کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

April 02, 2021

کورونا کی تیسری لہر قہر ڈھا رہی ہے۔ گزشتہ دو لہروں کے مقابلے میں موجودہ لہر میں متاثرین اور اموات کی شرح کہیں زیادہ ہے۔ ماہرین کے مطابق ابھی اس میں مزید تیزی کا امکان ہے۔ کورونا گویا ایک عذاب ہے۔ اس میں نہ حکومت کا کوئی قصور ہے نہ حکومت اس کی ذمہ دار بلکہ اس کے پھیلائو کے ذمہ دار خود عوام ہیں جو اس جان لیوا وبا کو سنجیدہ لینا تو کیا اکثر لوگ اس کو مذاق اور حکومتی پروپیگنڈہ سمجھتے ہیں۔ ہم کتنے عجیب لوگ ہیں کہ ہمیں اپنی جانوں کی بھی پروانہیں ہے۔ حکومت لاکھ سمجھاتی رہے، ہم اس کو اپنے لئے خطرناک سمجھنے اور تسلیم کرنے کے بجائے اس میں بھی حکومتی مفاد تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ٹریفک قوانین اور اصولوں پر عملدرآمد کو توہین سمجھتے ہیں۔کورونا ایس اوپیز کو نظر انداز کرنا بھی اپنی بہادری سمجھتے ہیں۔ حکومت کے متعلقہ ادارے اور صحت سے متعلقہ شعبے تو چھوڑیں خود وزیر اعظم بار بار قوم سے اپیلیں کر رہے ہیں کہ عوام احتیاط کریں۔ ایس او پیز پر عمل کریں لیکن مجال ہے کہ ہم کورونا کو جان لیوا وبا تسلیم کریں۔ یہ دیکھتے جانتے ہوئے کہ اسپتال متاثرین کورونا سے بھر گئے ہیں۔ مرنے والوں کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ طبی عملے کی اموات میں اضافہ نہایت افسوسناک ہے۔ ڈاکٹرز، نرسزاور دیگر عملہ کے متاثر ہونے اور ان کی اموات ملک و قوم کے لئے افسوس اور نقصان کو سمجھنا چاہئے۔ اسپتالوں میں لوگوں کی جانیں بچانے کی کوششوں میں مصروف یہ طبی عملہ اور ڈاکٹرز قوم کے لئے اپنی جانیں دائو پر لگا رہے ہیں۔ ان سب کو میرا اور پوری قوم کا سلام ہے۔ اسپتالوں میں پڑے کورونا متاثرین اور اس وبا سے جاں بحق ہونے والے ہم ہی میں سے ہیں، کیا معلوم ان میں سے بہت سے ایسے ہوں جو ہماری طرح اس وبا کو مذاق سمجھتے تھے اور احتیاط اور ایس او پیز پر عمل کرنےکو اپنی توہین سمجھتے تھے۔ اس لئے خدارا! اپنے اور اپنے پیاروں کی خاطر احتیاط کریں۔ ایس او پیز پر بغیر حکومتی زبردستی اور ڈنڈے کے عمل کریں، جان ہے تو جہان ہے۔ کسی کے مر جانے سے دنیا کا نظام نہیں رکتا، کاروبار بھی ہوتے رہیں گے۔ دنیا کے معاملات بھی اسی طرح چلتے رہیں گے۔ لیکن آپ کے نہ ہونے سے آپ کے زیرِ کفالت افراد اور متعلقین بے سہارا ہو جائیں گے۔ خدا کیلئے سوچئے۔

اس وقت حکومت نے ایک اور ایشو کھڑا کر کے ماحول کو گرما دیا ہےاور وہ ہے بھارت کے ساتھ تجارت کھولنا، حالانکہ حکومت نے خود ہی پابندی لگائی تھی اور کہا تھا کہ جب تک بھارت مقبوضہ کشمیرکی مخصوص حیثیت کو بحال نہیں کرتا،بھارت کے ساتھ تجارت تو کیا مذاکرات بھی نہیں کئے جائیں گے۔ ہمارے وزیر اعظم صاحب نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو ہٹلر ثانی قرار دیا تھا اور خود کو کشمیریوں کا سفیر ۔لیکن نہ تو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی سابق حیثیت اور آرٹیکل370کو بحال کیانہ کشمیریوں پر روا رکھے گئےظلم و بربریت کو ختم کیااورنہ ہی کشمیری سیاسی قیادت اور بے گناہ کشمیری نوجوانوں کو قیدو بند سے رہائی ملی۔ آج بھی کشمیری مائوں اور بہنوں کی عزتیں محفوظ نہیں۔آج بھی کشمیری اپنی ہی سر زمین پر دوسرے درجے کے شہری ہیں۔ آج بھی کشمیری اپنے حق خودارایت سے محروم ہیں۔ آج بھی مقبوضہ کشمیر کی گلیوں اور بازاروں میں بھارتی فوجی اور پولیس اہلکار دندناتے پھر رہے ہیں۔ مطلب یہ کہ مقبوضہ کشمیر میں آج بھی کشمیری بھارتی ظلم و جبر کا شکار ہیں۔ پھر ایساکیا ہوا کہ ہم بھارت کے ساتھ تجارت کھولنے کیلئے فوراً تیار ہو گئے؟ ایسا نہ ہو کہ کل یہ بھی فوج کے کھاتے میں ڈال دیا جائے اور حکومت کہے کہ’’ ہم تو ایسا ہرگز نہیں چاہتے تھے کہ اندرون ملک تو یو ٹرن لیتے ہی تھے کیونکہ یوٹرن تو اچھے ہوتے ہیں‘‘اب کشمیر پر بھی اپنی باتوں اور وعدوں سے تاریخی یو ٹرن لے کر کشمیریوں کو حیران اور ان کی مایوسیوں میں اضافہ کر دیا یہ سب کچھ ہم نے ’’اوپر ‘‘ کے دبائو پر کیا۔

کہا جاتا ہے کہ بعض دوست اسلامی ممالک کے کہنے پر یہ ارادہ کیاگیا ہے۔تو کیا ہم اسی طرح کسی کے کہنے پر کل کشمیر سے مکمل دستبردار نہیں ہو جائیں گے ؟ کیا ہم ایسے ہی دوستوں کے کہنے پر کل اسرائیل کو بھی تسلیم کر لیں گے؟۔ میں یہ نہیں کہتا کہ بھارت کے ساتھ تجارتی یا دیگر تعلقات کے قیام کا مشورہ دینے والے دوستوں نے بھارت میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ سب ملکوں کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں لیکن یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ ’’کشمیر ہماری شہ رگ ‘‘ہے۔ یہ بات بھی کوئی نہ سمجھے کہ حکومت نے پہلے چینی اور گندم باہر بھیجنے کی اجازت دی۔ کپاس کا بیڑہ غرق ہو رہا تھا کسی نے توجہ نہ دی۔ اب چینی، گندم اوردھاگہ باہر سے بلکہ بھارت سے منگوانے کا پکا ارادہ ہے۔ یعنی’’اِدھر کا مال اُدھر’’، اُدھر کا مال اِدھر ‘‘ ۔یہ کیا ہو رہا ہے۔ کشمیری آس لگا کر بیٹھے ہیں۔ یہاں باہر سے اجناس منگوا کر اپنے کسان کا ستیا ناس کیا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ نہ کشمیریوں کو سمجھ آ رہا ہے نہ پاکستانیوں کو۔ بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا۔ کچھ نہ سمجھے خداکرے کوئی(غالب)۔