پاناما لیکس:معاملے کا دوسرا رخ

April 29, 2016

پاناما لیکس پر ایک طرف حکومت اور اپوزیشن پارٹیوں کے درمیان آف شور کمپنیوں میں ملکی سرمائے کی منتقلی اور اس کی تحقیقات کے لئے مجوزہ عدالتی کمیشن کے دائرہ کار پر لفظی جنگ اب عملی محاذ آرائی کی شکل اختیار کر رہی ہے تو دوسری طرف سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ معاملے کی تحقیقات کے لئے ہونے والی اس مشق کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا کیونکہ پاکستان میں آف شور کمپنیوں سے پوچھ گچھ اور ان کے مالی امور کے فرانزک آڈٹ کے لئے کوئی لیگل فریم ورک موجود ہے نہ ایسا کوئی قانون جس کی رو سے انہیںتحقیقات کے دائرے میںلایا جاسکے۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میںکارپوریٹ قانون دان محمود مانڈوی والا کی پریذینٹیشن کے مطابق معلومات کے تبادلے کیلئے پاکستان کے دنیا میں صرف پانچ ملکوں کے ساتھ معاہدے ہیں۔ ان میںپاناما لیکس سے جڑا ہوا ایک بھی ملک شامل نہیں۔ حکومت پاکستان ان ملکوں یا ان کی کمپنیوں سے کسی طرح کی بھی معلومات حاصل نہیںکرسکتی۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ پاناما معلومات چوری کی ہیں۔ قانون کے تحت ایسی معلومات کو تحقیقات کے لئے بھی استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ دنیا میں50 فیصد سے زیادہ کاروبار آف شور کمپنیوں کے ذریعے ہوتا ہے اور ضروری نہیںکہ ایسی تمام کمپنیاں غیر قانونی ہوں۔ سینٹ کمیٹی میں جو پریزینٹیشن دی گئی ہے اس کے مطابق پاکستان کو اگر اپنے شہریوں کے بیرون ملک اکاؤنٹس تک رسائی ہی حاصل نہیںتو وہ ان کی تحقیقات کیسے کرا سکتا ہے، یہ ایسا سوال ہے جس پر قانون سازوں کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے اور موجودہ بحران کا ایسا حل نکالنا چاہئے جو آئین و قانون اورزمینی حقائق سے مطابقت رکھتا ہو۔ اس حوالے سے فریقین میں باہمی مشاورت اور اتفاق رائے کا حصول ضروری ہے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں جوڈیشل کمیشن کے ضابطہ کار پر اپوزیشن کو مثبت تجاویز دینے کی پیشکش کی گئی ہے جنہیں مشاورت کے بعد حتمی شکل دی جاسکتی ہے۔ ملک کو عدم استحکام سے بچانے کیلئے یہی درست راستہ ہے۔