خودکشی کرنے والے اور مقروض کی نمازِ جنازہ

April 09, 2021

تفہیم المسائل

سوال:اگر کوئی شخص خودکشی کرلے ،تو اُس کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی یا نہیں؟،(منوراحمد ، کراچی )

جواب : حدیث پاک میں ہے :ترجمہ:’’ حضرت جابربن سمرہؓ بیان کرتے ہیں : رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایک شخص (کا جنازہ) لایا گیا ، جس نے اپنے آپ کو ایک تیر سے ہلاک کر لیاتھا، آپ ﷺ نے اس کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھی ،(صحیح مسلم:2259)‘‘۔امام اعظم ابوحنیفہؒ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور جمہور علماء کا مسلک یہ ہے کہ خودکشی کرنے والے شخص کی بھی نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی، مذکورہ حدیث کے جواب میں کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے زجروتوبیخ کے لیے اس کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھی، تاکہ لوگ خودکشی سے باز رہیں اور صحابۂ کرامؓ نے اس کی نمازِ جنازہ پڑھ لی تھی ۔

علامہ علاء الدین حصکفیؒ لکھتے ہیں :ترجمہ:’’اور ایسا شخص، جس نے خود کشی کی ، خواہ جان بوجھ کرکی ہو، اُسے غسل دیا جائے گا اور اُس کی نمازِ جنازہ بھی پڑھی جائے گی ،اِسی پر فتویٰ ہے، اگرچہ اس(خودکشی کرنے والے) کا گناہ اس شخص سے زیادہ ہے جس نے کسی دوسرے شخص سے لڑائی کی ہو (اورخود مارا گیا ہویا دوسرے کو قتل کیا ہو )، اور علامہ کمال الدین ابن ہُمامؒ نے دوسرے (یعنی امام ابویوسفؒ کے) قول کو ترجیح دی ،کیونکہ صحیح مسلم میں حدیث ہے: ’’ایک خود کشی کرنے والے شخص کا جنازہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لایا گیا ، تو آپ ﷺ نے اس کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھی ‘‘،علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں :ترجمہ:’’ میں کہتا ہوں :’’یہ کہاجا سکتا ہے کہ اس حدیث میں اس امر پر کوئی دلالت نہیں کہ خودکشی کرنے والے کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی ،کیونکہ اس میں صرف اتنی بات ہے کہ آپ ﷺ نے (زجر وتوبیخ کے طورپر)خود اس کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھی،بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے اس کا جنازہ ا س لیے نہیں پڑھا،تا کہ دوسروں کو عبرت حاصل ہو اور کوئی خودکشی کی جسارت نہ کرے ،جیسے آپ ﷺ نے خود مقروض کا جنازہ پڑھنے سے منع فرمادیا تھا (جس کی بناء پر اس کے قرض کی ادائیگی کی سبیل بن گئی )،اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کسی صحابی نے بھی اس کا جنازہ نہ پڑھا ہو،(ردالمحتار علیٰ الدر المختار، جلد3،ص:102) ‘‘ ۔ تاہم رسول اللہ ﷺ کے عبرت آموز طرزِ عمل کی اتباع کرتے ہوئے کسی بڑے عالم کو خودکشی کرنے والے کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھانی چاہیے ، عام اَئمہ حضرات پڑھا سکتے ہیں۔علامہ ڈاکٹر وھبہ الزحیلیؒ نے لکھا ہے کہ:’’ شوافع کا مفتیٰ بہ ٖ قول بھی یہی ہے کہ خود کشی کرنے والے کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی،(الفقہ الاسلامیہ واَدِلّتہٗ ،جلد:02،ص:1509)‘‘۔

علامہ یحییٰ بن شرف نووی ؒلکھتے ہیں:ترجمہ:’’امام حسن ؒ،امام نخعیؒ ،امام قتادہ ؒ، امام مالکؒ، امام ابوحنیفہؒ ،امام شافعی ؒاور جمہور علماء نے کہا ہے: (خود کشی کرنے والے کی )نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی، انھوں نے اس حدیث کا یہ جواب دیا ہے :’’نبی اکرمﷺ نے لوگوں کو خود کشی جیسے قبیح فعل کی سنگینی پر متوجہ کرنے کے لیے خود،خود کشی کرنے والے کی نماز جنازہ نہیں پڑھی اور صحابۂ کرامؓ نے اس کی نمازِ جنازہ پڑھی ہے، یہ ایسا ہی ہے جیسے نبی اکرمﷺ نے ابتداء ً مقروض کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھی ،تاکہ لوگ قرض لینے اور قرض کی ادائیگی میں تساہل نہ برتیں اور آپ نے صحابۂ کرام ؓکو نمازِ جنازہ پڑھنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: اپنے ساتھی کی نمازِ جنازہ پڑھو، (شرح صحیح مسلم للنووی، ج:7،ص:47)‘‘۔

مقروض کی نمازِ جنازہ سے متعلق حدیثِ پاک میں ہے :ترجمہ:’’ابوقتادہ ؓبیان کرتے ہیں: نبی اکرم ﷺ کے پاس انصار کے ایک شخص کی میت لائی گئی، تاکہ آپ اس کی نماز جنازہ پڑھادیں، نبی اکرمﷺ نے فرمایا: تم لوگ اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو کیونکہ اس پر قرض ہے، ابوقتادہ ؓنے کہا:یہ میرے ذمہ ہے، نبی اکرم ﷺنے فرمایا:تم یہ قرض اداکردوگے ؟ انہوں نے عرض کی:ہاں! میں اس کی ادائیگی کروں گا، تب آپﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی،(سُنن ترمذی:1069)‘‘۔

رسول اللہ ﷺ کے اس عملِ مبارک سے ایک تو لوگوں پر بلاضرورت قرض لینے یا قرض لے کر ادانہ کرنے کی سنگینی واضح ہوئی اور مزید یہ کہ حضرت ابوقتادہ ؓ کے ذریعے اس کی ادائیگی کا اہتمام بھی ہوگیا ،اگر یہ شِعار اب بھی رائج ہوجائے کہ میت کی نمازِ جنازہ سے پہلے اُس کے ذمے واجب الادا قرض کی ادائیگی کا اہتمام کیا جائے ، تو میت پر آگے کی منازل آسان ہوں گی اور شاید بعض صورتوں میں نادار لواحقین کے لیے آسانی پیدا ہوجائے ۔