کورونا سے نجات کی مؤثر حکمتِ عملی

April 02, 2021

ہماری بےخوف اور بےنیاز قوم آج کل مختلف وباؤں کا شکار ہے۔ سیاسی نفرت کے وائرس نے ہمارا شیرازہ منتشر کر دیا ہے اور ہمیں جاں لیوا سیاسی، معاشرتی، اقتصادی اور تہذیبی عوارض لاحق ہیں۔ وہ حکومت جو اپنے شہریوں کی جان، مال اور عزت کی حفاظت کرتی ہے اور عوام پر روزگار اور خوشحالی کے دروازے کھولتی ہے، وہ خود بےیقینی میں مبتلا ہے اور اپنے وزیروں اور مشیروں کو بےآبرو کرکے مکھن سے بال کی طرح نکال رہی ہے۔ جناب وزیرِاعظم نے دو سال کی حکمرانی کے بعد جرأتِ مردانہ سے اعتراف کیا تھا کہ اُنہیں گمبھیر ملکی مسائل سے واقفیت تھی نہ وسائل کی کمیابی کا علم تھا۔ اِس بےسروسامانی کے باوجود اُنہوں نے کورونا کی پہلی لہر کا بظاہر دانش مندی سے مقابلہ کیا مگر اب یہ راز منکشف ہو رہا ہے کہ اِس بلا پر قابو پانے کے سلسلے میں پروپیگنڈہ زیادہ تھا اور منصوبہ بندی ناقص تھی۔ اِسی کا یہ شاخسانہ ہے کہ اب ایک دن میں چار ہزار سے زائد لوگ متاثر ہو رہے ہیں اور اموات کی تعداد روزانہ سو سے تجاوز کرتی جا رہی ہے۔ ہمارے نظامِ صحت کی وحشت ناک کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ پہلے وزیرِاعظم اور اُن کی اہلیہ پر کورونا بڑی بےخوفی سے حملہ آور ہوا اور بعد ازاں ہمارے صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور وزیرِدفاع جناب پرویز خٹک بھی اِس کی زد میں آ گئے۔ پاکستان میں کورونا پہلی بار اُس وقت پھیلا تھا جب ہم ایران سے آنے والے زائرین کا صحیح طور پر چیک اپ اور بروقت علاج نہ کر سکے۔ اب اِس وبا کے پھیلاؤ اور اِس کی تباہ کاری میں جو شدت آئی ہے، اُس کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ ہمارے ایئرپورٹس پر کورونا چیکنگ کے خاطر خواہ انتظامات ہی موجود نہیں، چنانچہ برطانیہ سے آئے ہوئے مسافر کسی چیکنگ کے بغیر ایئرپورٹ سے باہر آ گئے اور وُہ شہروں اور قصبوں میں برطانیہ کی خطرناک وبا پھیلاتے گئے۔ حکومت کے متعلقہ اداروں پر لازم ہے کہ وہ باہر سے آنے والے مسافروں کی سخت چیکنگ کے قابلِ اعتماد اِنتظامات بروئےکار لائیں۔

دوسری تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ویکسی نیشن کا عمل تشویش ناک حد تک سست روی کا شکار ہے۔ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق اب تک آبادی کے صرف 0.2فی صد لوگوں کی ویکسی نیشن ہو ئی ہے۔ برطانوی کورونا کا یہ ہوش اڑا دینے والا پہلو بھی سامنے آ رہا ہے کہ اِس سے بچے بھی موت کی آغوش میں جا رہے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ہر شہری کی ویکسی نیشن کرنا ہو گی جبکہ ہمارے منصوبہ سازوں نے اتنی بڑی مقدار میں ویکسی نیشن کے بروقت حصول کا کوئی معقول بندوبست نہیں کیا۔ بس چین کی خیرات پر گزارہ کرتے رہے۔ ایک ہڑبونگ سی نظر آ رہی ہے اور وبا تیزی سے پھیلتی جا رہی ہے۔ زندگی کا ہر شعبہ معطل یا مفلوج ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اِس نازک ترین مرحلے میں اپوزیشن کا تعاون حاصل کرے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ایک ایسی حکمتِ عملی وضع کی جائے جو کورونا کی شدت میں کمی لائے، عوام کے اندر حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کا شعور اور عزم پیدا کرے اور تیز رفتار ویکسی نیشن کے عمل کو یقینی بنائے۔ یہ ہماری بقا کا مسئلہ ہے، اِس لئے ’توتو میں میں‘ کی جنگ بند ہونی چاہئے اور پوری توجہ زیادہ سے زیادہ آبادی کی ویکسی نیشن کے معیاری انتظامات پر ہونی چاہئے۔ مخیر حضرات کو آگے بڑھ کر اِس کارِخیر میں بڑے پیمانے پر حصّہ لینا چاہئے۔

جھنگ کے سرسید

اب ایک طرف کورونا کے پھیلاؤ کا خطرہ درپیش ہے اور دُوسری طرف اچھی شخصیتوں کے اُٹھ جانے کا المیہ بڑھتا جا رہا ہے۔ مارچ کے آخری ہفتے میں جناب گوہر صدیقی اٹھاسی سال دارِفانی میں گزار کر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے ہیں۔ وہ ریاست پٹیالہ سے 1947میں ہجرت کر کے شاہ جیونہ آئے تھے۔ فسادات میں اُن کے والد اور قریبی رشتےدار شہید ہوئے تھے۔ اِس علاقے کے نامور سیاست دان کرنل عابد حسین نے مہاجرین کی آبادکاری میں سرگرم حصّہ لیا تھا۔ صدیقی صاحب نے اوائل عمری میں تاریخ کے مطالعے سے یہ بھید پا لیا تھا کہ معیاری تعلیم ہی قوم کو عظیم بناتی ہے، چنانچہ اُنہوں نے یونیورسٹی کی تعلیم سے فارغ ہو کر پرائمری اسکول میں پڑھانا شروع کیا اور کالجوں کی بلندی تک جا پہنچے۔ 64سال تک شعبہ تدریس سے وابستہ رہے اور اِس دوران اسّی ہزار گریجویٹس تیار کیے۔

تعلیم و تدریس کے ساتھ اُن کا عشق فزوں تر ہوتا گیا اور اُنہوں نے اعلیٰ معیار کے 24تعلیمی ادارے قائم کیے جن میں ہزاروں طلبہ تعلیم و تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ اُن کا سب سے بڑا کارنامہ جھنگ میں کیڈٹ کالج کا قیام ہے جس میں طلبہ کے ساتھ طالبات بھی تعلیم حاصل کرتی ہیں جو پاکستان کے ہر علاقے سے آتی ہیں۔ اُن کا بڑا بیٹا صہیب فاروق نیوی میں پائلٹ تھا۔ اُس سے کہا ملازمت سے استعفیٰ دے کر کیڈٹ کالج کا انتظام و اِنصرام سنبھالو جہاں ہزاروں کیڈٹ تیار ہوں گے۔ اُنہوں نے والد کی خواہش کا احترام کیا اور آج وہ ایک وسیع و عریض کیڈٹ کالج چلا رہے ہیں جس کی خوشبو دُور دور تک پھیلتی جا رہی ہے۔ جناب گوہر صدیقی نے 1990اور 1995کے درمیان تین ایسے ادارے قائم کیے جو تعلیم و تدریس کی دنیا میں ایک خاموش انقلاب لا رہے ہیں۔ اسلام کی آفاقی تعلیمات کے مطابق اعلیٰ معیار کی نصابی کتابیں ’آفاق‘ تیار کر رہا ہے۔ اسلامی معیار کے ہزاروں تعلیمی ادارے ’غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ‘ چلا رہا ہے۔ اساتذہ کی عمدہ تربیت کی ذمےداری ’اسلامی نظامتِ تعلیم‘ کے سپرد ہے۔ ان کی زندگی کا یہ پہلو بھی مدتوں یاد رہے گا کہ وہ اوائل جوانی ہی میں جماعتِ اسلامی سے وابستہ ہو گئے جس نے اُنہیں فرقہ واریت سے بلند کر دیا اور اُنہیں امیر جماعتِ اسلامی مولانا مودودی کی مجلسِ شوریٰ میں برسوں کام کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ انہوں نے تنظیمِ اساتذہ میں کلیدی کردار اَدا کیا اور پنجاب یونیورسٹی کی سینیٹ میں دو بار برادرِ مکرم ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کے ساتھ گریجویٹس کی نمائندگی کی۔ اللہ تعالیٰ جھنگ کے سرسید کے درجات بلند فرمائے اور اُن کے پس ماندگان کو اُن کی وراثت کو آگے بڑھانے کی توفیق عطا کرے!