اعتماد کا فقدان

June 12, 2021

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی تاریخ اتنی ہی گھمبیر ہے جتنی کسی بھی دو ممالک کے درمیان ہو سکتی ہے۔ نان نیٹو اتحادی ہونے سے لے کر کچھ مشترکہ مفادات میں اشتراک اور ’’جھوٹے‘‘ اور ’’دغا باز‘‘ کہلوانے سے لے کر طالبان کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار کرنے تک، یہ ایک ایسی تاریخ ہے جو ہمیشہ سے غیریقینی کا شکار رہی ہے۔ شاید ہی کوئی موقع آیا ہو جہاں باہمی یگانگت کے ساتھ معاملات کے حل کی کوشش کی گئی ہو۔ آزادی کے فوراً بعد ایک خود مختار ملک کی حیثیت سے پاکستانی رہنماؤں نے جمہوری اقدار کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہزاروں میل دور واقع امریکہ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا جس کی نوعیت اور افادیت وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہی لیکن یہ کبھی مکمل ہم آہنگی کی دوستی نہ بن سکی جس پر پاکستان بھروسہ کر سکتا۔ یہ دوستی بدلتے وقت کے تقاضوں پر کبھی پوری نہ اتر سکی۔ میں ذاتی طور پر پاکستان کی خارجہ پالیسی پر تنقید کرتا رہا ہوں لیکن اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ اس بگاڑ میں پاکستان کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر رہا ہے اور اس کا سارا ملبہ امریکہ پر آتا ہے جس کی قیمت پاکستان کو اپنی آزادی کے ابتدائی دور میں چکانی پڑی جب ایک قابلِ اعتماد دوست کی شدید ضرورت محسوس کی گئی۔

چاہے اشتراکی نظام کیخلاف جنگ میں پاکستان کی سیٹو اور سینٹو کی رکنیت کا معاملہ ہو یا دہشت گردی کے خلاف شروع کئے گئے جہاد میں شرکت کا معاملہ، امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کا تعین اپنی شرائط کے مطابق کرنے کی کوشش کی۔ بعض پالیسیوں پر اختلاف کی صورت میں امریکہ کی جانب سے وقتاً فوقتاً پاکستان کو پابندیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا جن کی وجہ سے اس کے بنیادی مفادات کو گہرا نقصان پہنچا۔ امریکہ کو جب بھی پاکستان کی ضرورت پڑی اس نے ہر بار نئے سرے سے تعلقات استوار کئے لیکن عدم اعتماد کے فقدان کی فضا ہمیشہ برقرار رہی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ احساس اور گہرا ہوا کہ دو طرفہ تعلقات کا یہ رشتہ کبھی ایسے استوار نہیں ہو سکا جیسا دو خود مختار ممالک کے درمیان ہوتا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرانے جا رہی ہے۔ پاکستان اور امریکہ ایک بار پھر دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں امریکہ افغانستان سے اپنی افواج کے انخلا کے بعد پیدا ہونے والی کسی ممکنہ غیریقینی کی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے پاکستانی سرزمین پر ڈرون اڈے کے قیام کی کوششوں میں مصروف ہے۔ قیاس آرائی کی جا رہی ہے کہ کیا امریکہ نے واقعی پاکستان سے اپنی سرزمین پر ہوائی اڈے بنانے کی درخواست کی ہے۔ اب تک سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق افغان سرزمین پر دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کے تسلسل کے لئے کسی بھی قسم کی معاونت فراہم کرنے کے امکان کو پاکستان نے یکسر مسترد کر دیا ہے لیکن اس کے باوجود امریکی انتظامیہ اپنے مفادات کو محفوظ بنانے اور پاکستان کو ایک نہ ختم ہونے والی کشمکش میں گھسیٹنے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔اس تناظر میں ایک جہت اور بھی ہے جو امریکہ سمجھنے سے قاصر ہے۔ یاپھر وہ اس حقیقت کو جان بوجھ کر سمجھنا نہیں چاہتا کیونکہ اس کے خیال میں ایسا کرنے سے اس کاوقار مجروح ہوسکتا ہے۔ اس کا تعلق چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات سے ہے جو آزمائش اور مشکل کی ہر گھڑی پر پورا اترے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ مزید مضبوط و مستحکم ہوتے رہتے ہیں، یہ رشتہ پاکستان کے امریکہ اور چین کے ساتھ تعلقات کے درمیان فرق کو اجاگر کرتا ہے۔امریکہ کے ساتھ تعلقات ہمیشہ اتار چڑھائو کا شکاررہے ہیں لیکن چین کے ساتھ تعلقات وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کی منازل طے کرتے رہے ہیں جو آج پاکستان کے لئے طاقت اور فخر کا مرکز بن گئے ہیں۔

طالبان اب افغان دارالحکومت کابل کے دروازوں پر دستک دے رہے ہیں۔ فریقین کے درمیان کسی بھی معاہدے کی عدم موجودگی میں ،جس کے اب پہلے سے زیادہ امکانات نظر آ رہے ہیں، وہ دارالحکومت پر قبضہ کرنے کا بھی منصوبہ بنا سکتے ہیں اور ایسا ہونے کی صورت میں افغانستان میں تشدد کی لہر میں مزید شدت پیدا ہو سکتی ہے، عدم استحکام کی صورت میں پناہ گزینوں کا بڑے پیمانے پر اخراج ہو سکتا ہے جوپاکستان میں بھی داخل ہوسکتے ہیں۔ اسی وجہ سے انسانی نقل وحمل کا ایک نہ ختم ہونے والا بحران پیدا ہوگا جس سے نمٹنے کے لئے پاکستان ،دیگر ممالک اور عالمی تنظیموں کے درمیان باہمی اور ٹھوس تعاون درکار ہوگا۔ بالآخر یہ پاکستان ہی ہے جسے اپنی مغربی سرحد پر ایسے واقعات کا مقابلہ کرنا ہوگااور طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات کو انتہائی ذہانت اور خوش اسلوبی سے آگے بڑھانا ہوگا۔

امریکہ کی طرف سے پاکستان پر لگائے گئے ’’جھوٹ او رفریب‘‘ اور امریکی قیادت کو ’’بے وقوف‘‘ سمجھنے کے الزامات نے پاکستان کو عملی موقع فراہم کیا کہ وہ اپنی پالیسیاں اپنے مفادات کے مطابق تشکیل دے سکے۔ یقیناً چین، روس، یورپ اور دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان امریکہ کے ساتھ بھی باہمی سودمندانہ تعلقات استوار رکھنے کا خواہاں ہے تاہم یہ دوسرے دوست ممالک کے ساتھ وابستہ مفادات کی قیمت پر استوار نہیں ہو سکتے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہی وہ طور ہے جو پاک امریکہ دوطرفہ تعلقات کی بہتری و توسیع کے امکانات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ رہا ہے۔سوال ایک بار دھوکہ کھا کر باربار شرمندہ ہونے سے بچنے کا نہیں۔ ماضی کے تاریخی پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے افغانستان کے اندر انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کی ممکنہ صلاحیتوں کو برقرار رکھنے کیلئے امریکہ کو ڈرون اڈہ دینا تو درکنار ایسا سوچنا بھی ایک بڑی غلطی ہوگی اور اس کی ناقابلِ برداشت قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔ انکارکا فیصلہ ہی دانشمندانہ فیصلہ ہے۔