امریکہ میں پاکستانی محنت کش اور ان کے ہموطن استحصالی

June 25, 2013

امریکی حکام نے گزشتہ دنوں امریکہ بھر میں مشہور ریٹیل چین سیون الیون کی دکانوں پر چھاپے مار کر14 دکانوں کو بند کر دیا اور ان کے مالکوں اور منیجروں کو گرفتار کر لیا ہے۔ ان دکانوں کے مالکان کی اکثریت پاکستانیوں کی ہے جو پاکستانی تارکین وطن ملازمین اور محنت کشوں کا بری طرح استحصال کرتے تھے جسے امریکی حکام نے کسی زمانے میں امریکی جنوب میں غلاموں سے محنت مشقت لی جانے والی پلانٹیشن کی طرز پر جدید دور کی بیگار یا پلانٹیشن سے تعبیر کیا ہے۔ امریکہ میں ایسے پاکستانیوں کے ہاتھوں پاکستانی تارکین وطن کی دیسی غلامی اور بیگار گزشتہ دس برسوں سے جاری تھی جس میں پچاس تارکین وطن جن میں زیادہ تر پاکستانی ہیں نے کم سے کم اجرت سے بھی انتہائی کم اور نیم جبری محنت کروا کے ان اسٹوروں کے مالکان نے ایک سو اسّی ملین ڈالر کما لئے۔ اب ایک پاکستانی جوڑے سمیت ایسے ضبط شدہ اسٹوروں کے مالکان اور کچھ منیجروں کو سخت امریکی نظام انصاف کا سامنا ہو گا اور ریاستی اداروں نے ریاستی اور وفاقی قوانین کی مبینہ سنگین خلاف ورزیوں پر ان سے تیس ملین ڈالر وصول کرنے اور جرم ثابت ہونے پر ان کو سخت سزائیں دینے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ ان اسٹوروں میں ہموطن محنت کشوں یا ملازمین سے ایک ایک سو گھنٹہ کام کے عوض انہیں محض ڈھائی تین سو ڈالر ہفتہ دیئے جاتے تھے جبکہ ان کی رہائش ناگفتہ بہ حالات میں ان اسٹوروں کے سڑک پار یا آس پاس مالکان کی ہی املاک پر تھی اور ان مزدوروں کی تنخواہ سے ان سے مکانوں کے کرائے بھی وصول کئے جاتے تھے۔ کن کے نام امریکی سوشل سیکورٹی نمبر فوت ہوجانے والے امریکیوں اور بچوں تک کے جعلی طور استعمال کئے گئے تھے۔ یہ کیس پاکستانی جیل اور حوالات جیسی تنگی میں ٹولیوں کی صورت ان مکانوں میں رہتے تھے۔ ان کے محلے والوں کا کہنا ہے کہ ہروقت ان تارکین وطن کو انہی اسٹوروں پر کام کرتے دیکھا جاتا تھا۔ امریکہ کی قریبی تاریخ میں یہ وفاقی حکام (جن میں امیگریشن اور ہوم لینڈ سیکورٹی شامل تھی)کی طرف سے تارکین وطن محنت کشوں کے استحصال کے کیس میں یہ سب سے بڑی کارروائی بتائی جارہی ہے۔ امریکی حکام چاہے بدقسمت تارکین وطن محنت کش اور ان کے اہل خانہ مبارکباد کے مستحق ہیں کہ ایسے ان کے اپنے ہموطن خون چوسنے والے استحصالیوں کی پکڑ تو ہوئی۔ امریکی نظام انصاف میں دیر تو ہے اندھیر ہرگز نہیں۔
لیکن تارکین وطن کی بیگار اور ان کے تارکین وطن مالکان کا رات بھر میں کروڑ پتی، ارب پتی بن جانے کے یہ چودہ اسٹور فقط برف کے تودے پر ایک قطرے کے برابر ہے جبکہ امریکہ میں تارکین وطن کا ایسا استحصال باوجود سخت امریکی قوانین اور حقوق کے کئی برسوں عشروں سے ایک ساحل سے لیکر دوسرے تک، نیویارک سے لیکر نیومیکسیکو ، کینی کٹیکٹ سے کیلیفورنیا تک، جاری ہے۔ یہ استحصال اور بیگار اس طرح ہے جس طرح سندھ میں وڈیروں کی نجی جیلیں یا پنجاب میں بھٹہ مزدور یا پختونخوا اور افغانستان میں خرکار کیمپ ہوا کرتے تھے۔ امریکہ میں بھی بہت کیسوں میں تارکین وطن خاص طور پر پاکستانی بندی مزدور کے حالات بھی وطن عزیز کے بیگار کیمپوں کی طرح زیادہ مختلف نہیں۔اسی سال فروری میں امریکی حکام نے نیویارک میں ایک پاکستانی تعمیراتی کمپنی کے مالکان کو بتیس ملین ڈالر کے فراڈ اور مزدوروں کے استحصال کے الزامات میں گرفتار کیا جہاں مزدور کو چھ سو ڈالر ہفتہ کے بجائے ڈھائی سو ڈالر ادا کیا جاتا تھا۔ تارک وطن پاکستانی مزدور کا استحصال تو اس کے ہموطن خوشخال آجر کے ہاتھوں اس دن سے شروع ہوجاتا ہے جس دن وہ بہتر زندگی یا آزادی کا خواب لیکر امریکی سرزمین پر قدم رکھتا ہے۔
پھر وہ سیون الیون اسٹور ہوں، پیٹرول پمپ یا گیس اسٹیشن ریستوران ہوں، ٹیکسی کمپنیاں ہوں، کنونس اسٹور ہوں، پرائیویٹ سیکورٹی، پارکنگ لاٹس، بڑی بڑی کارپوریشنیں یا ان کے نام کی فرنچائز ہوں کہ اسمال بزنس کی دکانیں اور کاروبار، تعمیراتی کمپنیاں ہوں یا نام نہاد فیملی یا مام پاپ اسٹور تارک وطن محنت کش بہتر زندگی کا آمریکی خواب آنکھوں میں بسا کر آنے والے کیلئے ایک سراب اور دھوکہ ہوتا ہے۔ ایسے استحصالی تارکین وطن یا امریکی مالکان کیلئے بھی تارکین وطن روٹی روزی کا متلاشی ایک شکار یا پنجابی میں کہتے ہیں ”دھر“ ہوتا ہے۔ پہلے تو وہ اپنے ہم وطن اور ہونے والے استحصالی کی امارت اور کامیابی کی جھوٹی کہانیوں سے نفسیاتی طور پر مرعوب ہوتا ہے۔ ایسے استحصالیوں کو ایسے ہی مجبور اور ضرورت مند ہموطن محنت کشوں اور ملازمین کی تلاش ہوتی ہے جو غیر قانونی ہوں، جن کے ویزے کی میعاد گزر گئی ہو، جو وزٹ ویزہ پر آیا ہو یا جو نیا نیا امریکہ آیا ہو۔امریکہ میں لیبر قوانین آٹھ گھنٹے کام اور اس سے زیادہ گھنٹے اوور ٹائم (جو ڈبل اور چھٹی والے دن ڈیڑہ گنا زیادہ اجرت کی ادائیگی ہوتا) ہے لیکن اکثر دیسی آجر نہ ایسا کوئی ملازم رکھے گا جو اس سے اوور ٹائم مانگے (دیسی مالک کے نزدیک اوور ٹائم کا تقاضا کرنا نوکری سے برطرف کر دینے کے مترادف ہے۔ پاکستانی یا دیسی تارک وطن کو ہفتے میں چالیس گھنٹوں کے بجائے جب ستّر اسّی اور سو سو گھنٹے کام دینے کا جھانسہ اس کا ہموطن دیتا ہے تو پھر بیچارہ تارک وطن بندہٴ مزدور تو امریکی ڈالر کو پاکستانی روپوں میں کنورٹ کرکے ایک مسحور کن خواب میں چلنے لگتا ہے لیکن کئی کیسوں میں وہ فی گھنٹہ اجرت بھی امریکی قانونی کم از کم اجرت سے کئی گنا کم ہوتی ہے۔ آٹھ گھنٹے یومیہ کی اجرت یا تو اسی کم سے کم اجرت کے حساب سے غیر قانونی دیکر یا پھر اسی سے بھی کئی گنا کم دیکر نہ فقط آجر اپنے لاکھوں کروڑوں ڈالر بچاتا ہے بلکہ وہ ٹیکس اور اوورٹائم سمیت کئی قوانین کے جھمیلوں میں بھی نہیں پڑتا۔ نہ سوشل سیکورٹی، نہ ٹیکس، نہ انشورنس اور نہ مزدور کو حادثے کے صورت میں ادائیگی یا ورکرز کمپنسیشن یا دوسری کئی انشورنس کے چکروں میں مالک پڑنا چاہتا ہے۔ مزدور و ملازم کے ایسے حقوق کے متعلق امریکی محکمہ محنت کی طرف سے جاری کردہ اشتہار بھی مزدور کے کام کی نمایاں جگہ پر نہیں بلکہ عقبی کمرے، گودام میں لگے ہوتے ہیں۔
امریکی قوانین کو جل دینے والے یہ دیسی مالکان اور منیجر اپنا کوئی ہمسر و ثانی نہیں رکھتے۔ ان کے بیوی ، بچوں، تایازاد، ماموں زاد اور رشتہ دار عزیزوں کے نام ہروقت پے رول پر ہوتے ہیں۔ پہلے تو ان کے استحصال کے شکار شکایت کرتے نہیں، اگر وہ شکایت کرتے بھی ہیں تو ایک جعلی پے رول سامنے لایا جاتا ہے گواہ اور منیجر کے اپنے وہی رشتہ دار ہوتے ہیں جو ان کی مزدور دوستی کمیونٹی کے لیڈر ہونے کی گواہی دیتے نظر آتے ہیں۔ کئی کاروباروں کے تو بے نام مالکان امریکہ سے باہر بیٹھے ہیں جن کے عزیز باہر ہیں اور ان کے سوشل سیکورٹی نمبر بجائے غیر قانونی تارکین وطن کو ان کے بمشکل گزارہ لائق اجرت کے پے چیکس میں استعمال ہوتے رہتے ہیں۔ ٹیکس ریٹرن ان غریب غیر قانونی تارکین وطن کو نہیں ان کے مالکان کی بیویوں رشتہ داروں دوستوں کو ادا ہوتا ہے جن کے نام کے سوشل سیکورٹی نمبر استعمال ہوئے ہوتے ہیں۔ ایک سے دس دس بیس بیس اسٹور کمپنیاں راتوں رات بن جاتی ہیں۔
ان مالکان کی شکایت کرنے کی کوشش والے کو بھی امریکہ بدری کی ہروقت دھمکیاں دی جاتی ہیں حالانکہ مزدور کی مزدوری پر شکایت پر اس سے اس کی امیگریشن حیثیت کو خاطر نہیں لایا جاتا۔
کئی تارکین وطن محنت کشوں کے استحصالی کمیونٹیز کے نام نہاد لیڈر بنے ہوئے ہیں۔
یہ کاروبار برسوں اور عشروں سے تارکین وطن کے استحصال اور سو سو اسّی اسّی گھنٹے ہفتہ کے خون پسینے سے کروڑوں اربوں بنا رہے ہیں جنہیں کئی کیسوں میں تو مالکان گھر بیٹھے مانیٹر کر رہے ہوتے ہیں۔ کمیونٹی لیڈری کرتے ہیں۔ وزیر اور مشیر بننے کے خواب دیکھتے ہیں،کئی بنے بھی ہیں۔ امریکی کانگریس مینوں اور سینیٹروں کے ساتھ فوٹو کھنچواتے ہیں۔ پاکستانی اور امریکی سیاسی پارٹیوں کے عہدیدار ہیں۔ پاکستان سے آنے والے سیاستدانوں اور بیوروکریٹوں پر اپنی امارت کا رعب جھاڑتے ہیں، دانشوری بگھارتے ہیں۔ میں نے ایسے منیجروں کو دیکھا ہے کہ وہ کسی مزدور بچارے کو آیتیں سناتا تھا تو کسی کو فیض اور جالب کے شعر سناکر اس کا استحصال کرتے تھے بیچارے تارک وطن مزدور کا تو حال اس پنجابی ماہیے کے ٹپے جیسا ہے:
منڈے مر گئے کمائیاں کر کے
تے بانو تیرے ب ندے نہ بنے