سایہ دیوار

June 09, 2013

دنیا کی یہ ریت ہے کہ چڑھتے سورج کی سب پوجا کرتے ہیں۔ ڈوبتے چاند کو کوئی نہیں دیکھتا۔ ایک خوبصورت شعر ہے
ڈوبتے چاند کے پیلے آنسو کلی کلی پہ شبنم تھے
چڑھتا سورج دیکھتے ہی دیکھتے ہر گوشے میں پھیل گیا
اور ظاہر ہے کہ جب کڑی دھوپ میں جھلستی جنتا کو آسرا سہارا نظر آئے گا تو سب ”سایہ دیوار“ کی جانب ہی جائیں گے لیکن حضرت ریاض خیر آبادی نے کیا خوب کہا ہے
یہ کس کے سایہ دیوار نے مجھے پیسا
یہ کون ٹوٹ پڑا مجھ پہ آسماں کی طرح
اس وقت ہمارے ملک میں ایک تبدیلی آئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور اسکے حامیوں نے اسے ”روشن پاکستان“ کا نام دیا ہے اور ظاہر ہے کہ سب کی یہی آرزو اور خواہش ہے کہ ہمارا ملک روشن ہو۔ روشن رہے اور اس کی روشنی دور دور تک یوں پھیلے کہ سارا جگ جگمگا اٹھے۔ اٹھارہ کروڑ عوام ہی نہیں سارا عالم اسلام ایک مدت سے ”روشن پاکستان“ کا منتظر ہے کہ ادھر سے روشنی ہو گی تو عالم اسلام بھی اس سے رہنمائی حاصل کریگا۔ حضرت علامہ اقبال کا یہی خواب تھا اور ہمارے قائد کی یہی خواہش تھی۔ یہی کہا گیا تھا کہ پاکستان ”اسلام کا قلعہ“ ہو گا۔ لیکن حضرت قائداعظم کی وفات اور نوابزادہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد صورتحال کچھ یوں ہوئی
نیرنگی سیاستِ دوراں تو دیکھئے
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
معروف شاعر کنور مہندر سنگھ نے یوں منظر کشی کی ہے
بنیاد کی ہر اینٹ پہ لکھا تھا میرا نام
دیوار تیرے نام سے منسوب ہوئی ہے
وہ تمام حقیقتیں جو جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے دیکھی تھیں ”خواب“ میں تبدیل ہو گئی اور پاکستان کے قیام کے بعد ملک ”مسائل و مصائب“ میں ایسا جکڑا گیا کہ حکمران ان کے سدباب پر توجہ دینے کے بجائے ”اپنا گھر بھرنے“ میں ایسے مصروف ہوئے جو ”دکھ و غم“ کی لمبی داستان ہے اس دوران اپنے ہی ہاتھوں جس چمن کا ایک بازو جبراً کاٹ دیا گیا جو باقی بچا اسے بھی اس میں جمہوریت پر ایسا شب خون مارا گیا کہ دو بار طویل آمریت کا قبضہ رہا اور آمر بھی ایسے جو ”نئی جمہوریت“ کے تجربے کرتے رہے۔ سب کچھ تباہ و برباد ہو گیا۔ 2008ء میں عام انتخابات کے بعد ”کچھ سکھ کے سانس“ نصیب تو ہوئے لیکن ”وقت کے حکمرانوں“ نے ”سب پر بھاری ہے“ پر ہی توجہ دی تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہ کیا جس کی وجہ سے سارا ملک کرپشن میں ڈوب کر بدترین لوڈ شیڈنگ کے اندھیروں میں ایسا ڈوبا کہ صنعت کا پہیہ جام ہو گیا۔ لاکھوں مزدور بے روزگار ہو گئے اور ”روشنیوں کے شہر“ خاک و خون میں نہا گئے۔ یہ حقیقت ہے اسے بے جا تعریف یا خوشامد نہ کہا جائے کہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب تھا تو اردگرد کی بلاوؤں سے محفوظ رہا اور اس صوبہ میں تعمیر و ترقی کو کسی حد تک جاری رکھا گیا یہی وجہ ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں ”خادم پنجاب کی خدمت“ کا صلہ ملا اور خوب ملا اب مرکز اور صوبوں میں منتخب حکومتیں قائم ہو چکی ہیں۔ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف، سندھ میں پیپلز پارٹی، پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے وزرائے اعلیٰ نے حلف اٹھا لیا ہے۔ بلوچستان میں پہلی بار غیر سردار وزیر اعلیٰ بنایا گیا ہے۔ اس صوبہ میں امن و امان بحال کرنا سب کے لئے بڑا چیلنج ہے۔ جمعرات کو میاں شہباز شریف پہلے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے اور شام کو گورنر ہاؤس میں حلف اٹھایا۔ تقریب کا گورنر ہاؤس کے لان میں اہتمام کیا گیا تھا لیکن آندھی نے کچھ گڑبڑ کر دی۔ بڑی تعداد میں پارٹی کارکن، ارکان، افسران اور ہر طبقہ کے لوگ موجود تھے۔ تقریب انگریزی میں ہوئی اور خادم پنجاب نے انگریزی میں حلف اٹھایا۔ خبر یہ ہے کہ شہباز میاں اردو میں حلف لینا چاہتے تھے لیکن گورنر ہاؤس کی جانب سے معذرت کی گئی وجہ خبر میں پڑھ لیں میں ذکر یوں نہیں کرنا چاہتا کہ جناب گورنر بھی عزیز ہیں۔ تاہم شہباز میاں نے پنجاب اسمبلی میں تیسری بار وزیر اعلیٰ پنجاب ہونے کے بعد تقریر کرتے ہوئے کہا ہے اور یہ نہ صرف پنجاب بلکہ وزیراعظم اور سارے ملک کا مشترکہ ایجنڈا ہے کہ بجلی کے بحران پر قابو پانے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائیں گے۔ ان کا یہ کہنا درست ہے کہ ”لوڈ شیڈنگ“ نے ملکی جڑوں کو ہلا دیا ہے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے بھی برسراقتدار آتے ہی پہلا کام ”انرجی کانفرنس“ سے ہی کیا ہے۔ جب سب مل کر آگے بڑھیں گے تو اتفاق میں برکت ہو گی اور کوئی وجہ نہیں کہ بجلی کے بحران کو ”پٹا “نہ ڈالا جا سکے۔ شہباز میاں کو اور وعدے کرنے کی زیادہ ضرورت یوں نہیں کہ ماضی میں ان کے کام بولتے ہیں اور جہاں سے روکے تھے وہیں سے دوبارہ شروع کر دیئے جائیں گے۔ لیکن ایسا کرنے کیلئے افہام و تفہیم کی فضاء قائم کرنے اور اسے برقرار رکھنے کی اشد ضرورت ہے اور چوکس رہنے کی بھی کہ جب کرپشن، سفارش مافیا پر ہاتھ پڑے گا تو ”باریک کام“ سر اٹھانے کی کوشش تو کریں گے اور سب سے اہم یہ کہ صوبائی کابینہ کچھ مختصر رکھی جائے اور ماضی کی طرح مشیروں اور کوارڈنیٹروں کی فوج نہ بھرتی کی جائے۔ اس بار وزیر اعلیٰ ”اچھے نگران“ کے فرائض سرانجام دیں اور اپنی ٹیم کو کام کرنے کا ”فری ہینڈ“ دیا جائے آخر میں شہباز میاں نے اسمبلی میں تقریر کے شروع میں جو شعر پڑھا اس کا ذکر
تیری پسند تیرگی میری پسند روشنی
تو نے دیا بجھا دیا میں نے دیا جلا دیا
نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم اپنی تقریروں میں اکثر یہ شعر پڑھا کرتے تھے
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں تھی
میری دعا ہے کہ اللہ کرے یہ ”تیرگی“حسن بن جائے!