چینی کا لامتناہی بحران

April 12, 2021

شوگر مل مالکان اور حکومت کے درمیان پائے جانے والے ڈیڈ لاک کے باعث ڈیلروں کو چینی کی سپلائی بحال نہ ہونے سے مارکیٹ میں اس کا بحران طول پکڑ گیا ہے اور پریشان حال شہری مقررہ سے زیادہ نرخوں پر چینی خریدنے پر مجبور ہیں جبکہ روز مرہ ضرورت کی یہ شے سرکاری قیمت پر کسی جگہ دستیاب نہیں۔ مقدمات اور جرمانوں کے ڈر سے منافع خوروں نے مارکیٹ سے چینی اٹھالی جو مارکیٹ میں سر دست 110روپے کلو فروخت ہو رہی ہے۔ اگر صورتحال جوں کی توں رہی تو آگے کا کوئی پتا نہیں کیا کیفیت ہو۔ یہ حکومت کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ دوسری طرف مسابقتی کمیشن پنجاب کی جانب سے قیمتوں کے بارے میں جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ چینی کی ایکس مل قیمت 80اور پرچون میں 85روپے مقرر کردی گئی ہے تاہم اس سے صارفین کے حقوق کا تحفظ ممکن نہیں ہوگا۔ رپورٹ میں سپلائی باقاعدہ بنانے کے لئے صنعتی سطح پر قیمتیں ڈی ریگولیٹ، آزادانہ نقل و حمل اور سرکاری مداخلت کم کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ متذکرہ رپورٹ کو اگر ماضی کے تناظر میں دیکھا جائے تو تین سے چار سال قبل مقابلہ و مسابقت کی فضا میں مارکیٹ میں چینی 36سے 40روپے فی کلو فروخت ہو رہی تھی۔ ملک میں اس کی قلت نہ ان دنوں تھی اور نہ ہی آج ایسی صورتحال درپیش ہے۔ اس ضمن میں یہ پہلو بھی ملحوظ رہنا چاہئے کہ بہت سے سرکاری اہلکار خود چینی کی اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ میں ملوث ہیں جو منافع خوروں کو نئی راہیں دکھاتے ہیں۔ یہ منظم مافیا ملک بھر میں سرگرم ہے۔ فی الواقع یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ پاکستان جو ایک زرعی ملک ہے اس کا شمار وسیع پیمانے پر گنا پیدا کرنے والے ملکوں میں ہوتا ہے جس کی پیداوار ملکی ضرورت کے لئے کافی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ساری صورتحال کا بنظر غائر جائزہ لے کر غذائی ضروریات کے بارے میں خامیوں سے پاک ٹھوس منصوبہ بندی کی جائے۔