پاناما لیکس پر ایک طرف حکومت اور اپوزیشن پارٹیوں کے درمیان آف شور کمپنیوں میں ملکی سرمائے کی منتقلی اور اس کی تحقیقات کے لئے مجوزہ عدالتی کمیشن کے دائرہ کار پر لفظی جنگ اب عملی محاذ آرائی کی شکل اختیار کر رہی ہے تو دوسری طرف سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ معاملے کی تحقیقات کے لئے ہونے والی اس مشق کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا کیونکہ پاکستان میں آف شور کمپنیوں سے پوچھ گچھ اور ان کے مالی امور کے فرانزک آڈٹ کے لئے کوئی لیگل فریم ورک موجود ہے نہ ایسا کوئی قانون جس کی رو سے انہیںتحقیقات کے دائرے میںلایا جاسکے۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میںکارپوریٹ قانون دان محمود مانڈوی والا کی پریذینٹیشن کے مطابق معلومات کے تبادلے کیلئے پاکستان کے دنیا میں صرف پانچ ملکوں کے ساتھ معاہدے ہیں۔ ان میںپاناما لیکس سے جڑا ہوا ایک بھی ملک شامل نہیں۔ حکومت پاکستان ان ملکوں یا ان کی کمپنیوں سے کسی طرح کی بھی معلومات حاصل نہیںکرسکتی۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ پاناما معلومات چوری کی ہیں۔ قانون کے تحت ایسی معلومات کو تحقیقات کے لئے بھی استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ دنیا میں50 فیصد سے زیادہ کاروبار آف شور کمپنیوں کے ذریعے ہوتا ہے اور ضروری نہیںکہ ایسی تمام کمپنیاں غیر قانونی ہوں۔ سینٹ کمیٹی میں جو پریزینٹیشن دی گئی ہے اس کے مطابق پاکستان کو اگر اپنے شہریوں کے بیرون ملک اکاؤنٹس تک رسائی ہی حاصل نہیںتو وہ ان کی تحقیقات کیسے کرا سکتا ہے، یہ ایسا سوال ہے جس پر قانون سازوں کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے اور موجودہ بحران کا ایسا حل نکالنا چاہئے جو آئین و قانون اورزمینی حقائق سے مطابقت رکھتا ہو۔ اس حوالے سے فریقین میں باہمی مشاورت اور اتفاق رائے کا حصول ضروری ہے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں جوڈیشل کمیشن کے ضابطہ کار پر اپوزیشن کو مثبت تجاویز دینے کی پیشکش کی گئی ہے جنہیں مشاورت کے بعد حتمی شکل دی جاسکتی ہے۔ ملک کو عدم استحکام سے بچانے کیلئے یہی درست راستہ ہے۔