضروری ہے۔ پھر ہمارے عسکری اداروں پر ہمارے سیاسی نیتا آئے دن غیر ضروری تنقید کرتے رہتے ہیں جو انتہائی نا مناسب عمل ہے۔ کورونانے پاکستان میں زیادہ اثر نہیں دکھایا اگرچہ عوام تو اس معاملہ میں کبھی سنجیدہ نظر نہیں آئے اور ہمارے اکثر لوگوں نے حفاظتی تدابیر کے خلاف بات کی ہے مگر وبا کا زور بھی رہا اور کسی حد تک بچت بھی رہی۔ امید کی جا رہی ہے کہ اپریل کے شروع میں وبا کا زور ٹوٹنا شروع ہو گا مگر آنے والا وقت پاکستان کے لئے مزید مشکل ہوگا۔ بھارت کے ساتھ بات چیت میں ہماری حزب اختلاف کی مشاورت بھی ضروری ہوگی۔ فوج کی کوشش ہے کہ ہمارا سیاسی نظام چلتا رہے مگر جمہوریت ریاست کو کمزور کر رہی ہے۔ ترقی اور آزادی کے لئے ضروری ہے کہ ہم قانون اور انصاف کو اہمیت دیں ۔ عدلیہ کی غیر جانبداری سب سے اہم ہے اور قانون کا احترام اور قانون سب کے لئے اور سب کے ساتھ ایک جیسے سلوک کی نوید دیتا نظر آئے۔ عمران خان روحانی طور پر محفوظ ہیں مگر یہ عرصہ کم ہوتا جا رہا ہے اور ان کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کون سا نظام اس ملک کو آزاد اور عوام کو شانت رکھ سکتا ہے ، اس کا فیصلہ بس ہونے کو ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)