نئی مردم شماری!

April 14, 2021

مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) نے بالآخر کثرتِ رائے سے 2017کی مردم شماری منظور کرتے ہوئے فوری طور پر نئی مردم شماری کرانے کا فیصلہ کر لیا جبکہ آئندہ عام انتخابات کے علاوہ مقامی حکومتوں کے الیکشن بھی نئی مردم شماری کی بنیاد پر ہی ہوں گے۔ ملک میں آخری بار مردم شماری 2017میں کی گئی تھی جس کے نتائج پر سندھ کی طرف سے شدید تحفظات سامنے آئے اور پیپلز پارٹی ہی نہیں متحدہ قومی موومنٹ کا موقف بھی یہ تھا کہ سامنے آنے والے اعداد و شمار حقیقی آبادی سے کم ہیں۔ لہٰذا یہ مسئلہ ساڑھے تین برس سے زائد عرصے سے سی سی آئی کے ایجنڈے پر چلا آرہا تھا۔ بدھ 7اپریل 2021کے اجلاس میں اس معاملے کو پیر 12اپریل کے اجلاس تک ملتوی کردیا گیا تھا۔ وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت پیر کے روز منعقدہ اجلاس کے بارے میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کی پریس بریفنگ کے بموجب وفاق کے 7اراکین، بلوچستان پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے وزرائے اعلیٰ نے مردم شماری کی منظوری کے حق میں جبکہ وزیراعلیٰ سندھ نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔ وزیر منصوبہ بندی کی گفتگو سے واضح ہے کہ اس بار مردم شماری پرانے طریق کار سے نہیں ہوگی۔ ان کے بیان کے مطابق چند ماہ قبل ڈپٹی کمشنر پلاننگ کمیشن کی سربراہی میں ایک ٹیکنیکل کمیٹی بنائی گئی ہے جس میں سرکاری لوگوں کے علاوہ مردم شماری پر مہارت رکھنے والے شماریاتی ماہرین شامل ہیں اور کافی حد تک کام مکمل بھی کر چکے ہیں۔ اگلےچھ سے آٹھ ہفتوں کے اندر نئی مردم شماری کا فریم ورک تیاراور جون کے وسط تک یہ عمل مکمل کرلیا جائے گا جس کی مشترکہ مفادات کونسل سے منظوری کے بعد اسی سال اکتوبر تک کام شروع ہو جائے گا جو 18مہینوں پر محیط ہوگا اور 2023کے ابتدائی چھ ماہ میں مکمل ہو جائے گا۔ یہ بھی واضح کیا گیا کہ نئی مردم شماری کے ضمن میں تمام شراکت داروں، صوبائی حکومتوں اور سول سوسائٹی کا تعاون حاصل کیا جائے گا تاکہ کسی کو کوئی خامی نظر آئے تو اس کی بروقت نشاندہی و اصلاح ممکن ہو۔ 2017کی مردم شماری کی منظوری کیوں دی گئی؟ اس باب میں وزیر منصوبہ بندی کا کہنا تھا کہ مشترکہ مفادات کونسل میں مردم شماری کے آڈٹ کا طریقہ نہیں ہے۔ مردم شماری کو منظور کرنا یا مسترد کرنا ضروری ہے۔ ہم نئی مردم شماری کرانے سے قاصر ہیں اور پرانی مردم شماری ہمیں قبول نہیں جبکہ مردم شماری کو منظور یا مسترد کئے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ اس صورتحال کے پیش نظر سی سی آئی اجلاس میں کثرت رائےسے یہ فیصلہ کیا گیا کہ اگلی مردم شماری کیلئے دس سال انتظار کرنے کی ضرورت نہیں۔ چونکہ 2017کے مردم شماری نتائج سوالیہ نشان ہیں اس لئے فوری طور پر نئی مردم شماری کرالی جائے۔ بریفنگ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مردم شماری پر اخراجات کا تخمینہ 23ارب روپے لگایا گیاہے جو فراہم کردیئے جائیں گے۔ دعویٰ کیا گیا کہ نئی مردم شماری اقوام متحدہ کے اصولوں اور دنیا میں مروجہ جدید طریق کار کو بروئے کار لاتے ہوئے کرائی جائے گی۔ یہ نکتہ بھی سامنے آیا کہ 2023کے الیکشن سے پہلے مردم شماری پر حتمی فیصلہ نہ ہوا تو آئینی ترمیم کا استثنیٰ ختم ہونے کے سبب اگلا الیکشن 1998کی مردم شماری کی بنیاد پر ہوگا جس کے نتیجے میں صوبوں کو نقصان ہوگا۔ مردم شماری فوج کی نگرانی میں کرائی جائے یا نہ کرائی جائے، اس کا فیصلہ اگرچہ مشترکہ مفادات کونسل کوکر نا ہے، مگر دونوں صورتوں میں انتظام و انصرام میں صوبائی انتظامیہ کی اہمیت نظر انداز نہیں کی جا سکتی اس لئے صوبائی حکومتوں کو یہ خیال رکھنا ہوگاکہ مردم شماری ہر اعتبار سے معتبر ہو۔ اس ضمن میں جدیدٹیکنالوجی سے مدد لی جا سکتی ہے۔ اسی طرح الیکشن کو سب کیلئے قابلِ قبول بنانے کیلئے بھی مختلف ملکوں میں استعمال کئے گئے طریقوں سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔