دیکھتا چلا گیا

June 07, 2013

تدبر کی عادت ہو تو چھوٹی سی چھوٹی اور بڑی سے بڑی بات غور و فکر کے دروازے کھول دیتی ہے۔ خالق کائنات نے واضح کر دیا ہے کہ ”یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں“۔ (آل عمران)
مطلب یہ زندگی میں کوئی شے مستقل نہیں، حسن، جوانی، شہرت، اقتدار، طاقت اور محبت یاراں سب کچھ وقتی ہے، وقت بدلتا رہتا ہے، کیونکہ دراصل دنیا فنا کی جگہ ہے،یہاں ہر شے کو فنا ہونا ہے، بقا صرف نیکی اور نیک اعمال کو ہے۔ میں گزشتہ کئی دہائیوں سے اپنی تاریخ کا چشم دید گواہ ہوں۔ ذر غور کیجئے ابھی کل کی بات ہے کہ جب میاں نواز شریف جنرل ضیاء الحق اور جنرل جیلانی کی نظر کرم سے پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے تو پنجاب کے روایتی حکمرانوں اور طاقتور زمینداروں نے اپنی محفلوں میں کہنا شروع کیا کہ پنجاب پر ہمیشہ وڈیروں اور زمینداراوں نے حکومت کی ہے۔ یہ شہری بابو اور بزنس مین کہاں سے آ گیا ہے، چنانچہ تھوڑے ہی عرصے بعد پنجاب کے موروثی اور طاقتور سیاستدانوں نے وزارت اعلیٰ پر اپنا حق جتاتے ہوئے بغاوت کر دی اور میاں صاحب کو اقتدار سے محروم کرنے کی کوشش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ شہری بابو، فوج کی زیر نگرانی پروان چڑھنے والا صنعت کار نہ کبھی لیڈر بن سکے گا، نہ اپنا سیاسی حلقہ بنا سکے گا، نہ پارٹی کو منظم کر سکے گا اور نہ ہی حکومت چلا سکے گا۔میں اس سارے سیاسی ڈرامے کا گواہ بھی ہوں اور متاثرین میں سے بھی ہوں۔ قدرت کا کھیل دیکھئے، وہی غیر سیاسی نوجوان پنجاب کا دوبار وزیراعلیٰ منتخب ہوا، اس نے اپنی پارٹی کی جڑیں دور دور تک پھیلائیں، اپنا سیاسی اثر اور حلقہ مستحکم کیا، ووٹ بینک وسیع کیا اور آج تیسری بار ملک کا وزیراعظم بن گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ اسی کا مرہون منت ہے۔ ہماری تاریخ میں اس سے قبل کوئی ایسی مثال نہیں کہ وزارت عظمیٰ کا تاج تیسری بار کسی کے سر پر پہنایا گیا ہو۔ ایک ہی گود میں پلنے والے دو بھائیوں میں سے ایک تیسری بار وزیراعظم کا حلف اٹھا رہا ہے اور دوسرا تیسری بار وزیراعلیٰ کی ذمہ داریاں سنبھال رہا ہو۔ اندازے غلط بھی نکلتے ہیں اور کبھی کبھی ٹھیک بھی ثابت ہوتے ہیں۔ میرا اندازہ ہے کہ پاکستان کی آئندہ تاریخ میں بھی شاید اس ریکارڈ کو توڑا نہیں جا سکے گا، مات نہیں دی جا سکے گی کہ بڑا بھائی تیسری بار وزیراعظم اور چھوٹا بھائی تیسری بار وزیراعلیٰ بنے۔ اب عملی طور پر پاکستان کا اقتدار رائے ونڈ محل میں منتقل ہو چکا ہے۔ اگر دونوں بھائی لوگوں کی توقعات پرپورے اترے اور مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوئے تو شاید اگلی بار بھی اقتدار ان کی لونڈی بنے۔ آخر مہاتیر بھی تو کئی بار وزیراعظم منتخب ہوا تھا۔ سنگاپورکو بھی مسٹرلی کوآٹھ بار وزیراعظم منتخب کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ ورنہ دیکھا جائے تو میاں صاحب وزارت عظمیٰ کی جس کرسی پر متمکن ہوئے ہیں اس پرکئی درجن نام کنندہ ہیں۔ پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان تھے، پہلے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح تھے پھر اس کے بعد وزیراعظم بھی آتے جاتے رہے، گورنر جنرل اور صدر بھی آتے جاتے رہے لیکن نہ کوئی لیاقت علی خان بن سکا اور نہ ہی کوئی محمد علی جناح بن سکا۔ لیاقت علی خان بحیثیت وزیراعظم معمولی گھر میں رہتے تھے۔ گھر میں ایک باورچی اور ایک کار ڈرائیور تھا۔ آج وزیراعظم ہاؤس کا روزانہ خرچہ تیس لاکھ روپے ہے۔ قیمتی کاروں اور ملازمین کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ یہی حال وزیراعلیٰ ہاؤس کا ہے۔ وہ لیڈر ہی کیا جو عوام کے دکھوں میں حصہ دار نہ ہو۔ عوام پندرہ گھنٹے لوڈشیڈنگ جھیلیں اور لیڈر پندرہ سیکنڈ کی لوڈشیڈنگ کا بھی متحمل نہ ہو۔ عوام صاف پانی کو ترسیں، روٹی کے ٹکڑے کے لئے مارے مارے پھریں اور بھوک سے تنگ آ کر خود کشیاں کریں لیکن لیڈران سرکاری محلات پر لاکھوں روزانہ صرف کر دیں۔ یارو! یہ دنیا فنا کا مقام ہے یہاں اقتدار، دولت، جوانی حتیٰ کہ ہر شے کو فنا ہونا ہے۔ باقی رہے گا عمل، نیکی، خدمت کیونکہ ان کا اجر اس جہان میں بھی ملتا ہے اور اگلے جہان میں بھی، ورنہ تو آج ہمارے نوجوانوں کو بہت سے وزراء اعظموں کے نام بھی یاد نہ ہوں گے حالانکہ پاکستان کی تاریخ صرف 66 برس پر محیط ہے۔
میرے رب کا فرمان ہے کہ ہم وقت کو پھیرتے رہتے ہیں، چند برس قبل جس وزیراعظم ہاؤس سے میاں نواز شریف کو گرفتار کر کے بطور قیدی لے جایا گیا تھا، کل اسی گھر میں فاتح بن کر بطور وزیراعظم داخل ہو رہے تھے، جس فوج نے انہیں بارہ اکتوبر 1999ء کی شام گرفتار کیا تھا۔ وہی فوج کل شام انہیں گارڈ آف آنر دے رہی تھی، جس بیڈ روم سے انہیں خوف کے عالم میں گرفتار کیا گیا تھا اور جہاں گرفتاری سے چند لمحے قبل وہ ایک خفیہ اور محفوظ فون سے سعودی عرب کے فرمانروا اور خادم حرمین شریفین کو بتا رہے تھے کہ ”سر وہ میرے کمرے میں داخل ہو گئے ہیں“۔ کل اسی بیڈ ر وم میں وہ تقریباً چودہ برس بعد سوئے ہوں گے۔ یہی زندگی ہے، یہی اقتدار کے لیل و نہار ہیں، اسی طرح وقت بدلتا رہتا ہے جو شخص زندگی، اقتدار، دولت اور حسن و جوانی کی ناپائیداری اور غیر ثباتی کو سمجھ لیتا ہے کہ وہ فائدے میں رہتا ہے، جو نہیں سمجھتا وہ خسارے اور گھاٹے میں رہتا ہے۔
ٹیلی ویژن کی خبروں کے مطابق کل تقریباً سارے ملک میں میاں نواز شریف کے وزیراعظم بننے پر خوشیاں منائی گئیں، جشن بپا ہوئے، مٹھائیاں تقسیم ہوئیں اور نوافل ادا کئے گئے۔ میرے نزدیک اس جشن میں بڑا حصہ پی پی پی کی حکومت کا بھی تھا، جو نہ صرف ہر طرح ناکام رہی بلکہ ہر روز نئے نئے سکینڈلز، لوٹ مار اور قانون و میرٹ کی پامالی کے مناظر بھی پیش کرتی رہی۔ آج ہر شخص مسلم لیگ ن میں شمولیت کے لئے بے چین ہے۔ اقتدار میں شریک ہونے کے لئے ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ لیکن ابھی کل کی بات ہے کہ جب میاں صاحب کو اقتدار سے نکال کر اٹک قلعہ پہنچایا گیا تو کہیں بھی احتجاج نہ ہوا۔ جنرل مشرف نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں خدشہ تھاکہ لاہور میں مزاحمت اور احتجاج ہو گا لیکن حیرت ہے کہ کوئی بھی باہر نہ نکلا، جس شاہرائے قائداعظم پر کل میاں صاحب کے وزیراعظم بننے کا جشن منایا گیا اس شاہرائے قائداعظم پر 13 اکتوبر 1999ء کو پرویز مشرف کے لئے خیر مقدمی بینر لگے ہوئے تھے۔ میں نے اپنی گناہگار آنکھوں سے ان خیر مقدمی یعنی ویلکم بینرز پر کچھ ایسے حضرات کے نام پڑھے جو میاں صاحب کے وفاداروں، حواریوں اور جانثاروں میں شمار ہوتے تھے تو میری پلکیں بھیگ گئیں اور دنیا کی بے ثباتی اور خوشامدیوں کی طوطا چشمی نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا حالانکہ میں نے یہ منظر پہلی بار نہیں دیکھا تھا اور میرے لاشعور میں یہ یاد بھی تازہ تھی کہ جب 1956ء میں جنرل ایوب خان نے جمہوریت کا بستر گول کر کے مارشل لاء لگایا تو اسے ملک بھر سے لاکھوں تاریں (ٹیلی گرام) ملے تھے، جن میں اسے خوش آمدید کہنے کے علاوہ لیڈروں سے نجات دلانے پر شکریہ ادا بھی کیا گیا تھا۔ میاں صاحب یقینا جلاوطنی سے بہت کچھ سیکھ کر آئے ہوں گے۔ بظاہر وہ پہلے سے کہیں زیادہ پختہ، باشعور اور سمجھدار سیاستدان بن چکے ہیں۔ انہوں نے سعودی عرب سے واپس آ کر ایک موقع پر جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ لوگ کہتے تھے کہ قدم بڑھاؤ نواز شریف، ہم تمہارے ساتھ ہیں لیکن جب میں نے قدم بڑھا کر پیچھے دیکھا تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ میاں صاحب بھی جانتے ہیں کہ نعرے لگانے والے پیشہ ور زندہ باد یے اور ابن الوقت حواری سب پرویز مشرف سے جا ملے تھے۔ پھر پرویز مشرف کے جلسوں میں یہ نعرے لگائے جاتے ہیں۔ ”قدم بڑھاؤ پرویز مشرف، ہم تمہارے ساتھ ہیں“۔ آج پرویز مشرف اپنے محل نما گھر میں تنہا بیٹھا ہے، اس کے پیچھے صرف تین وفادار بچے تھے اور ان میں سے بھی عتیقہ اوڈھو تحریک انصاف میں جا رہی ہیں۔ پرویز مشرف کے اقتدار کے اردگرد جتنے حواری تھے ان کی اکثریت مسلم لیگ ن میں شامل ہو گئی ہے۔ کون سی وفا؟ کیسی وفا؟ ان کی وفا کرسی اور اقتدار کی مرہون منت ہے۔ میری دعا ہے کہ ایسا نہ ہو لیکن اگر کل کلاں میاں صاحب پر پھر مشکل وقت آن پڑے تو کیا یہ وفادار ان کے پیچھے کھڑے ہوں گے؟ تاریخ کا جواب نفی میں ہے، اسی لئے تاریخ پوچھتی ہے کہ کیا میاں صاحب نے جلاوطنی سے یہی سبق سیکھا ہے؟
دوستو معاف کرنا، ہنی مون کے دوران صرف میٹھی میٹھی باتیں کی جاتی ہیں، خدشات اور تلخ حقائق کا ذکر نہیں کیا جاتا لیکن معاف کرنا میں بھی عادت سے مجبور ہوں۔ اس وقت قوم، میڈیا، حزب مخالف، عدلیہ اور سیاسی کارکنان سبھی میاں صاحب کے ساتھ ہیں۔ اتنا موافق اور خوشگوار آغاز کم کم حکمرانوں کو نصیب ہوتا ہے۔ ہنی مون کا عرصہ چند ماہ کا حسین خواب ہوتا ہے۔ اسی عرصے کے دوران میاں صاحبان کو اپنی کارکردگی دکھانی اور مستقبل کی سمت متعین کرنی ہے۔ اگر ان کی کارکردگی غیر تسلی بخش ہوئی تو یہی حمایت بکھرنا شروع ہو جائے گی اور آج سڑکوں پر جشن منانے والے احتجاجی ریلیاں نکال رہے ہوں گے۔
خالق کائنات کا فرمان ہے کہ ہم وقت بدلتے رہتے ہیں، اقتدار، حسن، جوانی، دولت، شہرت سب کچھ فانی ہے، اسے بہرحال فنا ہونا ہے اور باقی رہیں گے صرف نیک اعمال۔ نیک اعمال میں خدمت خلق کا درجہ بہت بلند ہے، جس نے مخلوق خدا کو راضی کیا، اس سے رب راضی ہوا، یہ اقتدار آنی جانی شے ہے اور ڈھلتی چھاؤں تلے … باقی رہے نام اللہ کا