پیر صاحب،دعا کریں

June 23, 2013

کون کہتا ہے کہ اس ملک میں شہرت یا پیسہ کمانا مشکل کام ہے ؟کیا ہوا اگر آپ ازلی بیروزگار ہیں یاآپ کے پاس کوئی جھوٹی سچی ڈگری نہیں یاآپ کو کوئی ہنر نہیں آتا یاآپ کے حصے میں ابّا مرحوم کی چھوڑی ہوئی جائیداد میں سے فقط تین ہزار چھ سو ستاون روپے آئے یاآپ سے کوئی امیر لڑکی شادی کے لئے تیار نہیں جس کی نبض چلتی ہویا آپ کا نصیب ایسا ہے کہ سونے کو ہاتھ لگائیں تو مٹی ہو جائے … نو پرابلم ۔ اس ملک خدا داد میں چند کام ایسے ہیں جن کا ڈسا ہو پانی نہیں مانگتا،بس آزمائش شرط ہے ۔یہ کام کرنے کے لئے سرمایہ درکار ہے نہ بہت زیادہ پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے ،دفتر کھولنے کی ضرورت ہے اور نہ دکان کی، بس ایک ایسی جگہ چاہئے جہاں دو چار لوگ بیٹھ سکیں اور وہ جگہ گھرکی بیٹھک بھی ہو سکتی ہے۔اس کام کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہ سدا بہار کام ہے ،گرمی ،سردی، خزاں، بہار، ہر موسم میں گاہکوں کا رش رہتا ہے ، اگر کام چل پڑے تو گاہکوں کا رش بڑھتا چلا جاتا ہے اور اگر کسی وجہ سے زیادہ کامیا ب نہ ہو تب بھی رزق کم نہیں ہوتا،یعنی ایسا دریا ہے کہ بارش روٹھ بھی جائے تو پانی کم نہیں ہوتا!ایک وہمی اور توہم پرس معاشرے میں اس سے اچھا کام کیا ہو سکتا ہے کہ بندہ پیر بن جائے !
تھیٹر کے وہ اداکار جو ہر سال نہایت باقاعدگی سے حج کرتے ہیں اور اسی باقاعدگی سے اپنی ڈکشنری میں فحش جگتوں کا اضافہ بھی فرماتے ہیں ،کسی نہ کسی پیر کے مرید ہیں۔ ایسے ہی ایک اداکارسے میں نے پوچھا کہ اپنے پیر صاحب کی کوئی کرامت بیان فرمائیں ،تو انہوں نے بتایا کہ ایک دفعہ مری میں ان کی گاڑی ٹریفک میں پھنس گئی، نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا ،گاڑیوں کا ایک اژ دہام تھا جو تاحد نگاہ پھیلا تھا،انہیں کسی ڈرامے کی شوٹنگ کے لئے جلد از جلد اسلام آباد پہنچنا تھا لیکن کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔ یکایک انہیں خیال آیا کہ کیوں نہ پیر صاحب سے request کی جائے ،یہ سوچ کر انہوں نے دل ہی دل میں پیر صاحب کو ایس ایم ایس بھیجی ،اگلے ہی لمحے پیر صاحب عین ان کی گاڑی کے آگے اس حالت میں نمودار ہوئے کہ وہ ببر شیر پر سوار تھے اور ان کے دائیں ہاتھ میں ایک عصا تھا ۔پیر صاحب نے اس عصا کو گھمایا،فوراً ہی مرید کی گاڑی نکلنے کے لئے جگہ بن گئی ،اس نے گاڑی گئیر میں ڈالی اور پیر صاحب کو تھینکس کہہ کر فراٹے بھرتا ہوا نکل گیا،باقی لوگ وہیں پھنسے رہ گئے ۔گویا پیر صاحب نہ ہوئے ٹریفک وارڈن ہو گئے ۔ویسے اگر ٹریفک کھلوانے کا نیک کام کرنا ہی تھا تو باقی لوگوں کی گاڑیاں بھی نکلوا دیتے ،ان کا کیا قصور تھا ،غالباً یہ کہ انہوں نے پیر صاحب کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی تھی، اگر ایسی بات تھی تو وہ بیعت اسی وقت ہو جاتی مگر پیر صاحب نے شائدکسی اور جگہ کی ٹریفک بھی کھلوانی تھی چنانچہ انہوں نے شیر کو ریورس گئیر لگایا اور چل دئیے ۔
ہم میں سے ہر کسی کی زندگی میں بھی کوئی نہ کوئی پیر، فقیر ،صاحب کشف و کرامات ،صوفی اوراہل نظر شامل ہے۔ ان پیروں فقیروں نے ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایاہوا ہے اور ہم اس اندھا دھند اس ٹرک کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں تا وقتیکہ سامنے سے کوئی دوسرا ٹرک آ کر ہم سے ٹکرا نہ جائے۔ لیکن ہمارا بھی کیا قصور ،ہمارے مسائل اس قدر گھمبیر ہیں کہ انہیں حل کرنے کے لئے الہ دین کا چراغ بھی بیکار ہے۔ ایک ایسے گھر کا تصور کریں جہاں شادی کی عمر کی چار لڑکیاں رشتہ نہ ملنے کے سبب گھر بیٹھی ہیں ،رشتہ اس لئے نہیں ملتا کہ اس گھر کا سربراہ ایک ریٹائرڈ سکول ٹیچر ہے جس کا گذارہ فقط پنشن پر ہے اور ماں کو سوائے آٹا گوندھنے کے کوئی کام نہیں آتا ،ایسے میں وہ لڑکیاں شادی کے لئے تعویز نہیں لیں گی تو اور کیا کریں گی !بیروزگار نوجوان ہو ،ناکام عاشق ہو،بہو سے تنگ آئی ہوئی ساس ہو،بد قسمت کاروبار ی ہو ،ڈرپوک سرکاری ملازم ہو ،”نیک دل “ ڈاکو ہو،ڈیپریشن کا شکار شوہر ہو ،شکی مزاج بیوی ہو ،وہمی ارب پتی ہو ،ہر کسی کو ایک نہ ایک صوفی یا صاحب کشف کی ضرورت ہے جو انہیں تسلی ٰ دے سکے ،انہیں یہ بتائے کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ،بس تم تین دن تک یہ وظیفہ کر لو ،راوی میں مچھلیوں کی خوراک پھینک دو، اس تعویز کو فالسے کے شربت میں گھول کر پی جاؤ یا داتا دربار پر تین پلاؤ کی دیگیں چڑھا دو ۔مرید کی ڈھارس بندھ جاتی ہے ،ایک بظاہر نیک نظر آنے والا،ولی ،بزرگ، صاحب کشف جب اس قدر تیقّن کے ساتھ بتائے کہ بی بی کیوں فکر کرتی ہو، تمہارا خاوند غلام بن کر رہے گا تو اسے یقین آ جاتا ہے ۔بعد میں پتہ چلتا ہے کہ اس کا خاوند کسی اور کا غلام بن گیا ہے ۔دراصل ہمیں ہر چیز کا شارٹ کٹ چاہئے ،ہمیں راتوں رات شہرت چاہئے ،ہم دنوں میں کروڑ پتی بننا چاہتے ہیں،ہماری خواہش ہے کہ صبح بیدار ہوں تو پتہ چلے کہ ہمیں چئیرمین اوگرا لگا دیا گیا ہے ،بس ایک چیز ہم نہیں چاہتے او ر وہ ہے محنت کرنا ۔مذہب کا بھی یہی معاملہ ہے ،جو محنت وہاں درکار ہے وہ ہم کرنے کو تیار نہیں ،بس کوئی پیر فقیر تعویز دھاگا باندھ دے جس سے رب بھی راضی ہو جائے اور دنیا میں بھی چاندی ہو جائے۔ چپڑی اور دو دو ۔
طبقہ اشرافیہ کے ”فقیر“ اور طرح کے ہیں جبکہ غریب غربا اور مسکینوں کے پیر دوسرے ہیں ۔ایلیٹ قسم کے صاحب کشف اصحاب کا رہن سہن میل ملاپ بھی اسی کلاس جیسا ہے ،یہاں غریب غربا کی انٹری بند ہے ،ہاں اگر کوئی دھکے سے آ جائے تو اسے سلوک کی وہ منزلیں بتائی جاتی ہیں کہ بیچارہ ان منزلوں کی سیڑھیاں ہی چڑھتا رہتا ہے۔ طبقہ اشرافیہ کے صوفیوں میں ویسی ہی اکڑ پائی جاتی ہے جیسی اس کلاس کے لوگوں میں ہوتی ہے ،عام آدمی سے ہاتھ ملاتے وقت یہ فقیر صرف دو انگلیاں آگے بڑھاتے ہیں جبکہ کسی جرنیل سے میٹنگ ہو پورا ہاتھ لے لیتے ہیں۔ان کی طریقت بھی عجیب ہے ، اگر آپ ان کی کتابوں کا مطالعہ کریں تو حیران رہ جائیں ،یہ صوفی اپنی کتب میں شریعت کی پاسداری کو ضروری تو بتاتے ہیں مگر دوسری ہی سانس میں اپنی بات کی تردید کرتے بھی نظر آتے ہیں ۔ایسے ہی ایک کتاب میری نظر سے گذری جس میں صاحب کتاب نے اپنے مرشد کے حوالے سے نہایت فخریہ انداز میں لکھا کہ انہوں نے کبھی مرشد کو نماز ادا کرتے نہیں دیکھا اور تاویل اس فعل کی یہ دی کہ ممکن ہے جب وہ نماز ادا کرتے ہوں تو انہیں(مریدکو) دکھائی نہ دیتا ہو۔گویا غائب ہو کر نماز پڑھتے تھے ،بلکہ یہ کہنا بھی درست نہیں ہوگا کیونکہ یہ بھی مصنف کا قیاس ہی تھا۔اب ایسے بزرگوں ،پیروں ،فقیروں ،صوفیوں اور اہل نظر کو کوئی کیا مانے جو شریعت کے بنیادی ارکان پر ہی عمل پیرا نہ ہوں!در حقیقت ان ایلیٹ صاحبان کشف نے اپنے اور اپنے پیروکاروں کے لئے ایک ایسا دین وضع کر رکھا ہے جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ،ان کی کلائینٹیل میں وہ اپر کلاس شامل ہے جس نے ہر وہ کام کرنا ہے جس کی مذہب میں ممانعت ہے اور پھر ان کے دربار میں حاضر ہو کرکہنا ہے کہ مرشد ،میرے لئے دعا کر دیں ،آج کل ٹینشن بہت ہے ۔مرشد اطمینان سے پائپ سلگاتے ہیں ،گہرا کش لیتے ہیں ،ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتے ہوئے کمال بے نیازی سے کہہ دیتے ہیں ”جاؤ ،ہم نے دعا کردی ہے ،اللہ بہتر کرے گا ۔“ اور مرید یہ سمجھ کر مطمئن ہو جاتا ہے کہ مرشد نے اس کے گناہوں کے اکاؤنٹ کو ڈیبٹ کر دیا ہے اور ثواب کی کریڈٹ انٹری ڈال دی ہے ۔حالانکہ اسے یہ نہیں پتہ ہوتا کہ گناہ اور ثواب کے کھاتے صرف اللہ کے پاس ہیں اور اس کا کوئی شریک نہیں!