بھارت سے تجارت کی بحالی!

April 02, 2021

جنوبی ایشیا میں پچھلے ہفتوں کے دوران کشیدگی میں کمی کی صورت حال مدِنظر رکھی جائے تو 19ماہ کے تعطل کے بعد بھارت سے تجارت بحال کرنے کا پاکستانی فیصلہ غیرمتوقع نہیں البتہ تیز رفتار پیش رفت کہا جا سکتا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ حماد اظہر نے، نیا قلمدان سنبھالنے کے ایک روز بعد اپنی صدارت میں منعقدہ کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے اجلاس کے بعد جو پریس کانفرنس کی، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اجلاس نے بھارت سے چینی، کپاس اور دھاگہ درآمد کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ حماد اظہر کا کہنا تھا کہ بھارت میں چینی پاکستان کے مقابلے میں 15سے 20فیصد سستی ہے، نجی شعبہ وہاں سے 5لاکھ میٹرک ٹن، چینی درآمد کر سکے گا، اس فیصلے کا مقصد چینی کی سپلائی بہتر بنانا اور نرخوں میں اضافے کی روک تھام کرنا ہے۔ کپاس کی طلب بہت زیادہ ہونے کے باعث بھارت کی کم قیمت کپاس درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ دھاگہ دنیا بھر سے درآمد کرنے کی اجازت ہے تاہم ہمسایہ ملک سے درآمد سے وقت اور اخراجات دونوں کی بچت ہوگی۔ وزیر خزانہ کا مزید کہنا تھا کہ قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے چیلنجوں پر قابو پانے کی کوشش کریں گے۔ وزیر خزانہ کے بیان کے بموجب اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کا بل پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا، سکوک بانڈز جاری کئے جائیں گے تاہم سردست ان کی تاریخ نہیں دی جا سکتی۔ اسٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ پر پارلیمان میں بحث کے بعد قانون سازی ہوگی۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں گندم کی نئی فصل کے لئے کم سے کم امدادی قیمت 1800روپے فی 40کلوگرام مقرر کی گئی اور سپلائی یقینی بنانے کے لئے 30لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی بھی اجازت دی گئی جبکہ دیگر اہم امور پر بھی فیصلے کئے گئے۔ چینی کپاس اور دھاگہ درآمد کرنے کی صورت میں نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان تجارتی رابطے دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ جس انداز میں سامنے آیا، اس کا جہاں اندرون ملک مختلف زاویوں سے جائزہ لیا جارہا ہے وہاں بیرونِ ملک بھی اخباری خبروں اور تجزیوں کی صورت میں ان پر خیال آرائیاں کی جارہی ہیں۔ موجودہ حکومت کے حامی حلقوں سمیت بعض افراد 5؍اگست 2019کو مقبوضہ کشمیر میں کئے گئے بھارتی اقدامات کے تناظر میں پاکستان کے مذکورہ فیصلوں کو ناپسند کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک مقبوضہ کشمیر میں کئے گئے جارحانہ اقدامات واپس نہیں لئے جاتے اور تنازع کشمیر کے حل کی واضح صورت پیدا نہیں ہوتی اس نوع کے فیصلوں سے اجتناب کیا جانا چاہئے۔ تاہم چیئرمین قائمہ کمیٹی خارجہ امور سینیٹر مشاہد حسین سید کا کہنا ہے کہ ’’فی الحال دوستی نہیں ہو رہی، صرف تعلقات معمول پر آرہے ہیں، مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر پائیدار امن نہیں آسکتا‘‘۔ مبصرین کی خاصی تعداد پاک بھارت تجارت کی بحالی کو درست فیصلہ قرار دیتی اور اس ضمن میں چین اور تائیوان کے درمیان تجارتی حجم کا حوالہ دیتی ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کی پیپلز ڈیموکریٹ پارٹی اور لائن آف کنٹرول سے وابستہ تاجروں کے خیرمقدمی بیانات کو سامنے رکھا جائے تو مقبوضہ کشمیر میں بےروزگاری کے پس منظر میں پاک بھارت تجارت بحال کرنے کی ضرورت اجاگر ہوتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں آتش فشاں کی صورت اختیار کرنے والے مسئلہ کشمیر کا حل لامحدود مدت تک ٹالا نہیں جا سکتا۔ اس باب میں کشیدگی ختم کرنے اور تنازعات کے پرامن تصفیے کی کوششیں دونوں ملکوں کے مفاد میں ہیں جبکہ تجارتی سرگرمیاں اعتماد سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اقوامِ متحدہ اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کی سازگار فضا پیدا کرنے کے لئے ازخود یا کسی دوسرے ذریعے سے دونوں ملکوں کی قیادتوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کا اہتمام کرے۔