اداروں کا مستقبل۔ ماضی جیسا نہیں ہونا چاہئے

May 06, 2021

سپریم کورٹ کا ’’جراتمندانہ‘‘ فیصلہ۔ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی ’’دلیرانہ‘‘ گفتگو۔ الیکشن کمیشن کے حکومتِ وقت کے خلاف اقدامات۔ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ سحر طلوع ہو گئی ہے جس کا انتظار تھا؟ اب اُجالا واقعی داغ داغ نہیں رہا۔ کیا ہم کسی تاریخی سیاسی انقلاب کی دہلیز پر کھڑے ہیں مگر تاریخ پوچھ رہی ہے کہ یہ ادارے بول رہے ہیں یا چند افراد؟ کیا ملک میں ہم ایسا سسٹم قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے؟ جب ادارے اپنی حدود میں کام کرنے لگے ہیں، کیا ان میں ہم آہنگی ہو گئی ہے؟ وہ ایک دوسرے کے خلاف تلواریں سونت کر تو نہیں کھڑے ہیں۔ کوئی ایک ادارہ دوسروں پر غلبہ تو نہیں پانا چاہتا۔ پارلیمنٹ جو سب سے سپریم ہے، کیا وہاں بھی سنجیدگی اور شائستگی غالب آگئی ہے؟ کیا وہ اداروں میں حالیہ تبدیلیوں کا معروضی تجزیہ کررہی ہے؟ پارلیمنٹ نے 18ویں ترمیم کے ذریعے اختیارات صوبائی اسمبلیوں کو منتقل کیے تھے، کیا پارلیمنٹ نے یہ جائزہ لیا کہ صوبے اپنی خود مختاری کا استعمال عوام کے حق میں کررہے ہیں؟ کیا تعلیم اور صحت صوبوں کو منتقل ہونے سے ان اہم شعبوں میں پاکستانیوں کو بہتر سہولتیں میسر آرہی ہیں؟

سوشل میڈیا بغلیں بجارہا ہے، تالیوں کی گونج ہے۔ اب تک جو ادارہ غالب چلا آرہا تھا، سمجھا جارہا ہے کہ اسے بےدست و پا کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان والے اپنی عینک سے دیکھ رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب والے اپنے زاویے سے، وسطی اور شمالی پنجاب اپنے حساب سے۔ سندھ کا شہری اپنی آنکھ سے۔ سندھ کے دیہی باشندے اپنے تناظر میں۔ کے پی والے اپنے اعتبار سے۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا اندازِ فکر پائیدار ہو گیا ہے۔ میڈیا کو 24گھنٹے دیکھ کر تو ایسا نہیں لگتا۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ سیاستدان صرف اگلے الیکشن کے تناظر میں قدم اٹھاتے ہیں مگر یہاں تو اگلا دن بھی نہیں دیکھا جارہا۔ حکومت کوئی غزل چھیڑتی ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے فوراً جواب آں غزل آجاتا ہے۔ اگر اپوزیشن غزل سرائی میں پہل کرتی ہے تو حکومت کے ترجمان جواب آں غزل الاپنے لگتے ہیں۔ ایڈہاک ازم زوروں پر ہے۔ سوشل میڈیا نے اسے مزید ایڈہاک کردیا ہے۔ قومی سیاسی جماعتیں مستقبل کے بارے میں سنجیدگی سے غور و فکر نہیں کرتیں۔ پالیسی بیانات جاری نہیں ہوتے۔

ذمہ دار قومیں کم از کم آئندہ چالیس پچاس سال کی منصوبہ بندی کرتی ہیں۔ ابھی مطالعے کے دوران ایک اصطلاح نے میرا دل موہ لیا کہ ہر ملک میں Current Residentہوتے ہیں اور Future Resident۔ زیادہ اہمیت مستقبل کے مکینوں کو دی جاتی ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ 45سال سے اوپر کے موجودہ شہری ہیں اور 40سے نیچے کے مستقبل کے شہری۔ پاکستان ایک نوجوان ملک ہے۔ 60فیصد سے زیادہ آبادی 18سے 28کے درمیان ہے۔ اللہ کا فضل ہے کہ ہمارے ہاں اکثریت مستقبل کے مکینوں کی ہے۔ ہماری سوچ، منصوبہ بندی، تیاریاں مستقبل کے مکینوں کے لئے ہونی چاہئیں مگر ستم ظریفی کہ حکمران، اپوزیشن، تجزیہ کار، علماء سب کی گفتگو کا محور ماضی رہتا ہے جبکہ ماضی میں ہم کوئی تبدیلی نہیں لا سکتے۔ مستقبل کی صورت گری کر سکتے ہیں۔ ہمارے قائدین کا زیادہ وقت گزشتہ کے فخر یا مذمت پر صَرف ہوتا ہے۔ یعنی وہ کسی تبدیلی کے خواہاں نہیں ہیں۔

روایتی جمہوریت نے ہماری سوچ وقتی کردی ہے۔ مستقبل کے چیلنجوں سے اگر نمٹا جارہا ہو تو آپس کی محاذ آرائی بھی ختم ہو سکتی ہے۔ اس وقت پاکستان میں ہر قسم کا بٹوارہ ہوا ہے۔ لسانی، نسلی، فرقہ وارانہ، صوبائی، بڑے میڈیا اور سوشل میڈیا پر یہ محاذ آرائی روزانہ نظر آتی ہے۔ گروہوں، قبیلوں، سیاسی جماعتوں حتیٰ کہ اداروں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے۔ مستقبل سب کا مشترکہ ہے۔ اس کی منصوبہ بندی بھی مشترکہ ہونی چاہئے۔ اولادیں حکمرانوں کی ہوں یا اپوزیشن کی۔ وکلا کی، ججوں کی، جنرلوں کی، آئندہ عشرے ان کے ہیں۔ کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ گزشتہ چالیس سال سے ہم جن محاذ آرائیوں میں مبتلا رہے ہیں۔ ان کی اولادوں کو بھی ایسے ہی مخدوش موسموں سے دوچار ہونا پڑے۔ اخبارات میں ایک صفحہ مستقبل کے لئے مختص ہونا چاہئے۔ چینلوں کو بھی ایک پروگرام صرف مستقبل کے لئے مخصوص کرنا چاہئے۔ وفاق میں ایک وزارتِ مستقبل ہونی چاہئے۔

اس روشنی میں یہ جائزہ لینا ہے کہ ادارے جو انگڑائیاں لے رہے ہیں، حق گوئی کا مظاہرہ ہورہا ہے۔ یہ کیا من حیث الادارہ آواز ہے یا صرف بالا بالا؟ ہم نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی میں عدلیہ کی آزادی خیال کر لی تھی۔ کیا ایسا ہوا؟ ذیلی عدالتیں جہاں عوام کی اکثریت کی تقدیر کے فیصلے ہوتے ہیں۔ کیا وہاں حقدار کو انصاف مل رہا ہے۔ کیا کوئی ماحول ایسا بن رہا ہے جس میں سب ادارے اپنی جگہ خود مختار ہوں گے؟ کونسا ادارہ ایسا ہے جو سب اداروں میں ہم آہنگی پیدا کرے؟ انہیں قبیلوں کی طرح زور آزمائی نہ کرنے دے۔ آئینی طور پر یہ ذمہ داری صدر مملکت کی ہوتی ہے۔ وہ آتا ایک پارٹی کے ووٹوں سے ہے لیکن ریاست کا آئینی سربراہ ہوتا ہے۔ اسے سب کا صدر ہونا چاہئے۔ پاکستان میں کسی بھی ادارے پارلیمنٹ، عدلیہ، فوج، میڈیا کا ماضی ایسا نہیں ہے جس پر فخر کیا جا سکے۔ اوّل تو یہ ذمہ داری پارلیمنٹ کی ہے کہ وہ سنجیدہ بحث سے چارٹر آف گورننس (میثاق حکمرانی) کے خطوط طے کرے۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر اور سینیٹ کے چیئرمین کو بھی غیرجانبدار ہونا چاہئے۔ سب کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ پاکستان میں ایک ایسا سسٹم وجود میں لایا جائے جس کے تحت ادارے اپنی اپنی ذمہ داریاں اپنی حدود میں ادا کریں۔ ایسا سسٹم جس پر سب کو اعتبار ہو۔ ہمیں اپنے مستقبل کو محفوظ اور منظم بنانا ہے۔ ایک دوسرے کو للکار کر مہم جوئی کرکے سسٹم قائم نہیں ہوگا۔ محاذ آرائی کو ہوا ملے گی۔ سوشل میڈیا پر تالیاں بجیں گی لیکن ملک ایک پائیدار سسٹم کی طرف نہیں جائے گا۔ آپس کی للکاریں اور ہلا شیری اداروں کو ایسے گھوڑوں میں بدل دے گی جن کی لگام کسی کے بھی ہاتھ میں نہیں ہوگی۔