انسانیت کی تذلیل سے کیے بچا جائے؟

May 16, 2021

ایک روز افطاری کی دعوت پہ گھر سے ایک گھنٹہ پہلے نکلا کہ راستہ خالی ہوگا تو جلد پہنچ کے کچھ گپ شپ کر لی جائے گی۔ گھر سے نکلتے ہی اندازہ ہو گیا کہ غلط سوچا تھا ۔آثار اچھے نہیں ہیں ۔ کورونا کے اتنے پھیلاو کے باوجود سڑکوں پہ بڑا رش پے۔ اور جلد پہنچنے کی کوشش میں غلط سمت ڈرائیونگ زوروں پر ہے۔ موٹر سائیکل والے حسب معمول شطر بے مہار کی طرح جہاں دل چاہے وہاں گھس رہے ہیں۔ اچانک ایک جگہہ ٹریفک کی روانی رک گی ۔ خیر تو ہے ! کیا ہوا سب خیر ہو! ایسے کلمات منہ سے نکلے۔ جب رینگ رینگ کے وہاں تک پہنچے تو پتا چلا کے فٹ پاتھ پہ افطار کا بندوبست کیا جارہا ہے اس لیے آدھی سڑک کو گھیر لیا گیا ہے۔ "کیا کہنے" ۔ خیر آگے بڑھے تو دیکھا لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ ایک طرف خواتین کی تو دوسری طرف حضرات کی۔ پل کے نیچے مین روڈ پہ باورچی خانہ بناکر "غریب لوگوں" کی افطار کا بندوبست کیا جارہا ہے۔ اور روزہ دار روزے کی حالت میں افطار کے وقت کھانا لینے کے لیے سڑک پہ لمبی قطار لگائے کھڑے ہیں اور ہر گزرنے والے کی نظر ان پر پڑ رہی ہے۔ سنا تھا روزے دار کو روزہ کھلوانے کا بڑا ثواب ہے۔ ساتھ کی صدقہ و خیرات دیتے ہوئے حکم ہے کہ ایک ہاتھ سے دو تو اس طرح کہ دوسرے ہاتھ کو پتا بھی نہ چلے۔ لیکن یہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔قصہ مختصر آگے چلتے رہے اور جگہہ جگہہ فٹ پاتھوں پہ اسی طرح غریبوں کے لیے افطاری کا بندوبست ہوتے دیکھتے رہے۔ کچھ لوگ بڑی سے سڑک پہ دریاں بچھا کر انتظام کر رہے تھے تاکہ لوگ بیٹھ کر افطار کریں۔

کہیں ٹھیلے پہ یا میز پہ افطاری کا سامان سجا کر رکھ دیا گیا تھا تو کوئی تھیلیوں میں لیے لوگوں کو دے رہا تھا۔ یقینا یہ جذبات قابل تعریف ہیں۔ کہ ٹریفک کے بہاو میں خلل کا ذریعہ بھی۔ خیر منزل سے چند قدم پہ تھے کہ افطار کا وقت ہوگیا۔ پورا ٹریفک روک دیا گیا ۔ چند لوگ ٹرے میں کھانے کا سامان لے سب گاڑی والوں اور موٹر سائیکل والوں کو دے رہے ہیں، تو کوئی شربت کے گلاس لیے پیش کر رہا ہے تو کوئی کھجور۔ ہارن بجا بجا کہ راستہ دینے کی درخواست کرتے رہے لیکن خدمت انسانی اس قدر حاوی تھی کہ راستہ دینے بجائے افطاری کی پیشکش کی گئی۔ غریب و مسکین کی فہرست نہ آنے کی وجہ سے معذرت کی۔ اور منزل تک پہنچنے کی کوشش کی ۔ لیکن اس مختصر سی مدت میں ایک خاص بات نوٹ کی کہ یہ خدمت گار جو سب کو روزہ کھلوانے میں لگے ہوئے تھے ان میں سے "کسی نے بھی منہ میں کچھ نہ لیا" سب صرف سڑک سے گزرنے والوں کو کھیلانے میں لگے ہوئے تھے۔ کیا "روزہ رکھنے سے زیادہ ثواب روزہ افطار کروانے کا" ہے؟؟؟؟ کیونکہ موءذن صاحب بھی پہلے روزہ کھولتے ہیں پھر اذان دیتے ہیں۔الغرض افطاری کا وقت ہونے کے بعد منزل مقصود پہ پہنچے اور وہاں موجود لوگوں سے اس پر تبادلہ خیال ہوا۔ مزید سوچنے پہ ماضی میں پہنچ گئے کہ پہلے بھی غریبوں، مسکینوں، مسافروں اور جن لوگوں کی فیملی یہاں نہیں ہوتی تھی انھیں بھی باعزت طریقے سے افطار کروائی جاتی تھی۔ نا کہیں لائن لگی ہوتی تھی، نہ سڑک گھیری جاتی تھی، نہ افطار کروانے کی تشہیر کی۔ لمبے لمبے دسترخوان مسجدوں میں بچھائے جاتے تھے۔ ایک رونق ہوتی تھی۔ اہل محلہ خوش دلی سے افطار مسجد بھجوانا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ اس کے علاوہ صاحب ثروت حضرات پہلے ہی مسجد کے منتظمین کو بتا دیتے تھے کہ افطاری اور سحری ان کے ذمہ ہے۔ یوں ہر روزے دار کو پتا ہوتا تھا کہ اگر کھانے کو کچھ نہیں بھی ہے، یا منزل ابھی دور ہے، یا گھر پر افطاری نہیں کرنی، مسجد چلو وہاں سب مل جائے گا ، معبود کائنات کے گھر کی رونق دیکھو اور ساتھ میں باجماعت نماز بھی ادا کرو۔ باہر نکلنے پہ کسی کو کیا پتا کہ مسجد کیوں آئے تھے یقینا نماز کے لیے ہی آئے ہوں گے۔ یوں عزت نفس بھی مجروح نہیں ہوگی۔ کوئی پہچان نہیں ہوگی، کوئی شرمندگی کا سامان نہیں۔ یوں عین افطار سے پہلے "سڑکیں ویران اور مسجدیں آباد" ہوتی تھیں۔ نہ افطاری اور سحری کروانے کے لیے زکات، صدقات و خیرات جمع کرنے کے لیے اشتہارات دینے کی ضرورت پڑتی تھی۔لیکن افسوس وقت کے ساتھ ساتھ طریقے بدل گئے۔ مسجدیں ویران اور سڑکیں آباد ہوگئیں۔ افطار کروانے والوں تشہیر لازمی اور افطار کرنے والوں کی عزت نفس مجروح ہوگئ۔کیا وہ پرانا طریقہ زیادہ بہتر نہ تھا؟ کیونکہ اس طرح جگہ جگہ ٹریفک کی روانی میں خلل ڈالنے کی وجہ سے اگر کسی کو ایمرجنسی میں کہیں جانا ہو، مریض کو اسپتال لے جانا ہو، مسافروں کو ائیر پورٹ یا ریلوے اسٹیشن جانا ہو اور ٹریفک میں پھنسے کی وجہ سے مریض کی طبیعت زیادہ خراب ہوجائے، بر وقت اسپتال نہ پہنچنے پہ مریض کا انتقال ہوجائے، مسافر کا جہاز یا ٹرین چھوٹ جائے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ ایک مسلمان کو اذیت دینا حرام ہے۔ ناکہ بہت سے انسانوں کو اذیت دینا کتنا غلط اور قابل گرفت عمل ہے اس کا اندازہ بھی نہیں ہے۔ تو ایک ثواب(روزہ افطار) کے لیے حرام (لوگوں کو اذیت دینا)کام کرنے کا سودا کرنا درست پے؟ انسانیت کی تذلیل سے کیے بچا جائے؟- ذرا سوچئے!

minhajur.rabjanggroup.com.pk