ضمنی انتخابات، کراچی کا مسلم لیگ ن کو پیغام

May 05, 2021

کراچی کے ضمنی انتخابات سے ظاہر ہوگیاہےکہ تنظیمی ساخت باخت میں تمام تر کمزوریوں کے باوجود مسلم لیگ ن کراچی کی مقبول جماعت بن چکی ہے،اس کی وجہ بھی ظاہرہے کہ نوازشریف کااستقلال اور مریم نواز کا جلال ہے۔ مسلم لیگ ن اگر ان انتخابات میں ضرورت سے زیادہ اعتماد(Over Confidence) کاشکارنہ ہوتی ،اورمحترمہ مریم نواز اس حلقے کا دورہ کرلیتیں ،تو شاید یہ انتخابات بھی بعض قوتوں کیلئے ڈسکہ کی طرح لوہے کے چنے ثابت ہوتے۔ان تمام باتوں کے باوجود مگرکراچی نے جو پیغام بالخصوص مسلم لیگ ن اور عمومی طورپردیگر امورکے حوالے سے دیاہے،اُسکا زیر نظر سطورمیں ایک اجمالی خاکہ پیش کرنےکی کوشش کرینگے۔ان انتخابات میں پی پی نے 16156 اور مسلم لیگ (ن) نے 15473 ووٹ حاصل کئے،پی ایس پی نے9227اور ایم کیو ایم پاکستان نے 7511ووٹ حاصل کئے،موخرالذکر دونوں جماعتیں متحدہ قومی موومنٹ ہی کی بدلی ہوئی شکلیں ہیں،اگران کے ووٹوںکو جمع کیا جائے تو یہ پیپلزپارٹی کو ملنے والےووٹوں سے زیادہ بنتے ہیں،، کالعدم ٹی ایل پی کو 11125 ووٹ ملے ،ان میں سے بھی زیادہ ووٹ مہاجروں کے ہیں،گویااس حقیقت سے قطع نظرکہ اس حلقے میں کس بولی بولنے والوں کی آبادی کتنی ہے، ووٹوں کے تناسب سے یہاں اردوبولنےوالوںکی بڑی تعدادبستی ہے۔اسی سے ملتی جلتی صورتحال اس حلقے کے پشتو،پنجابی اور ہندکو بولنےوالوں کی لگتی ہے۔پشتونوںنے جہاں اے این پی کے کہنے پر مسلم لیگ کوووٹ دیا وہاں انہوں نےپیپلزپارٹی کے پختون اُمیدوار قادر مندوخیل اور پی ٹی آئی کے پختون اُمیدوارامجدآفریدی کو بھی ووٹ دئیے،اس طرح پنجابی بولنے والوں کےزیادہ ترووٹ مسلم لیگ ن کو ملے لیکن پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوںکو بھی ان کے ووٹ ملے،شائستہ لہجے کی بولی ہندکوکی بھی کچھ صورتحال یہی نظرآئی،اس طرح اگر ہم اس حلقے میں ن لیگ ،پی پی اور پی ٹی آئی کے ووٹ جمع کریں اور ان میں سے ایک تعداداُن ووٹرز کی نکال دیں جو اردویا دیگر بولی بولنے والوں کی ہو سکتی ہے،تو لگ بھگ وہی تعداد سامنے آئیگی جو اس حلقے میں اردوبولنے والوںکی لگتی ہے۔میں نے لسانی تقسیم کے نقطہ نگاہ سے نہیں، اس حوالے سے یہ تعبیر کی ہے کہ اگر مسلم لیگ ن اس حلقے سمیت کراچی کے دیگرحلقوں میں اے این پی اور جےیو آئی کے ساتھ آنے والے وقتوں میں انتخابی اتحاد بنانےمیںکامیاب ہوجاتی ہے تو کراچی کے متعددحلقےاین اے249ہی کی طرح پنجابی،پشتو، ہندکواور کشمیری بولی بولنے والوں پر مشتمل ہیں ، بنابریںچونکہ اس وقت اردو،بلوچی ودیگرزبانوں کے حاملین بھی بڑی تعدادمیں مسلم لیگ ن میں موجود ہیں،گویاوفاق کی جماعت ہونے کے باوصف مسلم لیگ ن کو یہاں کے ہرزبان کے باشندوں کی حمایت حاصل ہے،بلا شبہ پیپلزپارٹی بھی وفاق کی علامت ہے،لیکن 2008سے مسلسل 13سال سندھ پر بلا شرکت غیرے حکمرانی کے باوجود اس جماعت سے عمومی طور پر لوگ خوش نہیں ، وہ اپنے روایتی گڑھ لیاری میں بھی دمادم مست قلندر والا اثر کھوچکی ہے۔مزید یہ کہ اس جماعت کی پرانی حلیف اے این پی تک اُس کے ساتھ چلنے کیلئے تیارنہیں۔جہاں تک 2018میں کراچی سے حیران کن کامیابی حاصل کرنے والی تحریک انصاف کا تعلق ہے،توان انتخابات نے عوام سے اُن کا حقیقی تعلق طشت ازبام کرکے رکھ دیاہے۔ ایک بڑا پیغام یہ بھی دیا گیاہے کہ ملک کے دوسرے حصوں کی طرح کراچی کے عوام بھی سرکاری پروپیگنڈے سے کسی بھی طور متاثرنہیں،ان انتخابات میں سرکارکی شفاف پی ٹی آئی پر عوام نے اُن جماعتوں کو ترجیح دی جوبقول سرکار چور،ڈاکواورملک دشمن وغیر ہ وغیرہ ہیں۔چور کہلائی جانے والی پی پی اور ن لیگ نے پہلی اور دوسری اور ’’شفاف‘‘پی ٹی آئی پانچویں نمبر پر آئی۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ان جماعتوں کو پارسائی کی سند دیدی گئی ہے۔بلکہ ان کی چوری یوں بھی مذاق بن گئی کہ ایک عام تاثرہےکہ جس پی پی پر کرپشن کا الزام ہے،سینٹ کے چیئرمین کے اولین انتخابا ت سے لیکر استعفوں کے معاملے بلکہ آج تک انہی سے ڈیل بھی کی جاتی رہی ۔شایدیہی وجہ ہےکہ کراچی میں پی پی کیکامیابی پر کسی کویقین نہیں،البتہ ایک سماجی کارکن اورانسان دوست قادر مندوخیل ضرور سامنے آ گئے ہیں،راقم یہ سمجھتاہےکہ اگر پی پی کو اس نشست پر کامیابی اور آخری وقت میں ’’غیبی ‘‘امدادکا یقین ہوتاتو وہ کسی بھی طورقادرمندوخیل کو ٹکٹ نہ دیتی،ایسے ٹکٹ منظورنظر لوگوں کوہی ملتے ہیں۔قادرمندوخیل کو پی پی نے پچھلے انتخابات میں بھی ٹکٹ دیاتھالیکن یہ جماعت ایسی خانہ پری مختلف برادریوں کو خوش رکھنے کیلئے کرتی رہتی ہے۔خلاصہ یہ ہےکہ کراچی کے عوام کا پیغام یہ ہے کہ وہ پروپیگنڈوں اور دروغکی طلسم کاریوں کے باوجود خوب جانتے ہیں کہ اُنہیں کیا کرناہے۔