بابائے صحافت ’’پروفیسر متین الرحمٰن مرتضیٰ‘‘ اَن گنت طلبہ کے مربی، رول ماڈل

April 25, 2021

الطاف حُسین حالی نے کہا تھا ؎ رہبر بھی، یہ ہم دَم بھی، یہ غم خوار ہمارے… اُستاد یہ قوموں کے ہیں، معمار ہمارے۔ بے شک کسی بھی شخصیت کی عمارت کتنی ہی بلند و بالا کیوں نہ تعمیر ہو، اُس کی بنیادوں میں بہر حال ایک اچھے استاد کی بہت مہارت سے لگائی گئی اینٹوں، مٹّی، گارے، سیمنٹ ہی کا عمل دخل ہوتا ہے اور سَر متین الرحمٰن مرتضیٰ ایک ایسے ہی یکتائے زمانہ استاد تھے کہ جنہیں اَن گنت شخصیات کے معمار ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اُن کے شاگردوں میں بڑے بڑے نام شامل ہیں، ہم تو خیر اُن کی خاکِ پا بھی نہیں، لیکن اِک سر خوشی ضرور ہے کہ اُن خوش بختوں میں ہمارا نام بھی کہیں شامل ہے، جنہیں سَرمتین کی سر پرستی میسّر رہی۔ اُن کے بحرِ علم سے چند ڈول بھرنے کی سعادت نصیب ہوئی اور بعد ازاں اُن کے پسندیدہ طلبہ کی فہرست میں جگہ بنانے کا شرف و امتیاز بھی حاصل رہا۔

پروفیسر متین الرحمٰن مرتضیٰ اگر اپنے نام کی طرح سنجیدگی و متانت، تہذیب و وقار، شستگی وشائستگی کے پیکر، بہت مستحکم، پختہ عقائد و تصوّرات کی حامل شخصیت کے مالک تھے، تو ساتھ ہی نہایت شفیق، مہربان، نرم دل و نرم خُو استاد بھی تھے۔ ہمیں اُن سے جامعۂ کراچی کے شعبۂ ابلاغِ عامّہ (ماس کمیونی کیشن )کے فائنل ایئر میں اکتسابِ علم کا موقع ملا۔ لیکن جس طرح کبھی کبھی کسی کا کہا کوئی ایک جملہ یک بیک، براہِ راست دل میں اُترتا محسوس ہوتا ہے، کسی کا سُجھایا، دِکھایا ہوا رستہ سیدھا منزل ہی تک لے جاتا ہے، بالکل اِسی طرح بحیثیت طالبہ گرچہ ہمارا اُن سے قربت کا تعلق کم عرصے پر محیط رہا، لیکن بہت دیرپا تھا، جس کے اثرات، نقوش اپنی ہستی پر آج بھی بڑے گہرے، بہت پائیدار محسوس ہوتے ہیں۔ خصوصاً وہ ایک واقعہ تو بس زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا کہ جس نے سوچوں کا رُخ ہی بدل دیا، گویا اگلی پوری زندگی کے لیے ایک لائحہ عمل مرتّب ہوگیا۔

بلاشبہ، میرا شمار سالِ اوّل ہی سے ابلاغِ عامّہ کے اچھے طلبہ میں ہوتا تھا، لیکن کسی بھی استاد نے کبھی اس طور ہمت بندھائی، نہ حوصلہ افزائی کی، جیسی سَر متین نے اپنی غالباً دوسری یا تیسری ہی کلاس میں کی، جب سر نے تمام طلبہ کو کسی بھی ایک اہم مُلکی یا غیر مُلکی واقعے کے حوالے سے ایک تاثراتی تحریر لکھنے کا اسائنمنٹ دیا۔ مقررہ تاریخ پر اسائنمنٹ جمع کروایا، تو دل سخت ڈرا ہوا تھا کہ سَر بظاہر نرم خُو، خندہ رُو تھے، لیکن اُن کی سنجیدگی اور بعض اوقات عام سی بات میں بھی پنہاں گہرے معنی سے کسی بھی قسم کی خوش فہمی پر ایک پَل میں گھڑوں پانی پڑسکتا تھا۔ کچھ مزاج کا بھی اتنا اندازہ نہ تھا کہ کس قسم کا طرزِ تحریر پسند کرتے ہیں۔

کلاس میں ایک کے بعد ایک اسائنمنٹ چیک کر کے واپس کرتے رہے۔ ساتھ ساتھ ہر طالب علم کی غلطیوں، خامیوں، کوتاہیوں کی نشان دہی بھی کرتے جا رہے تھے۔ پہلے میرا خیال تھا کہ سب کے نام حروفِ تہجّی کے اعتبار سے پکارے جا رہے ہیں۔ ایم سے شروع ہونے والے طالبِ علم کا نام پکارا گیا تو میری تو جیسے سانس چلنا بند ہوگئی۔ کلاس میں پِن ڈراپ سائلنس تھا اور پھر پی، آر، ایس سے شروع ہونے والے نام بھی پکار لیے گئے، مگر میرا نام نہیں آیا۔ میری نظریں روسٹرم سے جیسے چپک سی گئی تھیں۔ اور پھر… سَر کے ہاتھ میں صرف ایک اسائنمنٹ رہ گیا اور وہ یقیناً میرا ہی تھا۔ میری اوپر کی سانس اوپر، نیچے کی نیچے تھی۔ مجھےلگا، آج کلاس میں بہت ’’عزّت افزائی‘‘ ہونے والی ہے۔ سَر نے میرا نام پکارا، ’’نرجس ملک…‘‘ مَیں سیٹ سے کھڑی ہوگئی۔ ’’جی سر!‘‘ ’’کیا آپ یہاں آکر اپنی یہ تحریر خود پڑھ کر سُنا سکتی ہیں؟‘‘

اللہ جانتا ہے کہ سیٹ سے روسٹرم تک فاصلہ طے کرتے جیسے ایک ایک قدم مَن مَن بھر کا ہوگیا تھا۔ پھر سَر کے پاس کھڑے ہو کر پوری کلاس کے سامنے اپنی تحریر پڑھنا موت کے کنویں میں سائیکل چلانے کے مترادف تھا (کہ اس عُمر میں یہی لگتا تھا کہ دنیا میں اِس سے مشکل کا م اور کوئی نہیں ہو سکتا) لیکن چوں کہ تحریر سچّے احساسات و جذبات کے ساتھ بڑی دل جمعی سے لکھی تھی۔ سو، اُن ہی تاثرات کے ساتھ بہت روانی وشائستگی سے باآوازِ بلند پڑھ ڈالی۔ نظریں تحریر کی آخری سطروں پر تھیں، جب کانوں میں پہلی زور دار تالی کی آواز گونجی، جو یقیناً سر کی طرف سے ملنے والی داد تھی اور پھر یہ گونج بڑھتی ہی چلی گئی۔

پوری کلاس کی تالیوں کے شورمیں سَر کے جملے سماعتوں سےٹکرائے ’’شاباش! اسے کہتے ہیں تاثراتی تحریر۔‘‘ ایسی ستایش، اتنی حوصلہ افزائی، آنکھیں نمکین پانیوں سے بَھر گئیں۔ ماتھے پہ چمکتی پسینے کی بوندیں خشک اور خشک ہونٹ بھیگی سی مُسکراہٹ سے تر ہونے لگے۔ میرے لڑکھڑاتے قدم جیسے جَم سے گئے تھے۔ یوں لگا، جیسے اگلی پوری زندگی کا رُخ متعیّن ہو گیا ہے یا کم از کم اُس پگڈنڈی پر قدم ضرور جا پڑے تھے، جس نے بالآخر کسی نہ کسی روز منزل تک لے جانا تھا۔

بعد ازاں، پورے سیمسٹر میں سر کی رہنمائی، سر پرستی، محبّت وشفقت (کبھی کبھار سختی، ہلکی پھلکی ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتے یا کوئی ایسا کاٹ دار جملہ بول دیتے، جو بظاہر سادہ، بے ساختہ ہوتا، لیکن شرمندگی روح تک محسوس ہوتی) قدم قدم ساتھ رہی۔ خصوصاً آخری اسائنمنٹ کے (پانچ پانچ طلبہ کے گروپ کی صُورت ایک مکمل جریدے کی تیاری) معاملے میں جس طرح سر نے ’’نو کمپرو مائز‘‘ کا بورڈ آویزاں کر کے ہم سے دن رات سخت ذہنی و جسمانی مشقّت لے کر ہمیں عملی زندگی کے لیے تیار کیا، وہ بس اُن ہی کی دور بیں نگاہوں کا خاصّہ تھا۔

وگرنہ، جامعہ سے براہِ راست دنیائے اُردو کے سب سے بڑے اخبار کی دنیا میں قدم رکھنا اور پھر جَما بھی لینا کچھ ایسا بھی کارِ آسان نہ تھا۔ آج اگر چار جملے لکھنے، چار لوگوں کے بیچ بیٹھ کر بات کرنی آتی ہے، تو یہ سَر متین الرحمٰن مرتضیٰ جیسے چند ایک اساتذہ کے سامنے زانوئے ادب/ تلمّذ تہہ کرنے ہی کا نتیجہ ہے۔ وہ کیا ہے کہ ؎ جو علم کا علم ہے، استاد کی عطا ہے… ہاتھوں میں جو قلم ہے، استاد کی عطا ہے۔

آہ! 15 مارچ 2021ء کا سورج غروب ہوتے ہوتے میرے اور شعبۂ صحافت کے اَن گنت طلبہ کے بہت پیارے استاد کا چراغِ زندگی بھی گُل کر گیا (انّا للہ و اِنّا اِلیہِ راجِعُون) موت برحق ہے۔ ہر ذی نفس کو اِس دارِ فانی سے رخصت ہو کر ابدی زندگی کی طرف لَوٹنا ہی ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ پروفیسر متین الرحمٰن مرتضیٰ یقیناً اُن گِنی چُنی ہستیوں میں شامل ہیں کہ جو اپنی عارضی زندگی کا بہترین حق ادا کرکےگئے۔ اُن کے لیے کسی نے لکھا کہ ’’درس تدریس کی تابندہ روایات کے امین، صحافت کی ارفع اقدار کے پاس دار، بابائے صحافت، پروفیسر متین الرحمٰن مرتضیٰ اپنے عہد کو منوّر کرگئے‘‘ تو بلاشبہ سو فی صد درست لکھا کہ اس کی گواہی تو اُن کے لا تعداد طلبہ بھی دیں گے۔

کورونائی ایّام کا دورِ ابتلا کئی ’’درِّ نایاب‘‘ تو اپنی رَو میں بہا لے گیا۔ کچھ حسّاس طبع، زود رنج ویسے بھی اپنی طبعی عُمر پورے کر رہے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ ؎ چراغ بُجھتے چلے جا رہے ہیں سلسلہ وار۔ اور ؎ زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے۔ اور وہ جو منصور ساحر نے کہا ہےکہ ؎ یکتائے فن کی ساری مہارت سپردِ خاک … بس یاد رہ گئی ہے، زیارت سپردِ خاک… الفت کا آفتاب زمیں بوس ہوگیا… کرنی پڑے گی ہم کو محبّت سپردِ خاک۔ تو سَر متین الرحمٰن مرتضیٰ پر تو بے لوث محبّتوں، عقیدتوں کے اتنے گُل نچھاور ہو رہے ہیں، بے ریا آنسوؤں کے اس قدر نذرانے لُٹائےجارہے ہیں کہ محبّت سپردِ خاک ہوکے بھی تاابد زندہ رہےگی۔

ذیل میں ہماری دو ساتھی طالبات اور ایک ہم سے جونیئر طالبہ کا خراجِ عقیدت بھی پیش ہے، ملاحظہ فرمائیے۔

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے…

…ڈاکٹر حفصہ صدیقی…

زندگی میں ایک لفظ سکھانے والا شخص بھی استاد کا درجہ رکھتا ہے اور جس نے آپ کو زندگی سکھائی ہو، اُس کا کیا رتبہ ہوگا؟ پروفیسر متین الرحمٰن مرتضیٰ کا شمار ایسے ہی اساتذہ میں ہوتا تھا، جو اپنے طلبہ کو سبق نہیں، زندگی کا درس دیتے ہیں اور اب متین صاحب کی وفات کی خبر سے تو جیسے یادوں کی ایک برات سی اُتر آئی ہے۔ بقول رسا چغتائی ؎ کل یوں ہی تیرا تذکرہ نکلا …پھر جو یادوں کا سلسلہ نکلا۔ سمجھ نہیں آرہا، کہاں سے شروع کیا جائے۔ جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغِ عامّہ میں داخلہ ہوا، تو پتا چلا کہ چند نام ایسےہیں، جن سےحصولِ علم کی خواہش ہر طالبِ علم کو ہے اور اُن ہی میں سے ایک نام متین صاحب کا بھی تھا۔

آنرز میں ایڈمیشن کے باوجود متین صاحب ہمیں ماسٹرز میں جاکر ملے، لیکن جتنا بھی وقت اُن کے ساتھ گزرا، یادگار اور سیکھنے سکھانے والا ہی تھا۔ متین صاحب کے طریقۂ تدریس میں ان کے اسائنمنٹس اہم ترین حصّہ تھے، جن کے ذریعے وہ طلبا و طالبات کی عملی تربیت کا فریضہ انجام دیتے اور اِس معاملے میں وہ کسی قسم کے کمپرومائز کے قائل نہیں تھے۔ سالِ آخر میں ان کا میگزین کا اسائنمنٹ تمام طلبہ کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل تھا کہ اُسے وقتِ مقررہ پر پرنٹ کرواکے جمع کروانا ہوتا تھا۔ اُس دَور میں کراچی میں امن و امان کی صُورتِ حال ابتر تھی۔ میگزین آخری مراحل میں تھا کہ شہر میں ہنگامے پُھوٹ پڑے اور پورا شہر بند ہوگیا۔

ایسے میں فیصلہ کیا کہ سَر سے اسائنمنٹ کی تاریخ میں توسیع کی بات کی جائے۔ آگ و خون کا ایک دریا عبور کرکے جامعہ پہنچے، تو ہماری گزارش سُننے کے بعد سَر کا جواب تھا، ’’کیا آپ نے کبھی سُنا ہے کہ آج ایڈیٹر صاحب کی طبیعت خراب تھی، اس لیے اخبار کا اداریہ شایع نہیں ہوا یا شہر کے حالات کی وجہ سے آج اخبار شایع نہیں ہوگا؟‘‘ اُس وقت تو سَر کا وہ جواب سُن کر بہت غصّہ آیا، لیکن بعد کی عملی زندگی میں ہر طرح کی رکاوٹوں کے باوجود کام کو وقتِ مقررہ پر کرنے کی ایسی عادت پڑ گئی کہ اب چُھوٹنا مشکل ہے۔

شہر کے بدترین حالات کے باوجود سَر کو جامعہ میں دو طلبہ بھی کھڑے نظر آجاتے، تو اُنھیں بٹھا کر پوری کلاس لےلیتے۔ اُنھیں درس و تدریس سے عشق تھا۔ اِسی طرح ایک بار سَر سے کسی اسائنمنٹ یا پراجیکٹ کے حوالے سے بات ہو رہی تھی، ’’سَر! ایسے نہیں، ایسےکر لیتے ہیں‘‘ ہماری مسلسل تکرار سُن کر آخر سَر نے قلم نیچے رکھا اور پوچھا، ’’آپ نے فاطمہ جناح کی کتاب ’’مائی برادر‘‘ پڑھی ہے؟‘‘ ’’نہیں سَر‘‘۔ ایمان داری سے جواب دیا۔ ’’فاطمہ جناح نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ قائدِاعظم کے والد نے اُن سے کہا، تمہارے پاس دو راستے ہیں، ایک یہ کہ جو تمہارے بڑے کہتے ہیں، مان لو اور بغیر ٹھوکر کھائے اپنی منزل پر پہنچ جاؤ۔

یہ سیدھا اور آسان راستہ ہے، دوسرا راستہ یہ ہےکہ غلطیاں کرو، ٹھوکر کھاؤ اوراپنی غلطیوں سے سیکھو، آپ کون سا راستہ اختیار کریں گی؟‘‘ ’’سَر! دوسرا والا…‘‘بہت ڈرتے ڈرتے جواب دیا۔ سَر مُسکرائے اور بولے،’’قائدِاعظم کا بھی یہی جواب تھا۔‘‘اور اُس وقت سَر کا انداز بالکل ایسا تھا، جیسے وہ قائد کے جانشین ہوں۔ ہماری کسی بھی تحریر کی اصلاح کرتے وقت یہ ضرور کہتے ’’آپ اہلِ زبان کی اصلاح ہم کررہے ہیں۔‘‘

سَر نے دراصل مشرقی پنجاب سے ہجرت کی تھی۔ اُن کا ہجرت کا آنکھوں دیکھا حال کہیں شایع ہوا تو پڑھ کے یقین نہیں آتا تھا کہ وہ اتنے مشکل حالات سے گزر کر یہاں تک پہنچے ہیں۔ سَر سے اس کی تصدیق چاہی تو انھوں نے ہجرت کے مزید کئی قصّے سُنائے، جن کا جاننا شاید آج کی نسل کے لیے بھی انتہائی ضروری ہے۔ ساتھ ایک فخر کا احساس بھی ہوا کہ ہمیں تحریکِ پاکستان کے ایک مجاہد سے ہجرت کا آنکھوں دیکھا حال سُننے کا موقع ملا۔

جامعہ کراچی سے فارغ ہونے کے بعد کبھی کسی بھی کام سے جانا ہوتا، تو سَر سے ملاقات ضروری تھی۔ ’’لکھنا نہیں چھوڑنا‘‘ وہ ہر ملاقات میں یہ یاددہانی ضرور کرواتے۔ ’’سَر! فیلڈ چھوڑنے کے بعد لکھنا اتنا ضروری تو نہیں رہتا؟‘‘ سَر کے لکھتے رہنے کے مسلسل اصرار پر آخر ایک روز اُن سے پوچھ ہی لیا۔ ’’تب تو اورضروری ہے، لکھنے سے صلاحیتوں کا اظہار ہوتا ہے، اور خاص طور پر خواتین بہت سے نفسیاتی مسائل سےبچ رہتی ہیں۔‘‘

ہرکلاس کے بعد غیر رسمی گفتگو کرنا سَر کا طرّہ امتیاز تھا اور جتنا اُن محفلوں سے سیکھا، شاید کلاسز میں بیٹھ کر بھی نہیں سیکھا۔ ہمیں خواتین کے رسالے پڑھنے کی باقاعدہ نصیحت کرتے تھے کہ ’’مَیں اپنی بیٹیوں کو یہ ڈائجسٹ خود لا کے دیتا ہوں، ان کے مطالعے سے لوگوں کے رویّوں کی جانچ میں بہت مدد ملتی ہے۔‘‘ کن کن باتوں کا ذکر کیا جائے، بس اللہ سے یہی دُعا ہے اللہ پاک سَر کی خامیوں، کوتاہیوں کو درگز کرتے ہوئے اُن کے ساتھ بہترین معاملہ فرمائے۔ آمین۔

بچھڑا کچھ اس ادا سے…

…افشاں مُراد…

شعبہ ابلاغِ عامہ، جامعہ کراچی میں داخلے کے وقت ذہن میں بڑے اونچے اونچے پلانز تھے۔ سوچ رہے تھےکہ شعبے میں قدم رکھ دیا ہے تو بس، اب کوئی معرکہ ہی سرانجام دے کر نکلیں گے، لیکن اساتذہ کی فہرست دیکھی، تو ڈاکٹرشمس الدین صدرِ شعبہ تھے، جب کہ سَرمتین الرحمٰن مرتضیٰ، طاہر مسعود، محمود غزنوی، راشدہ نثار، زکریا ساجد، انعام باری، سرور نسیم اور دیگر کئی بڑے بڑے نام شامل تھے کہ جن کا سامنا کرنے کے خیال ہی سے رُوح فنا ہونے لگی۔

ایک سیمسٹر تو خیر خیریت سے گزرگیا، لیکن دوسرا سیمسٹر شروع ہوا، تو پتا چلا کہ سر متین الرحمٰن مرتضیٰ ہمیں میگزین جرنلزم پڑھائیں گے۔ ایک تو اُن کی شخصیت بارُعب، دوسرے چہرے پر ٹھہری گہری سنجیدگی، اُن کی کلاس میںداخلے کے خیال ہی سے ٹانگیں لرزنے لگی تھیں، لیکن جب انہوںنے کلاسز لینا شروع کیں، تو اندازہ ہوا کہ وہ تو بہت ہی شفیق استاد ہیں۔ لکھنےلکھانےکی درست تیکنیکس اس عُمدگی سے سمجھاتے کہ اُن کی بدولت ہم جیسے بھی آج کچھ سطریں گھسیٹنے کے قابل ہوگئے ہیں۔ انہیں کوئی تحریر بمشکل ہی پسند آتی، لیکن اپنی مثبت تنقید و تبصرے سے اُسے بہتر کروانے کی ہر ممکن کوشش کرتے۔ جس میں کوئی صلاحیت بھانپ لیتے، پھر اُسے اُبھارنے میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھتے۔

اُس زمانے میں کراچی سخت شورش زدہ تھا۔ ہنگامہ آرائی، ہڑتالیں معمول کا حصّہ تھیں۔ لیکن سَرمتین کایہی کہنا تھاکہ ’’جب صحافت کے خارِزار میں قدم رکھ دیا ہے، تو پھر لڑکا، لڑکی کی تخصیص نہیںہوگی، آپ کو ہر صُورت اپنا ٹاسک پورا کرنا ہے۔‘‘ چناںچہ اُن کی اسی تربیت کی بدولت آئندہ زندگی میں پیش آنے والی بہت سی مشکلات کو زیر کرنے میں بہت آسانی رہی۔ مجھے اچھی طرح یادہے، ہمارا وہ آخری اسائنمنٹ… ایک جریدے کی مکمل تیاری اور پرنٹنگ، اُس میگزین کو مکمل کرنے میں ہمیں کیا کیا دشواریاں، مسائل پیش آئے، وہ ایک الگ ہی کہانی ہے، مگر شہر کے بدترین حالات اور سَر متین کی ڈیڈ لائن پر ہماری ساتھی نرجس ملک نے جس ہمّت و بہادری سے وہ میگزین پریس سے اُٹھا کر شدید بارش میں رات 9 بجے سر کےگھر پہنچایا تھا، آج بھی یاد کر کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، لیکن اگر اُس وقت ہمارے اساتذہ کم زور پڑجاتے، تو شاید آج اُن کے تربیت یافتہ طلبہ دنیا بھر میں اتنے اعلیٰ عہدوں پر فائز نہ ہوتے۔

سَر متین الرحمٰن مرتضیٰ اُس وقت ہفت روزہ ’’تکبیر‘‘ کا اداریہ لکھتے تھے۔ لیکن چوں کہ نام شایع نہیں ہوتا تھا، تو تمام تر ذمّے داری ایڈیٹر کے سر ہوتی تھی اور جریدے کے ایڈیٹر صلاح الدّین صاحب تھے، جو انتہائی دلیر، دبنگ صحافیوں میں شمار ہوتے تھے۔ اُنہیں کئی بار سرمتین کے بولڈ اداریوں کے سبب جیل کی ہوا بھی کھانا پڑی، لیکن انہوںنے کبھی سر متین پر آنچ نہ آنے دی۔

سَرمتین بے لاگ اداریہ نویس ہی نہیں، انتہائی شفیق، مدبّر استاد اور بہترین رہنما بھی تھے۔ اُن کے لاتعداد طلبہ آج زندگی میں جہاں جہاں، جس جس مقام پر ہیں، اُن ہی کی بدولت ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ اُن کا سفرِ آخرت، نرم پھولوں کے بستر سا ہو اوراُن کے تمام شاگرد اُن کے لیے بہترین صدقہ ٔ جاریہ ثابت ہوں۔

اُستادوں کا اُستاد ہے، اُستاد ہمارا…

…نور خالد…

17مارچ میرے والد کا یومِ وفات اور 15مارچ میرے ایک روحانی باپ کا یومِ وفات ہے۔ یہ تو نہیں کہوں گی کہ آنکھ اشک بار نہ تھی، مگر کچھ ایسا لگا کہ وہ آنسو جو اُبل اُبل کر آنکھوں کی سرحدیں پار کرنا چاہ رہے تھے، اُنہیں ایک شفیق آواز کے لمس نے روک دیا۔ مگر دِل کی اتھل پتھل اپنی جگہ برقرار رہی۔ الحمدُللہ مَیں خود کو اُن چند لوگوں میں شمار کرسکتی ہوں، جنہوں نے زندگی میں انتہائی قابل شخصیات سے علم حاصل کیا۔ چاہے وہ اسکول ہو، کالج، یونی ورسٹی یا پھر عملی زندگی میں دفاتر، اداروں یا دیگر محفلوں میں حصولِ علم کی خواہش میں سرگردانی۔ ہر مقام پر ’’الحمدُللہ، الحمدُللہ‘‘ کہنے کا موقع ملا۔

ایسی ہی ایک جگہ جامعہ کراچی بھی تھی، جہاں متین الرحمٰن مرتضیٰ مقّلد بھی تھے اور معلّم بھی۔ بارعب شخصیت، دھیما لہجہ، خفیف مُسکراہٹ، فصیح و بلیغ اندازِ بیاں، انہیں کئی طلبہ کا آئیڈیل بنا دیتا تھا اور کچھ اُن کی اپنی شخصیت بھی مقناطیسی تھی۔ جب بھی ان سے رہنمائی طلب کی، ان کا دَر ہمیشہ وا پایا۔ چاہے وہ کلاسز کے دوران ہو یا جامعہ کا وقت ختم ہوجانے کے بعد۔ وہ صرف تعلیم کے حوالے ہی سے نہیں، مستقبل اور زندگی کے عمومی رویّوں کے حوالے سے بھی رہنمائی کرتے تھے۔

اُن کی گفتگو کا انداز ایسا تھا کہ باتوں باتوں میں تصحیح بھی ہوجاتی اور مشورہ بھی مل جاتا اور کچھ مشورے تو ایسے تھےکہ جو زندگی بَھر کام آئے۔ حالاں کہ زندگی میں ایسے چند ایک ہی لوگ ملتے ہیں، جو آپ کو سمجھیں اور آپ کو خود کو سمجھنے کی تعلیم و تربیت بھی دیں۔

آپ کو بتائیں ادراک کیا ہوتا ہے، خود آگاہی اور خود شناسی کیا ہے۔ آپ میں کیا کیا خامیاں ہیں، اُن کا اعتراف کیسے کیا جائے، انہیں کیسے قبول کیا جائے اور اپنی انا کو زَک پہنچائے بغیر کیسے اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئےزندگی میں آگے بڑھا جائے۔ کس سے اور کیسے درگزر کیا جائے اور کب ٹھان لی جائے۔ کن باتوں میں تن لگایا جائے، کن میں مَن اور کب دھن لگایا جائے۔

یہ سب باتیں یقیناً ایک استاد ہی جانتا، بتاتا اور سکھا سکتا ہے اور جو آپ کو ایسا یقین دے دے، وہ یقیناً اُستادوں کا اُستاد ہوتا ہے۔ جس سے آپ ہر راز بانٹ سکتے ہیں، ہر خوشی اور غم بھی۔ جس کے آگے آپ کو شرمندگی نہیں ہوتی، کیوں کہ وہ آپ کو کسی کٹہرے میں نہیں کھڑا کرتا۔ بلکہ سمجھاتا ہے کہ اس عُمر کے کیا تقاضے ہیں اور آگے جا کر یہ رویّے کیا مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔

ایسے اساتذہ دُنیا سے چلے بھی جائیں، تو روحانی طورپر ہمیشہ آپ کے ساتھ رہتے ہیں۔ کسی نصیحت، مشورے کی شکل میں، مُسکراہٹ، شفقت، تعریف و توصیف، حوصلہ افزائی، قدردانی یاجوہر شناسی کی صُورت۔ الفاظ تو جیسے اب ختم ہوگئے ہیں، مگر احساسات و جذبات لا محدود ہیں، جو صفحے پر اُتارے نہیں جاسکتے۔

ہاں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ہم جیسے شاگرد ان جیسےاساتذہ کے لیے یقیناً صدقۂ جاریہ ہیں۔ ہماری کام یابیاں اللہ اور والدین کے بعد انہی کے طفیل ہیں۔ اللہ ان کے درجات بُلند فرمائے اور انہیں کروٹ کروٹ جنّت نصیب فرمائے، آمین۔