آخر مسلمان بھی انسان ہیں

May 24, 2021

انسان نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ لامحدود حیات و کائنات کے راز و اسرار ایک چھوٹی سی چِپ میں قید کر کے جیب میں ڈالے پھرتا ہے۔ ہاتھ پہ رکھی موبائل ا سکرین میں ہر شے موجود، جو بٹن دبائو گے حیرتوں کا سلسلہ وا ہوتا جائے گا۔ وہ تسخیر کرتا رہا اور آگے بڑھتا رہا۔ اُس نے فتوحات کو سنبھال ضرور لیا مگر یہ بھول گیا کہ دیکھ بھال نہ ہوئی تو زندہ چیزیں عجائب گھر بن جائیں گی۔ مقدار کی بات کریں تو تعمیری چیزیں کہیں زیادہ ایجاد ہوئیں۔ غذا، دوا اور آسائشوں کی بھرمار کرتا جا رہا ہے، بقاکا بھی اُسے احساس ہے مگر صرف آئندہ نسل کی صحت و سلامتی والی زندگی کے تجربات تک۔ ایٹم بم کا تو کسی کو خوف ہی نہیں جس کی تباہی ایک بٹن کی دوری پر ہے۔ روایتی جنگوں کا دور بھی گزر چکا۔ پراکسی وار کا حربہ بھی آزمایا جا چکا۔ اب تو کھُلّم کھُلّا بربریت کی رسم عام ہے۔ یوں لگتا ہے جو کچھ ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں وہ سچ نہ ہو بلکہ خوفناک فلمی مناظر ہوں کیونکہ ایسا ہونا انسانیت کی شدید توہین اور تذلیل ہے جس طرح پچھلے کچھ عرصے سے دنیا بھر میں مذہبی رجحانات میں شدت آئی ہے اسی طرح رویوں میں نرمی کی بجائے جنون کا دور دورہ ہوا ہے جو بالکل متضاد عمل ہے۔

دنیا میں اربوں انسان ہیں۔ ان میں اکثریت صلح جو، محبت کرنے والی اور انسانیت کی بقا کی خواہاں ہے مگر دنیا کی حالت دیکھیں تو صورتحال یکسر مختلف نظر آتی ہے۔ آج معصوم لوگوں کا جس قدر لہو بہایا جا رہا ہے شاید اس سے قبل کبھی ایسی کوئی مثال نہ ہو۔ سوال یہ ہے کہ اگر دنیا میں امن اور خیر چاہنے والوں کی اکثریت ہے تو بدامنی کیوں؟ شاید اس لئے کہ روشن خیال اور انسانی حقوق پر یقین رکھنے والے اپنی ذات تک محدود ہیں۔ وہ اکٹھے نہیں ہوتے، اپنے ٹھنڈے اور آرام دہ ڈرائنگ روم سے باہر نہیں نکلتے اور ایک پلیٹ فارم پر آ کر ظالم کو نہ للکارتے ہیں، نہ اسے اس کی حیوانیت کا احساس دلاتے ہیں جس کی وجہ سے مٹھی بھر شر انگیز اذہان دنیا کو جہنم بناتے جا رہے ہیں۔ یوں اس وقت دنیا پر جنون کی حکمرانی ہے جس کے باعث دنیاوی اور دینی تعلیم کی اعلیٰ ڈگریوں کے حامل افراد کے رویے ایک لمحے میں ناقابلِ برداشت حد عبور کرنے لگتے ہیں اور یہ ہر سطح پر جاری و ساری ہے۔ سوچنے اور سدِّباب کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ انسان شاید بھوک، افلاس اور اسلحے سے نہ مرے مگر لوگوں کی نفرت ضرور اُس آتش فشاں کو اِس حد تک بھڑکا دے گی جو سبزے کی بہار کو بھسم کر دے گا۔

آخر اس جنون کی وجہ کیا ہے؟ کیا ہماری خوراک میں کچھ خطرناک عناصر شامل ہو گئے ہیں؟ کیا فطرت سے اختلاف اور جنگ نے ہمیں خونخوار کر دیا ہے؟ کیا ہمارے شعور کی Space میں کچھ اُلٹا ہو گیا ہےکہ بظاہر خیر اور امن کی بات کرنے والے بھی تعصب کے جنون کا شکار ہو کر خاموش ہو جاتے ہیں؟اس وقت پوری دنیا میں مظلوموں کی فہرست میں مسلمان ممالک کے نام لکھے نظر آتے ہیں۔ جہاں شورش ہے، آپسی جھگڑے ہیں، گروہوں میں ماردھاڑ جاری ہے، یہ بدقسمتی تو ہے مگر اس میں ان کے اعمال اور ناکام حکمتِ عملی کا بھی دخل ہے۔ انہوں نے اپنی مرضی سے اپنی ڈوریں کسی اور کے اختیار سے باندھ کر خود کو کٹھ پتلیاں بنا لیا تو کسی کا کیا قصور؟ دنیا میں کتنے اسلامی ممالک ہیں مگر اکثریت اپنے اثاثے اور زبانیں گروی رکھے ہوئے ہے۔ انہیں یہ رسیاں کھولنی ہوں گی۔ وہ ظلم کے خلاف تلوار بھلے نہ اٹھائیں، آواز تو اٹھا لیں۔ آخر ہم ایمان کے کمزور ترین درجے پر کب تک فائز رہیں گے؟ یہ کیفیت بھی سولی کی مانند ہوتی ہے جو روح کو ہر لمحہ کچوکے لگاتی رہتی ہے۔ صرف دل میں برا خیال کرنے سے بات نہیں بنے گی۔ زندگی اپنے ڈرائنگ روم، اپنی کار اور دفتر تک محدود نہیں ہو سکتی۔ فضا میں ابھرنے والی آہیں ضائع نہیں ہوتیں، جمع ہوتی رہتی ہیں۔ پھر کسی بڑے طوفان کی صورت نمودار ہوتی ہیں۔ ہم سب قصور وار ہیں۔ ہر خاموش اور بے حس فرد بھی برابر کا قصور وار ہے اور اپنے حصے کی سزا کا حقدار بھی۔ میں ایک عورت ہوں۔ شاید میں صرف ایک ماں ہوں اور دنیا کو ماں کی نظر سے دیکھتی ہوں۔ بچوں کے آنسو میری روح میں سرایت کرتے ہیں۔ جب سے فلسطینی بچی کی ویڈیو دیکھی ہے، میری نیندیں اور چین گم ہو گیا ہے۔ ایک دس سال کی بچی نے اپنے چند سوالوں میں نہ صرف دنیا کو آئینہ دکھا دیا بلکہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس کے آنسو، اس کی بے بسی، اس کی حیرت اور اس کا دکھ انسانیت کا دُکھ ہے۔ ہم سب کا دُکھ ہے مگر ترقی پذیر ملکوں کو انسانی حقوق کا درس پڑھانے والے اور انسانیت کا راگ الاپنے والے ملکوں کو ویٹو کرتے ہوئے اس بچی کی آہیں سنائی دیں نہ آنسو دکھائی دیئے۔ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے۔ فطرت مسلسل اپنی ناراضی اور غم و غصے کا اظہار کرتی جا رہی ہے مگر انسان سمجھنے کو تیار نہیں۔ مظلوموں کے لئے بولیں، اس سے پہلے کہ ہم بولنے کے قابل نہ رہیں۔ دنیا میں خیر کی حکمرانی کے لئے ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا ورنہ یہ دنیا ہمارے بچوں کے لئے خوشگواریت کی حامل نہیں رہے گی۔ ہر انسان خدا کی مخلوق ہے اور اس حوالے سے وہ معتبر ہے۔ ہر جان قیمتی ہے۔ دنیا کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ پوری کائنات خدا کا کنبہ ہے، وہ انسانوں کو دکھ دے کر خدا کی ناراضی کو دعوت دے رہی ہے۔