پاکستان نارمل ریاست کیسے بنے؟

May 10, 2021

ہمالیہ کی چوٹی جیسی بلندی سے آواز آئی ہے کہ پاکستان کو ایک نارمل ریاست بننا چاہئے۔ دنیا ہم سے اور ہم دنیا سے خوفزدہ ہیں، جسے شک ہے وہ یورپی یونین کی تازہ قرارداد ملاحظہ فرما لے جو اتنی بھاری اکثریت سے منظور ہوئی ہے کہ اسے یورپی یونین کی تقریباً متفقہ قرارداد کہا جا سکتا ہے۔ شکر ہے اتنی جگ ہنسائی دیکھنے کے بعد ہمارے ذہن میں یہ خیال آ ہی گیا ہے کہ اس بدنصیب ملک کو بھی ایک نارمل ریاست بننا چاہئے۔

اِس خواہش یا تمنا کی جتنی بھی ستائش کی جائے کم ہے لیکن فوری سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس نیک آرزو کے تقاضے کیا ہیں؟ فی الحال تین تقاضوں پر اکتفا کرتے ہوئے انہی تک محدود رہتے ہیں۔ درویش کی نظروں میں اس مملکت اللہ داد کو نارمل بنانے کا اولین تقاضا آزادیٔ اظہار پر عائد مختلف النوع قدغنوں کا خاتمہ ہے۔ بالعموم سمجھا یہ جاتا ہے کہ یہاں حریتِ فکر اور آزادیٔ اظہار جیسے انتہائی بنیادی انسانی حق پر ساری قدغن یا بندش ’’بڑی سرکار‘‘ کی لگائی ہوئی ہے۔ مبنی بر حقائق تجزیہ کرتے ہوئے ہمیں یہ سچائی نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ کسی بھی سماج میں جب جبر کی کوئی قوت براجمان ہو جاتی ہے تو پھر اسی نظریۂ جبر پر ایمان رکھنے والی چھوٹی چھوٹی پاکٹس یا تنظیمیں بھی مافیا کی صورت گلی محلوں میں قبضہ گروپوں کی صورت نمودار ہونا شروع ہو جاتی ہیں پھر اسی ذہنیت کے شرفابھی پر پرزے نکال لیتے ہیں۔ حریتِ فکر یا آزادیٔ اظہار کے حق میں تمام تر دلائل کے باوجود یہ امر اپنی جگہ مسلم ہے کہ لکھنے یا بولنے والے کے اپنے اندر ایک نوع کا سنسر شپ ہونا چاہئےکہ کون سی بات کب اور کن الفاظ میں کہنی ہے کون سی تہذیبی اقدار یا قومی ترجیحات ہیں جنہیں پیش نظر رکھنا ہے، بات لکھنے یا بولنے سے پہلے اسے کس طرح تولنا ہے لفظی تشدد نہیں کرنا، کبھی نہیں بھولنا کہ میری تقریر یا تحریر سے کسی کا دل نہ دکھے۔ سچائی اور حقائق نگاری کے ساتھ ساتھ انسانیت کو توڑنا نہیں جوڑنا مقصود ہے۔کوئی بھی تہذیبی تقاضا نظرانداز نہیں ہونا چاہئے۔

پڑھنے او ر سننے والوں میں بھی اتنا حوصلہ تو ہونا ہی چاہئے کہ وہ کسی دوسرے کا حق بھی تسلیم کریں کہ وہ اپنی شعوری سطح کی مطابقت میں اپنی آرا پیش کرے، اسی سوچ کے پنپنے سے آزادیٔ اظہار کی گنجائش نکلے گی اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ آزایٔ اظہاراور حریت فکر کے بغیر سوسائٹی میں تبدیلی آ سکتی ہے یا ہماری ریاست نارمل بن سکتی ہے تو ایں خیال است و محال است، جنوںاست۔

پاکستان کو نارمل ریاست بنانے کا دوسرا فوری تقاضا ہے تعلیمی نصاب کی تطہیر، جس کا جو مضمون ہے وہ اس پر فوکس کرے ۔ آپ اردو زبان پڑھا رہے ہیں تو اردو زبان پڑھائیں اس میں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر نظریات و عقائد ڈالنےیا ان کا تڑکے لگانے کا آخر کیا جواز ہے؟عربی جو خالص قرآنی زبان ہے جس کے متعلق بہت سا تاکیدی مواد مل جاتا ہے، جدید عرب ذہن اس سے بھی بغاوت کر چکا ہے ۔ذرا ڈاکٹر طحٰہ حسین جیسے جدید عرب مفکروں کو پڑھ کر دیکھیں کس طرح انہوں نے اپنی زبان کو مختلف تہذیبی و سائنسی علوم سے مالا مال کرنےکی کاوشیں کی ہیں۔آج نہیں تو کل بالآخرآپ کواپنے دینی مدارس قومی دھارے میں لانا پڑیں گےمگر اس سے پہلے خود قومی دھارے کو سنوارنا ہو گا ایسی کوئی گنجائش نہیں ہو گی کہ پیریڈ تو فزکس یا پولیٹکل سائنس کا چل رہا ہے اور لیکچر اسلامیات پر دیا جا رہا ہو۔پروفیسر پیٹر جیکب کا رونا بھی سنیں جو نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین کو بلا کر رو رہے تھے کہ ہمارے بچوں پر جبری نظریے کب تک مسلط رہیں گے مسئلہ محض اقلیتوں کا نہیں پاکستانی عوام کی اکثریتی اپروچ لبرل ہے وہ خوش عقیدگی کی پھونک ضرور رکھتے ہیں جو محض آزادیٔ فکر پر قدغنوں کے کارن بھری گئی ہے، آپ ذرا اس بندش کو ڈھیلا کریں ساری پھونک دنوں میں نکل جائے گی۔ اس کی پہلی سیڑھی قوم کے نونہالوں کو جدید تقاضوں کی مطابقت میں دی گئی تعصبات سے پاک تعلیم ہے جس میں اعلیٰ تہذیبی و لسانیبنیادوں پر تمام علوم کی اسٹڈی شامل ہے۔

ملک کو نارمل بنیادوں پر آگے بڑھانے کا تیسرا تقاضا بھارت دشمنی کو ختم کرنا ہے۔ انڈین عوام اور حکومتیں خوبیوں، خامیوں اور دیگر تمامتر حوالوں سے ہمارے عوام اور حکومتوں جیسے ہی ہیں ، خطے میں ہر دو جانب منافرتیں پھیلانے کا سلسلہ اب اختتام پذیر ہو جانا چا ہئے اگر نہیں کریں گے تو وقت اور حالات بالآخر دونوں کو مجبور کر دیں گے کہ اس بے جا مصنوعی دشمنی و منافرت کے چکر سے باہر آ جائیں۔سیدھی سی بات ہے، آپ نے اپنی خارجہ پالیسی کا محور اب تک جس طرح انڈیا دشمنی کو بنا رکھا ہے جب تک آپ اس کا مکمل خاتمہ نہیں کرتے پاکستان نارمل ریاست بن کر ترقی نہیں کر پائے گا، یہ ٹرین جہاں پھنسی ہے وہیں پھنسی رہے گی۔