وہ لاہور کہیں کھو گیا

March 28, 2021

(گزشتہ سے پیوستہ )

ڈبل ڈیکر بس کرشن نگر کے آخری بس اسٹاپ سے آر اے بازار (رائل آرٹلری بازار) تک جایا کرتی تھی۔ اس زمانے میں یہ لاہور میں لاہور اومنی بس کا سب سے لمبا روٹ تھا۔ یہ بس مال روڈ سے ہوتی ہوئی میاں میر چھائونی، فورٹریس اسٹیڈیم اور ایئرپورٹ سے ہوتی ہوئی آر اے بازار جاتی تھی۔ کیا خوبصورت اور تازہ ہوا بس کی اوپر کی منزل پر آیا کرتی تھی۔ ایک روپے کا ٹکٹ لے کر ہم اکثر گورنمنٹ کالج کے بس اسٹاپ سے سوار ہو کر آر اے بازار جاتے۔ بس وہاں نصف گھنٹہ رکتی تھی، ہم بس میں ہی بیٹھے رہتے۔ پھر واپس گورنمنٹ کالج لاہور اتر جاتے۔ کبھی گورنر ہائوس (جسے کوٹھی لارڈ صاحب بھی کہتے تھے) کے مال روڈ والے دروازے کے بالکل باہر بس اسٹاپ ہو گیا۔ باقاعدہ بس سٹاپ تھا جسے ضیاء الحق کے دور میں ختم کر دیا گیا اب تو وہاں بس کھڑی کرنا بھی منع ہے۔

گورنر ہائوس کے اندر دو مزار بھی ہیں۔ ایک عنایت حسین شاہ المعروف بابا روڑے شاہ کا ہے جہاں باقاعدہ عرس ہوتا ہے۔ پیر عنایت حسین کا مزار سب سے قدیم ہے۔ دوسرا قاسم خاں کا مقبرہ ہے۔ کبھی یہاں سید بدرالدین گیلانی کا بھی مزار تھا جو بڑے عابد و زاہد بزرگ تھے۔ یہاں ایک عالیشان گنبد اور عمارت تھی جسے سکھوں نے بہت نقصان پہنچایا اور راجا تیج سنگھ نے یہاں پر قبضہ کر لیا تھا جسے انگریزوں نے خرید کر اس مقبرے اور جگہ پر ایک وسیع کوٹھی بنائی تھی جسے کوٹھی نواب لیفٹیننٹ گورنر بہادر بھی کہا جاتا تھا۔ کبھی اس گورنمنٹ ہائوس کی دلچسپ تاریخ بیان کریں گے۔ آج بھی گورنمنٹ ہائوس (گورنر ہائوس) میں ملکہ وکٹوریہ کا پورا سوئیٹ (کمرہ، ڈرائنگ روم وغیرہ) موجود ہے جسے ہم نے دیکھا ہے، جو عام لوگوں کو نہیں دکھایا جاتا۔ اس تاریخی عمارت پر سب سے پہلے کرنل سر ہنری لارنس نے قبضہ کیا تھا۔ پھر یہ انگریزوں کے تمام لیفٹیننٹ گورنروں کی رہائش گاہ اور دفاتر کے لئے استعمال ہونے لگی۔ گورنمنٹ ہائوس (گورنر ہائوس) کے اندر موجود مزار اور مقبرہ کسی انگریز گورنر نے کبھی ختم کرنے کی کوشش نہیں کی حتیٰ کہ ایچی سن کالج میں تین مزار ہیں جو ایچی سن کالج کے قیام سے بھی دو سو برس قدیم ہیں مگر کسی انگریز پرنسپل نے بھی ان کو کبھی ختم کرنے کی کوشش نہیں کی جبکہ گورنمنٹ کالج لاہور کے اندر چھ مزار تھے۔ پنج پیر اور ایک مزار مسجد کے ساتھ تھا۔ ہم نے خود پنج پیر کے مزارات پر کئی مرتبہ اپنے زمانہ طالب علمی میں بھنڈارہ کھایا تھا۔ ایک سابق وائس چانسلر نے ان تمام مزاروں کو مسمار کر دیا تھا حالانکہ وہاں ایسے صدیوں پرانے درخت تھے جن کی جڑیں بھی زمین پر تھیں۔ اورینٹل کالج کے مرکزی دروازے کے ساتھ بھی مزار ہے۔ کوئین میری کالج میں بھی پانچ مزار ہیں۔ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں بھی دو قبریں موجود ہیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے سامنے گول باغ ہے جسے ناصر باغ بھی کہا جاتا ہے۔ کبھی گول باغ کے درمیان سے ایک سڑک گزر کر ضلع کچہری اور دوسری طرف کارپوریشن کے آفس کے سامنے آیا کرتی تھی۔ پتہ نہیں یہ سڑک کیوں بند کر دی گئی۔ کبھی یہاں پر لالہ لاجپت رائے کا مجسمہ تھا۔ لالہ لاجپت رائے ہال بھی قریب تھا، جو اب بھی موجود ہے، کسی صحافی نے اس ہال پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اس گول باغ میں بھٹو نے جلسہ کیا تھا ایوب خان کے خلاف۔ اس جلسے میں ایوب خان حکومت نے جلسہ گاہ میں پانی اور بجلی چھوڑ دی تھی اور بھٹو نے ڈاکٹر محمد اجمل (اس وقت کے پرنسپل گورنمنٹ کالج بعد میں وفاقی سیکرٹری تعلیم بنے) کے گھر چھپ کر جان بچائی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو ایک رکشے والا اپنے رکشے میں بھگا کر لایا تھا۔ وہ رکشہ والا پوری زندگی شاہ دین بلڈنگ کے باہر پیپلز پارٹی کے جھنڈے اور ایک بڑا سا کھوکھا بنا کر بیٹھا رہا۔ ہم نے اس سے کئی بار بات کی، وہ کہتا تھا کہ پیپلز پارٹی نے اسے کچھ نہیں دیا۔ اب واللہ علم سچ کیا تھا البتہ ڈاکٹر محمد اجمل کو بعد میں وائس چانسلر قائد اعظم یونیورسٹی اور پھر وفاقی سیکرٹری تعلیم بنا دیا گیا تھا۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر رشید واحد تھے جنہیں ایڈیشنل چیف سیکرٹری بھی لگایا گیا تھا۔ کیا گورنمنٹ کالج تھا مگر اس کی ہر روایت کو ایک سابق وائس چانسلر نے برباد کر دیا۔ اب تو دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اولڈ راوین ایسوسی ایشن کے انتخابات میں بھی سیاست آ گئی ہے۔ مرحوم ڈاکٹر نذیر احمد (گورنمنٹ کالج کے نامور پرنسپل) کہا کرتے تھے کہ گورنمنٹ کالج لاہور کا طالب علم جب سڑک پر آئے تو لوگ خود کہہ اٹھیں کہ یہ لڑکا جی سی کا ہے۔

لاہور کے ایک سرکاری کالج میں تین سمادھیاں بھی ہیں۔ اس کے بارے میں بھی بتائیں گے۔ یہ تینوں سمادھیاں رنجیت سنگھ، نونہال سنگھ، کھڑک سنگھ کی ماں اور بیویوں کی تھیں۔ ایچی سن کالج کے اندر بھی کبھی مندر تھا۔ اب یہاں کالج کا اسٹاف بیٹھتا ہے البتہ اس کی عمارت آج بھی موجود ہے۔

لاہور کا شاہ عالمی دروازہ ان لاہوریوں نے یقیناً دیکھا ہے جن کی عمر اس وقت ماشاء ﷲ اسّی اور نوے برس ہو گی۔ 1947ء کے فسادات میں شاہ عالمی دروازے کو آگ لگا دی گئی تھی۔ رنگ محل، شاہ عالمی، ڈبی بازار، کسیرا بازار، گمٹی بازار، سوہا بازار، موتی بازار اور کشمیری بازار یہ تمام تجارتی مراکز تھے، یہاں زیادہ تر ہندو تاجر ہوا کرتے تھے۔ رنگ محل میں کبھی اکبر اور شاہ جہاں کے دور میں نیل کا کاروبار عروج پر تھا۔ لاہور سے منٹگمری (ساہی وال) تک نیل کے پودے میلوں رقبے پر پھیلے تھے اس لئے اس علاقے کو نیلی بار بھی کہتے تھے۔ یہ نیل کسی زمانے میں لاہور سے اٹلی، ولایت، پرتگال اور فرانس تک جاتا تھا۔ (جاری ہے)