جنرل قمر جاوید باجوہ کا اہم خطاب

March 23, 2021

آج 23؍مارچ ہے۔ حسب ِسابق ’’یوم پاکستان‘‘ پورے ملک میں نہایت تزک و احتشام کے ساتھ منایا جارہا ہے۔ اس بار اس دن کی خاص اہمیت یہ بھی ہے کہ آج سے تقریباً پانچ دن قبل یعنی 18؍مارچ کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے وفاقی دارالحکومت میں منعقدہ ایک اہم تقریب سے خطاب کیا۔ اس خطاب کو پوری دنیا میں اہم ترین خطاب سمجھا جارہا ہے۔

’’نیشنل سیکورٹی ڈائیلاگ‘‘ کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سپہ سالار نے خطے میں قیام امن کے لئے خاص نکات کو واضح کردیا ہے۔ اب گیند بھارت کے کورٹ میں ہے۔

جنرل باجوہ کے خطاب سے دنیا پر واضح ہوگیا کہ پاکستان ہمیشہ کی طرح امن کا خواہاں ہے اور اس مقصد کے لئے بامعنی مذاکرات کے لئے بھی ہمہ وقت تیار ہے۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے خصوصی خطاب میں اس اہم نکتہ کی نشاندہی کی ہے۔

پاک بھارت کشیدگی اس خطے کو کسی بہتری کی جانب نہیں بلکہ غربت کی جانب لے جارہی ہے۔ یہ وقت ہے کہ آپس کی تلخیوں کو پس پشت ڈال کر مل کر امن و آشتی کی طرف بڑھیں۔ انہوں نے کہا کہ اب ماضی کو دفن کرکے خوشحالی کی جانب بڑھنا چاہئے۔ بامعنی مذاکرات کی راہ ہموار کرنی چاہئے۔

جس کے لئے مقبوضہ کشمیر میں حالات کو سازگار بنانا نہایت ضروری ہے۔ جب تک اپنا گھر ٹھیک نہیں کریں گے باہر سے بہتری نہیں آئے گی۔ جنرل باجوہ نے ایک بار پھر اس بات کو واضح کیا کہ کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل ہونا چاہئے۔

آرمی چیف کے اس خطاب کو پوری دنیا میں نہایت اہمیت کا حامل سمجھا جارہا ہے۔ دنیا کے امن پسند ملکوں اور حلقوں نے اس خطاب کی پذیرائی کی۔ افسوس کی بات ہے کہ بھارت کی طرف سے ابھی تک کوئی باقاعدہ جواب نہیں آیا ہے۔

لیکن ذرائع کے مطابق پاکستان کے آرمی چیف کی طرف سے اس جرأت مندانہ اور مدبرانہ خطاب پر غور ہورہا ہے۔ خصوصاً انڈین اسٹیبلشمنٹ اس خطاب کے مندرجات کو بہت اہم سمجھتے ہوئے اس پر غور و خوض کررہی ہے۔ بھارتی میڈیا میں بھی جنرل قمر جاوید باجوہ کا حالیہ خطاب موضوعِ بحث ہے۔

امریکی میڈیا نے تو کہا ہے کہ پاکستانی آرمی چیف کے اس خطاب کے بعد بھارت کے لہجے میں جو روایتی سختی تھی و ہ بہت کم ہوئی ہے۔ معروف بھارتی اخبار ’’دی ہندو‘‘ نے ایک مضمون میں بھارتی وزیر خارجہ کے بیان کے حوالے سے لکھا ہےکہ بھارتی وزیر خارجہ ہریش سرینگلا نے کہا ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ تمام باعث کشیدگی معاملات کا پرامن حل چاہتا ہے۔

لیکن بھارت کی طرف سے تاحال باضابطہ بیان نہیں آیا۔پاکستان نہ صرف اس خطے میں بلکہ پوری دنیا میں امن کا متمنی اور خواہاں ہے۔ پڑوسی ممالک کے ساتھ پرامن ماحول میں بامعنی مذاکرات سے کبھی پیچھے نہیں ہٹا ہے۔

پاکستان کا اصولی موقف ہے کہ کشمیریوں کو حق خودارادیت دیا جائے۔ اسی طرح پاکستان کے افغانستان میں قیام امن کے لئے کئے گئے اقدامات بھی دنیا کے سامنے ہیں۔

پاکستان امن کا داعی ہے اور اس پراصرار کرتا رہا ہے کہ اس خطے میں قیام امن ہی سے غربت کا خاتمہ اور معیشت میں بہتری ممکن ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں کہیں بھی اور کبھی بھی جنگوں سے بہتری نہیں آئی ہے بالآخر اختلافات باہمی مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہوتے ہیں۔

پاکستان چاہتا ہے کہ جنگیں برپا کرکے تباہی پھیلانےکے بجائے کیوں نہ آپس میں بیٹھ کر مسائل و اختلافات کے حل تلاش کئے جائیں۔ پاکستان کا یہ بھی موقف ہے کہ اختلافی مسائل و معاملات کا حل تب ہی نکالا جاسکتا ہے جب فریقین بیٹھ کر بات چیت کریں۔ بھارت ابھی تک بامعنی مذاکرات سے پہلوتہی کرتا آیا ہے۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھارت کو امن کا راستہ دکھا کر یہ بھی نشاندہی کی ہے کہ دونوں ممالک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی امن اور مفاہمانہ اقدامات میں ہی پوشیدہ ہے۔ باہمی بگاڑ اور نفرت سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا۔

اب یہ وقت بھی ہے اور بھارت کا فرض بھی ہے کہ مسئلہ کشمیر سمیت تمام مسائل کے حل کے لئے ہاتھ بڑھائے۔ حکومتیں اور افراد آتے اور چلے جاتے ہیں لیکن ان کے اقدامات طویل عرصے تک قوموں پر اثرانداز ہوتے رہتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر ایک نہ ایک دن حل ہونا ہی ہے۔ افغانستان میں بھی کبھی تو امن قائم ہونا ہے۔

تو کیوں نہ موجودہ قیادتیں پہل کرکے ماضی کی تلخ روایات کو دفن کریں۔ اور اس خطے میں قیام امن کے لئے اقدامات کا آغاز کریں۔

جس کا جو حق ہے اس کو دے کر تاریخ میں اپنا نام اس طرح لکھوالیں کہ آنے والی نسلیں بھی ان کا نام احترام سے لیا کریں۔

اب وقت آگیا ہے پڑوسی ممالک امن کی طرف بڑھتے ہوئے پاکستان کے ہاتھ میں ہاتھ دیں اور اپنی اپنی قوم کو امن، بہتر معیشت اور خوشحالی کا تحفہ دیں۔