ایف سولہ طیارے :پاکستان کا معقول موقف

May 05, 2016

وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز کا اسلام آباد میں ایک سیمینار سے خطاب کے دوران یہ اعلان کہ امریکہ سے ایف سولہ طیاروں کی فراہمی میں رکاوٹ برقرار رہی تو پاکستان اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے طیارے کہیں اور سے حاصل کرلے گا، بلاشبہ قومی خودداری کا خوش آئند مظاہرہ ہے۔ طیاروں کی خریداری کیلئے امریکہ جانب سے 70 فی صدرقم بطور امداد فراہم کرنے سے حالیہ انکار کا سبب واضح شواہد کے مطابق بھارت کی خوشنودی کا حصول اور پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لیے چھوٹے جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے روکنا ہے۔ بھارت کے مطالبے پر اختیار کی گئی اس امریکی حکمت عملی پرپاکستان کی قومی خودمختاری کا تقاضا یہی ہے کہ واشنگٹن کو کھل کر بتادیا جائے کہ پاکستان اپنے دفاعی تقاضوں پر سمجھوتہ کرکے خطے میں بھارت کا تابع مہمل بن کر رہنے کیلئے ہرگز تیار نہیں اور مشیر خارجہ کا خطاب اسی قومی پالیسی کا آئینہ دار ہے۔ جناب سرتاج عزیز نے اس حقیقت کو بھی اجاگر کیا کہ بھارت اپنی جوہری طاقت بڑھاتا رہا تو اپنے دفاع کی خاطر طاقت کا توازن برقرار رکھنے کیلئے ہم بھی ایسا کرنے پر مجبور ہوں گے۔ مشیر خارجہ کا یہ موقف ریکارڈ پر موجود حقائق سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ جنوبی ایشیا میں جوہری دوڑ بھارت ہی نے شروع کی اور پاکستان کے خلاف جارحانہ عزائم کے اظہار کا سلسلہ جاری رکھ کر پاکستان کیلئے اس کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں چھوڑا کہ وہ بھی وہ کم از کم جوہری دفاعی صلاحیت حاصل کرے جو اسے بھارت کے جارحانہ عزائم سے محفوظ رکھ سکے۔ حقیقت پسندی کا تقاضا ہے کہ امریکہ پاکستان کے اس سراسر جائز اور معقول موقف کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان کو اپنے ناگزیر دفاعی تقاضوں کی تکمیل سے روکنے کی کوششوں کے بجائے بھارت کے جنگی جنون کے علاج کی مؤثر تدابیر عمل میں لائے۔ بھارت ہتھیاروں کی دوڑ سے باز آجائے تو پاکستان کو یقیناً جوابی اقدامات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی ، دونوں ملک اپنے وسائل اپنے عوام کی بہبود پر خرچ کرسکیں گے اور عالمی امن کو لاحق خطرات میں بھی کمی آئے گی۔