انصاف کے طالب

May 18, 2021

ہمیشہ سے دنیا کا ہر مظلوم انصاف کا طالب رہا ہے لیکن نبی کریمﷺ اور خلفائے راشدین کے ادوار کے علاوہ کسی مظلوم کو شاید کم ہی انصاف ملا ہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ آج دنیا بھر میں سب سے زیادہ ظلم مسلمان کے ساتھ ہورہا ہے اور مسلمان ہی انصاف کا طالب ہے۔ اس کی وجہ دیگر وجوہات کے علاوہ یہ بھی ہے کہ نام نہاد مسلم اُمّہ کے قائدین اور کرتا دھرتا اقتدار کے اسیر ہیں۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ آج کے مسلم قائدین میں کوئی ایسا ہے جو خلفائے راشدین کی پیروی کرتا ہو؟ کیا آج کوئی سلطان صلاح الدین ایوبی کے نقش قدم پر چل کر بیت المقدس کو آزاد کرانے والا ہے؟ کیا یہ باعثِ شرم نہیں ہے کہ مٹھی بھر اسرائیلیوں نے لاکھوں مسلمانوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے اور ان کی سرزمین اور مقام مقدس پر ناجائز قبضہ جما رکھا ہے اور اب ان کو اپنے ہی وطن سے تارک اور بےوطن کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کیا یہ بھی باعثِ شرم نہیں کہ جنہوں نے ان نہتے اور بے آسرا فلسطینیوں کا ساتھ دینا تھا، اُن کی مدد کرنی تھی، ان کو انصاف دلانا تھا انہوں نے دو دن کے اقتدار کے لئے اس ظالم اور دہشت گرد سے دوستی ہی کرلی۔ آج مظلوم فلسطینی انصاف اور مدد کیلئے دہائی دے رہے ہیں۔ امریکہ اور انسانی حقوق کے جھوٹے دعویدار اور علمبردار ببانگِ دہل دہشت گرد اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں اور دوسری طرف او آئی سی جیسے نام نہاد ادارے اور مسلم ممالک کے سربراہان مذمتی بیانات جاری کرکے اپنا ’’فریضہ‘‘ پورا کررہے ہیں۔

آج فلسطین کے معصوم بچے، خواتین اور بوڑھے انصاف کے طالب ہیں۔ آج ایک ناجائز قابض، ظالم اور دہشت گرد اسرائیلی حکومت نے مغربی طاقتوں کی پشت پناہی اور مسلم ممالک کے قائدین کی مجرمانہ خاموشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فلسطین میں کشت و خون کا بازار گرم کررکھا ہے۔ فلسطین، شام، کشمیر، برما، عراق اور افغانستان کا مظلوم مسلمان انصاف مانگ رہا ہے لیکن اس کو انصاف نہیں مل رہا۔ کیونکہ انصاف کے ترازو میں طاقتور کا پلڑا ہی بھاری ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا ممالک میں کسی ایک بھی ملک میں کبھی بھی طاقتور اور غاصب کو سزا اور مظلوم کو انصاف نہیں ملا۔ قرآن کریم کا حکم ہے کہ ظالم کا ساتھ دینے والا بھی اتنا ہی ظالم ہے۔ اس لئےاللہ کریم کے بھروسے پر مظلوم کا ساتھ دو اور ظالم کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جائو اور یہی جہاد ہے۔

وطن عزیز کو ہی دیکھ لیں کہ مظلوم اور انصاف کے طلب گار کو کب اور کتنی آسانی سے انصاف ملتا ہے۔ اسلام کے اس قلعہ میں انصاف کا کتنا بول بالا ہے اور انصاف کی فراہمی میں کیا رکاوٹیں ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ یہاں انصاف کا تالا سونے کی چابی سے کھلتا ہے۔ یہاں بھی طاقتور اور مالدار کو فوری انصاف ملتا ہے۔ جبکہ کمزور اور مظلوم انصاف کی بھیک مانگتا پھرتا ہے اور ٹھوکریں کھاتا ہے۔ اکثر تو حصول انصاف کی طلب میں اس دارفانی سے ہی کوچ کر جاتے ہیں۔ یہاں تفتیش اور چالان سے لے کر مقدمات کے فیصلوں تک ایک طویل اور ذلت آمیز سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ طاقتور اور مالدار آج اپنی گلو خلاصی کے لئے عدالتوں میں درخواست دائر کر تے ہیں اور دوسرے ہی دن ان کی درخواست سماعت کے لئے نہ صرف منظور کر لی جاتی ہے بلکہ اگلے دن اس کی سماعت بھی مقرر ہو جاتی ہے۔ کیا کوئی ایسی مثال کسی عام اور غریب کےکیس کی بھی موجود ہے؟ طاقتور کی درخواست، سماعت اور فیصلہ تو چٹ منگنی پٹ بیاہ کی طرح اور کمزور کی درخواست اور کیس کی سماعت سمندر سے موتی نکالنے کی طرح۔ یہ کیسا انصاف ہے لیکن کوئی بول بھی نہیں سکتا۔ بقول ڈاکٹر خورشید رضویؔ

ہر جبر سے خاموش گزر آئے کہ افسوس

جاں بھی ہمیں درکار تھی عزت کے علاوہ

اس وقت ایک اندازے کے مطابق سپریم کورٹ میں زیر التوا کیسوں کی تعداد تقریباً 49ہزار ہے۔ ہائی کورٹس اور نچلی عدالتوں میں زیر التوا کیسز اس کے علاوہ ہیں اور ہر سال ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ ورلڈ جسٹس پروجیکٹ (ڈبلیو جے پی) کے مطابق پاکستان کا گزشتہ ایک سال کے دوران گراف ایک فیصد کم ہوا ہے اور 128ممالک میں انصاف کی فراہمی کے حوالے سےپاکستان کا نمبر 124ہے۔ اس تناسب کے مطابق پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے قریب ہے۔ ہم سے تو نیپال اور ایتھوپیا بھی بہتر ہیں، جس طرح پاکستان میں الیکشن نظام، پولیس، گورننس، جمہوری نظام وغیرہ میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اسی طرح عدالتی نظام میں بھی اصلاحات وقت کی اہم ترین ضرورت ہیں۔ عدالتوں میں مکمل چالان ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ بروقت اور جلد ازجلد پیش کرنے اور عدالتوں سے بلاتاخیر انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے اور معزز جج صاحبان کی تقرری جیسے معاملات کے لئے فوری اصلاحات ضروری ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انصاف میں تاخیر انصاف نہ ہونے کے مترادف ہے۔ پتہ نہیں کب مظلوم اور انصاف کے طلب گار کو فوری اور سستا انصاف میّسر ہو گا، ججز صاحبان کی تقرری امتحانات کے ذریعے ہونی چاہئے۔ اس طرح جیلوں کے نظام میں اصلاحات بھی ازحد ضروری ہیں۔ جہاں عزت نفس کی پامالی، جیلر اور عملہ کی بادشاہت اور انسانوں کی تذلیل و تشدد کا خاتمہ کیا جا سکے اور جرائم پیشہ قیدیوں کی اصلاح و تربیت کا موثر بامعنی نظام ہو۔