مجھے جج کے عہدے سے ہٹانا چاہتے ہیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

April 15, 2021

نظرثانی کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہتحریک انصاف کی نظرثانی درخواست میں کہا گیا کہ وہ جج بننےکے اہل ہی نہیں، فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ دینے پر انہیں بطور جج سپریم کورٹ کےعہدے سے ہٹاناچاہتے ہیں۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرِثانی کیس کی سماعت آئندہ پیر تک ملتوی کر دی۔

دورانِ سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اس وقت سائے حکمرانی کررہے ہیں، ایسیٹ ریکوری یونٹ قانونی وجود نہیں رکھتا، شہزاد اکبر پی ٹی آئی کارکن ہے، جیل میں ہوناچاہیے،شہزاد اکبر بااثرشخص ہےاس لیے اس سے کوئی نہیں پوچھتا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان میں کیس کی سماعت جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ نے کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ سرینا عیسیٰ کے ہمراہ عدالت پہنچے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وزیرِ قانون کیس میں پارٹی ہونے کے باوجود عدالت میں نہیں ہیں، فروغ نسیم نے مجھ پر اور میری اہلیہ پر سنگین الزامات لگائے، میرے خلاف ریفرنس کالعدم قرار دینے کا فیصلہ آئین و قانون پر مبنی تھا، ریفرنس میں معاملہ ایف بی آر کو بھیجنا غیر آئینی تھا۔

انہوں نے کہا کہوزیرِ قانون فروغ نسیم نے حلف کی خلاف ورزی کی، انہیں فوری برطرف کیا جانا چاہیئے۔

انہوں نے کہا کہ میری اہلیہ کیس میں فریق نہیں تھیں، پھر بھی ان کے خلاف فیصلہ دیا گیا، فروغ نسیم کے لیے عدالت کا احترام نہیں، وزرات ضروری ہے، آرٹیکل 184/3 بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے ہے، میری بیٹی، بیٹے کو ایف بی آر نوٹس کا حکم بنیادی حقوق کے زمرے میں نہیں آتا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کسی کے ٹیکس ریکارڈ کی جاسوسی کی جائے تو اس پر فوجداری مقدمہ بنتا ہے، ججز سے غلطی ہو جائے تو نظرِثانی کا اختیار حاصل ہے، عدالتی حکم آئین اور متعدد قوانین کے خلاف ہے، وزیرِ قانون نے دلائل میں انکم ٹیکس قانون کی دفعہ 198 کو بنیادی حقوق کے خلاف قرار دیا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ سماعت مکمل ہونے کے بعد بھی فروغ نسیم تحریری دلائل جمع کراتے رہے، پہلی بار کوئی وزیرِ قانون ہے جس نے آئینِ پاکستان کو بنیادی حقوق سے متصادم قرار دیا ہے، فروغ نسیم نے حلف کی خلاف ورزی کی، انہیں فوری برطرف کیا جانا چاہیئے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ تفصیلی فیصلہ آنے سے پہلے ہی ایف بی آر کو کارروائی مکمل کرنے کا کہا گیا، ٹیکس کمشنر ذوالفقار احمد نے عدالت کے دباؤ میں آ کر کارروائی کی، سپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان نے بدنیتی پر مبنی کارروائی کی، سپریم جوڈیشل کونسل نے کبھی مجھے صفائی کا موقع نہیں دیا، کونسل نے انصاف کا قتلِ عام کیا۔

انہوں نے کہا کہ صدر نے میرے 3 خطوط کا جواب تک دینا گوارا نہیں کیا، مجھے ریفرنس کی کاپی نہیں ملی لیکن میڈیا پر بینڈ باجا شروع ہو گیا، میرے اور اہلِ خانہ کے خلاف ففتھ جنریشن وار شروع کی گئی، آصف سعید کھوسہ نے میرا مؤقف سنے بغیر میری پیٹھ میں چھرا گھونپا، میرے ساتھی ججز نے جوڈیشل کونسل میں مجھے پاگل شخص قرار دیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دلائل میں کہا کہ کہا گیا کہ عمران خان کی فیملی کے بارے میں بات نہیں ہو سکتی، عمران خان کرکٹر تھے تو ان کا مداح تھا، آٹوگراف بھی لیا، وہ بھی ایک انسان ہیں، جسٹس عظمت سعید میرے دوست تھے لیکن ان کے فیصلے پر دکھ ہوا، جسٹس عظمت سعید آج حکومت کی پسندیدہ شخصیت ہیں، ملک کو باہر سے نہیں اندر سے خطرہ ہے، پاکستان کو باہر سے کوئی ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا۔

جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں جو غلطیاں ہیں ان کی نشاندہی کریں، سپریم جوڈیشل کونسل کے بارے میں آپ کے وکیل نے دلائل نہیں دیئے تھے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میری درخواست کا ایک حصہ ریفرنس، دوسرا جوڈیشل کونسل سے متعلق تھا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کے وکیل نے جوڈیشل کونسل والے حصے پر دلائل نہیں دیئے تھے، سپریم جوڈیشل کونسل والے حصے پر نظرِثانی میں دلائل کیسے دے سکتے ہیں؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالت نے ریفرنس کو اپنے فیصلے میں زندہ رکھا ہے، وحید ڈوگر سمیت کسی درخواست گزار کو دلائل دینے کا موقع نہیں دیا گیا، میں خون کے آخری قطرے تک لڑوں گا، ہمت نہیں ہاروں گا، مجھے بطور سپریم کورٹ کے جج کے عہدے سے ہٹانا چاہتے ہیں، مجھے ہٹانے کی خواہش کی وجہ یہ ہے کہ میں نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ دیا۔

انہوں نے کہا کہ مرحوم خادم رضوی نے بھی فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے خلاف نظرِثانی اپیل دائر نہیں کی، خادم رضوی کے علاوہ باقی سب نے فیض آباد دھرنا فیصلہ چیلنج کیا، تحریکِ انصاف اور ایم کیو ایم نے بھی فیض آباد دھرنے کے فیصلے پر نظرِثانی کی اپیل دائر کی، تحریکِ انصاف کی نظرِثانی کی درخواست میں کہا گیا کہ میں جج بننے کا اہل ہی نہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں واقعی جج بننے کا اہل نہیں کیونکہ میں بنیادی حقوق کی بات کرتا ہوں۔

دورانِ سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس منیب اختر کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جو بات میں نے کی نہیں وہ مجھ سے منسوب مت کریں، میں نے صرف ایک سوال پوچھا ہے۔

جسٹس منظور احمد ملک نے کہا کہ جج صاحب آپ پارٹی نہ بنیں بلکہ وکیل کی طرح اپنے دلائل دیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں وکیل کے طور پر دلائل نہیں دے سکتا، میں ذاتی حیثیت میں دلائل دے رہا ہوں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منیب اختر سے معذرت کر لی اور کہاکہ سپریم جوڈیشل کونسل کے خلاف مجھے سنگین تحفظات ہیں، میرا کیس دوبارہ جوڈیشل کونسل بھجوانے پر دلائل دوں گا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جن ججز کے آپ نام لے رہے ہیں وہ ریٹائر ہو چکے، بار بار دو ججز پر الزامات نہ لگائیں۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ اپنے کیس پر دلائل دیں آپ کی مہربانی ہو گی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالتِ عظمیٰ سے اپیل کی کہ کیس کی سماعت صبح کے اوقات میں مقرر کی جائے، سماعت جلد مکمل ہونا ضروری ہے، جسٹس منظور ملک کے ریٹائر ہونے میں کم وقت ہے۔

جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ آپ کو اب یاد آ رہا ہے کہ وقت کم ہے؟ آپ براہِ راست کوریج کی درخواست میں مارچ کا مہینہ ضائع کر چکے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ لائیو کوریج کی درخواست میرے اس امیج کے باعث اہم تھی جو انہوں نے پبلک میں بنایا۔

جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ امیج بنانے والی اللّٰہ تعالیٰ کی ذات ہے، آپ اس پر بھروسہ رکھتے ہیں تو فکر کیوں؟

سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرِ ثانی کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔