تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد

May 20, 2021

جب سے خانِ اعظم سعودی عرب کے کامیاب دورے سے واپس تشریف لائے ہیں آپ جناب سرکار میں ایک نئی روحانی قوت اور ترو تازگی محسوس کی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرکار نے سعودی عرب سے واپسی کے فوری بعد جو پہلا کام کیا وہ چھوٹے میاں کی لندن یاترا روکنے کے لئے عید کے دن وفاقی کابینہ کی ایک سرکولیشن سمری سے اُن کا نام ای سی ایل میں ڈالنا اور خود نتھیا گلی کے پُرفضا مقام پر عید کی چھٹیاں گزارنے چلے جانا اور مخالفین کو یہ پیغام دینا کہ بات ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ شروع ہوئی ہے۔ نہ جانے سرکار کو ایسا کون سا خوف ہے یا اس فیصلے میں کیا راز پوشیدہ ہے کہ عدالتی حکم کے باوجود چھوٹے میاں کی لندن یاترا کو روکا جارہا ہے جبکہ سرکار کو یہ بھی معلوم ہے کہ چھوٹے میاں اب عدالتی حکم نامے اور ضمانت پر ہیں، انہیں لندن جانے یا واپس آنے میں کوئی دشواری نہیں خصوصاً کرکٹ بائی چانس کے اصول کے تحت مستقبل میں اُن کا سیاسی کردار ایسا اہم ہوتا جارہا ہے کہ وہ کسی بھی وقت بازی پلٹ سکتے ہیں۔ اللہ دیاں اللہ ای جانے لیکن اس بار عید الفطر کے چاند کے صحیح چڑھنے یا زبردستی چڑھانے پر جو چن چڑھایا گیا ہے عمومی رائے یہی ہے کہ سرکار جمعے کے دو خطبوں کا بوجھ سہار نہیں سکتی تھی۔ اسی لئے مرکزی رویت ہلال کمیٹی نے رات ساڑھے گیارہ بجے ایک خطبے کا بوجھ کم کرکے دورِ ایوب کی یاد تازہ کر دی، جب پورے ملک میں عید کی دو نمازیں ادا کی گئیں اور نامور علماء کرام کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ شرعی لحاظ سے تو جمعے کے روز عید کا ہونا حکومتوں پر کتنا بھاری پڑتا ہے اور اس کے اثرات کیا مرتب ہوتے ہیں، اس حوالے سے ایک طویل مستند بحث درکار ہے لیکن ایک بات بڑی واضح ہے کہ اگر خلقِ خدا اپنے حکمران سے مطمئن اور اس کے لئے دعا گو ہو تو کیسی ہی آفتیں کیوں نہ آ جائیں۔ اللہ کی رحمتیں ہر صورت شاملِ حال رہتی ہیں۔ چاند چودہویں کا ہو یا عید کا، اپنے وقت پر ہی خوشیاں لاتا ہے اور ہر دن عید کا دن قرار پاتا ہے لیکن ہمارے ہاں کوئی ایک بھی نشانی ایسی نہیں کہ جس پر خوشیاں منائی جا سکیں، ہر طرف ابہام ہی ابہام اور عوام پریشان۔ تازہ ترین ابہام تو عید الفطر کا چاند چڑھنے سے پہلے سابق وزیر سائنس و ٹیکنالوجی چودھری جہلمی نے اپنی عادت سے مجبور ہو کر قبل از وقت عید چودہ مئی کو ہونے کی پیش گوئی کرکے پیدا کیا اور رویت ہلال کمیٹی کو اس دعوے پر من و عن عمل کرنے پر زور دیا اور اس دعوے پر رویت ہلال کمیٹی کے باقاعدہ اعلان سے چند لمحے قبل تک ڈٹے رہے اور یہاں تک کہہ دیا کہ اگر عید 13مئی کو ہوئی تو ایک روزہ اور اعتکاف قضا تصور ہوگا جو لوگ سعودیہ اور افغانستان کے ساتھ عید منانا چاہتے ہیں وہ گنہگار ہوں گے تو سرکار پوچھنا یہ تھا کہ مفتی منیب الرحمٰن کی کمیٹی ہو یا مولانا ابو الخبیر آزاد کی، اُنہیں متنازعہ بنانے کا یہ کام چودھری جہلمی کو کب سے سونپ دیا گیا ہے؟ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ سرکار ہر عید پر یک جہتی، اتحاد و یگانگت کا راگ الاپنے کے بجائے شرعی مسائل میں مداخلت سے گریز کرے اور پہلے اپنے اردگرد ان اصولوں پر عمل کرنے کی فضا پیدا کرے۔ پھر قوم سے یہ توقع رکھے کہ یہ کسی ایک رائے پر متحد و متفق ہوگی۔ یہی ابہام چھوٹے میاں کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لئے وفاقی کابینہ سے منظوری حاصل کرنے کے بارے میں بھی پیدا کیا گیا اور اس بار پنڈی والے شیخو بابا بھی چودھری جہلمی کے ہم کلام تھے کہ ایسی کوئی سمری منظور ہی نہیں ہوئی، جب یہ سمری آئے گی تو فیصلہ کریں گے۔ عجب تماشہ ہے کہ ایسی کون سی بڑی قیامت ٹوٹ پڑی تھی یا کون سا ایسا بڑا ’’دہشت گرد‘‘ ملک سے فرار ہونے کی کوشش کررہا تھا کہ عید کے روز وفاقی کابینہ کو سرکولیشن سمری کی منظوری دینا پڑی اور پھر دو اہم وفاقی وزراء کو اس کی تردید کرنے کی مجبوری آن پڑی جبکہ پاکستان بھر کا میڈیا عید کے دن یہ بریکنگ نیوز چلاتا رہا کہ چھوٹے میاں کا نام ناپسندیدہ لسٹ میں ڈال دیا گیا ہےلیکن سرکارکو فیصلے سے قبل یہ بھی سوچ لینا چاہئے تھا کہ چھوٹے میاں کے لندن جانے میں اُس کا فائدہ تھا یا انہیں روکنے میں؟ تو ذرا آسانی ہو جاتی، سرکار کا یہ خوف کہ چھوٹے میاں کی پکائی کھچڑی انہیں ہضم نہیں ہوگی اور وہ بڑے میاں سے کھچڑی پکانے کا کوئی نیا طریقہ ڈھونڈ لائیں گے تو کہنا یہ ہے کہ اب چھوٹے میاں اتنے تجربہ کار تو ہو ہی چکے ہیں کہ اپنی خاندانی روایات کے مطابق کھچڑی کو خود سے تڑکا لگا سکیں اور بڑے میاں ان کی پکائی کھچڑی پر واہ واہ کریں۔ عید کے روز جب چھوٹے میاں کا نام ای سی ایل میں ڈالا جارہا تھا تو وہ اس دوران اپوزیشن رہنماؤں سے عید کی مبارکبادوں کا تبادلہ کررہے تھے۔ ان مبارکبادوں میں سب سے اہم آصف علی زرداری سے ان کا خود سے ٹیلیفونک رابطہ اور بلاول بھٹو کا انہیں جوابی ٹیلی فون کرنا اس بات کا اشارہ ہے کہ برف پگھل رہی ہے۔ اگر آئندہ وفاقی بجٹ میں کوئی گنجائش نکلی تو چھوٹے میاں کی پکائی کھچڑی سب مل بیٹھ کر کھائیں گے، مرکز میں بلاول بھٹو، پنجاب میں شہباز شریف اہم ہوتے جائیں گے۔ حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا اگر چاند کی تاریخیں سمندر کی لہروں میں جوار بھاٹا لا سکتی ہیں تو پھر یہ اختلاف بھی ختم ہو جائے گا کہ عید کے چاند کی رویت ٹھیک تھی یا نہیں۔ ایسے میں خانِ اعظم کے وزیر خاص اسد عمر کا یہ کہنا کہ جس خان کو وہ جانتے ہیں کسی سے سمجھوتہ کرنے کی بجائے استعفیٰ دینے کو ترجیح دے گا اور عید کے چاند پر ان کا سابق صدر ایوب خان کے حوالے سے مفتی منیب الرحمٰن کے بارے میں یہ کہنا کہ تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد معنی خیز ہے۔