بیج بوؤ گے تو فصل کاٹو گے

May 21, 2021

نبیلہ شہزاد

دیکھنے اور سنے میں آیا ہے کہ آج کے والدین اپنے نوجوان بچوں کو دیکھتے ہوئےاپنے دور کو یاد کرتے ہیں تو حسرت سے آہیں بھرنے لگتے ہیںاور کہتے ہیں کہ وہ ان کی عمر میں کس طرح اپنے والدین کے دست و بازو ہوتے تھے۔ بیٹیاں گھروں میں ماں کی معاون ہی نہیں بلکہ گھر داری سے انہیں بے فکر کر دیتی تھیں۔ ان کے جوان ہوتے ہی مائیں ملکہ کی حیثیت اختیار کرجاتی تھیں، پھر ان کا کام صرف حکم دینا ہوتا تھا۔ اس طرح بیٹے باپ کے حصے کی ذمہ داریاں سنبھال لیتے۔ بڑا بھائی چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے محبت و ذمہ داری میں باپ کی طرح ہوتا تھاورنہ دوسری صورت میں انہیں نالائق ونکما سمجھا جاتا۔

انھیں ہڈحرام، کام چور، نافرمان جیسے القابات سے نوازا جاتا تھا۔ ان نوجوانوں کا فرمابرداراور ذمہ دارہونا ہی مشرقی معاشرے کا حسن تھا۔ بزرگوں کی چھاؤں تلے جوان ہونے والے نوجوان سست رو نہیںہوتےتھے کیونکہ بزرگ بڑے ٹھنڈے دماغ سے انہیں کسی نہ کسی سرگرمی میں مصروف رکھتے ہیں۔

جس سے ان کی سستی دور اور تربیت میں بہتری آتی تھی۔ اسی طرح نانیاں،دادیاں بچیوں کو ہلکے پھلکے انداز میں گھر گرہستی کے گر سکھا تی تھیں۔ لڑکوں کی اچھی تربیت میں نانا، دادا بھی کسی نعمت سے کم نہیں تھے، پھر وقت اور حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ نوجوانوں میں سستی اور کاہلی در آنے لگی اور اب اکثر گھروں میں حالات ایسے ہیں کہ بجائے اس کے کہ نوجوان بچے والدین کی خدمت کریں ، الٹا والدین ان کے خدمت کر رہے ہوتے ہیں ایسے میں والدین اپنے دور کو یاد نہ کریں تو کیا کریں۔

ایک طالب علم ڈاکٹر کے پاس گیا اور کہنے لگاسرمیرا دل کام میں بالکل نہیں لگتا ہے ۔مجھے کوئی دوا تجویز فرمادیجیئے ۔ڈاکٹر نے کہا بیٹا آ پ کو کوئی بیماری لاحق نہیں ہے۔ آپ سستی کا شکار لگتے ہو۔ یہ حقیقت ہے کہ آج کے نوجوان میں آرام طلبی، کاہلی وسستی کی وجہ سے کئی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ محنت و مشقت سےفرار کی وجہ سے بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔

سُست انسان نہ اپنا کوئی کام کرسکتا ہے اور نہ دوسروں کے کسی کام آسکتا ہے ۔بچوں میں سستی کی پہلی وجہ خود والدین ہیں، جنہوں نے لاڈ پیار کے نام پر اپنے بچوں کو آرام پسند بنا دیا۔ اس وجہ سے ان کے اندر کام کرنے کی عادت ہی نہیں ہے۔ بچپن کی آرام طلبی کی یہ عادت اتنی پختہ ہوئی کہ بڑے ہو کر کام کرنا دشوار گزارمحسوس ہونے لگا۔

یونیو رسٹی کالج لندن کے ایک پروفیسر آرن کنڈولہ اور ان کے ساتھیوں کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو بچے بچپن میں آرام پسند اور جسمانی سرگرمیوںمیں حصہ لینے سے جی چراتے ہیں وہ بڑے ہو کر بھی سست، کاہل اور ڈپریشن میں مبتلا رہتے ہیں۔تحقیق کے مطابق، کہ اپنے بچوں کو آرام پسندی کی ترغیب دینے والے والدین صرف ان کی جسمانی صحت کے ساتھ ہی نہیں کھیل رہے بلکہ وہ ان کی ذہنی صحت بھی تباہ کرنے کا موجب بن رہے ہیں۔ جو والدین بچپن سے ہی اپنے بچوں کو کام کرنے کا عادی بنا تے ہیں۔ چستی ان کی گھٹی میں بیٹھ جاتی ہے۔

روزگار کے معاملے میں مایوس ہونے اور بھوک کاٹنے کی بجائے کچھ نہ کچھ کر کے اپنے لئے ذریعہ آمدن دریافت کر لیتے ہیں۔" محاورہ ہے کہ’’ حرکت میں برکت ہے‘‘ یعنی حرکت کا نام ہی زندگی ہےوالے فارمولے پر عمل پیرا ہوتے ہیں،جبکہ آج کے اکثر نوجوان یہ چاہتے ہیں کہ اُن کو سرا کام کیاکرایا مل جائے ، محنت نہ کرنی پڑے۔

نوجوانوں کا ایک المیہ کھیل کود اور جسمانی سرگرمیوں سے دوری بھی ہے۔ جو کھیل وہ پہلے میدانوں میں پسینہ بہا کر کھیلتے تھے ، اپنی طاقت آزمائی کرتے تھے، ہار جیت کی فضا پیدا ہوتی تھی، ان کا پورا جسم حرکت میں ہوتا تھا جس کے نتیجہ میں بیماریاں ان سے دور رہتی تھیں۔ اب یہی کھیل نوجوان بڑے آرام سے بستروں میں بیٹھ کر موبائل فون پر کھیل رہے ہوتے ہیں، بلکہ موبائل نے تو نوجوانوں کو اس قدر گم کر دیا ہے کہ وہ اب اپنے کمروں سے بھی نکلنے سے گئے۔ پیدل چلنے اور ورزش سے بھی دور ہو رہے ہیں۔

دن بدن بڑھتی ہوئی سہولیات زندگی اور مشینی ایجادات نے نوجوانوں کو محنت و مشقت سے دور کر کے آرام کا عادی بنا دیا ہے۔

نوجوان نسل ملک وقوم کا سرمایہ ہیں لیکن ان میں ملک کو ترقی دینے کی صلاحتیں نہیں ہیں۔ حالات کی سنگینی انہیں چیخ چیخ کر خوابِ خرگوش سے جاگنے کا حکم دے رہی ہے۔

انتظار مت کیجیے ذرا اپنا جائزہ لیجیے کہ ماضی میں آپ کتنا وقت صرف فرصت وفراغت کے اور حالات کی درستی کے انتظار میں گزارتے رہے ہیں۔ ذرا اپنا جائزہ تو لیجیئے۔ ایک فہرست بنائیے کہ آج تک آپ کیا حاصل کرنا چاہتے تھے اور اب تک کیا کچھ حاصل کرچکے ہیں۔

جو حاصل نہیں کرسکے اس کی قابل قبول وجوہات تھیں یا محض اپنی نفس پرستی، سستی، کاہلی ۔ اپنی ذات کو پہچانیں، اپنے مقصد زندگی پر غور کریں۔ شعور کا دامن پکڑیں اور کاہلی و سستی جیسی مہلک بیماری کو وہ اپنے اندر سے جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔ مثبت سرگرمیوں میں بھرپور شرکت کریں۔ با مقصد زندگی گزارنے والے لوگوں کی صحبت اختیار کریں۔ سب سے بڑھ کر اپنے اندر اللہ تعالی کے سامنے جواب دہی کا احساس پیدا کریں تاکہ اپنے دین، ملک و ملت کے لیے نافع ثابت ہوں۔